بدلتے موسم، ہجرت کو بڑھاوا دے رہے ہیں!

شبینہ فراز  بدھ 7 اکتوبر 2020
ملک کے اندر جاری 40 فیصد نقل مکانی کی وجہ آب و ہوا کی تبدیلیاں ہیں۔ (تصاویر: بلاگر)

ملک کے اندر جاری 40 فیصد نقل مکانی کی وجہ آب و ہوا کی تبدیلیاں ہیں۔ (تصاویر: بلاگر)

اگر ناصر کاظمی ہمارے ساتھ ہوتے تو یہ شعر یقیناً کچھ یوں ہوتا۔

’’جبل گاؤں‘‘ کے دیواروں پر ناصر

’’غربت‘‘ بال کھولے سو رہی ہے

اور اس ’’غربت‘‘ لفظ کو ہم نے مجسم تصویر ہوتے اس روز ’’جبل گاؤں‘‘ میں دیکھا۔ دوپہر کا وقت تھا، گرمی ایسی کہ چیل بھی انڈہ چھوڑ دے۔ پارہ 41 ڈگری سینٹی گریڈ کو چھو رہا تھا لیکن اس شدید گرمی کے باوجو گاؤں کی خواتین نے روایتی گرم جوشی سے ہمارا استقبال کیا۔

کچی دیواروں اور سرکنڈوں کی چھت والے چھپر، طاق میں رکھے چند برتن، بجھے ہوئے چولہے، بستر اور صحن میں بندھے کچھ مویشی، اسے اگر گھر کہا جاسکتا ہے تو یہی ان کا گھر تھا اور یہی ان کی متاع حیات۔ بجلی، اسکول، اسپتال، بیت الخلا جیسی بنیادی سہولیات کی بات کرنا ان کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف تھا، سو چپ رہنا ہی بہتر تھا۔

200 گھرانوں پر مشتمل اس جبل گاؤں میں بروہی برادری کے لوگ آباد تھے۔ مون سون کی شدید بارشوں کے بعد یہ لوگ تقریباً 23 کلومیٹر دور یو سی چھٹوچھان کے گاؤں سے یہاں آکر عارضی طور پر آباد ہوئے تھے۔ بدلتے ہوئے موسموں اور تیز بارشوں میں ڈوبتے گھروں اور جانوروں کےلیے چارے کی ناپیدی نے انہیں ہجرت کے عمل پر مجبور کیا اور وہ اپنے اہل خانہ اور جانوروں کی جان بچانے  کےلیے اپنے گھروں کو چھوڑ کر جبل گاؤں میں آگئے۔ یہاں ان کے آباء و اجداد کی کچھ زمینیں اور کچے گھر موجود تھے۔

’’ہمارے بڑے مال مویشی پالنے کا ہی کام کرتے تھے، ہم بھی یہی کرتے ہیں۔‘‘ جبل گاؤں کی حلیمہ بی بی نے بتایا ’’مگر اب مال (مویشی) کےلیے گاھ (چارا) نہیں رہا، اس لیے پریشانی ہوتی ہے۔‘‘

حلیمہ کے جد امجد ڈھائی سو سال قبل بلوچستان کے ضلع خضدار کے ایک علاقے پندرانی سے نقل مکانی کرکے ضلع ٹھٹھہ میں آباد ہوئے تھے اور حلیمہ ان کی پانچویں نسل سے تعلق رکھتی ہیں۔

پاکستان میں مویشی پالنا یا گلہ بانی باقاعدہ ایک پیشے میں شمار ہوتا ہے اور لاکھوں لوگ اس سے وابستہ ہیں۔ انہیں مختلف علاقوں میں مختلف نام دیے گئے ہیں، مثلاً پنجاب اور کشمیر کے چرواہے گجر یا بکروال کہلاتے ہیں اور صرف بکریاں اور بھیڑیں پالتے ہیں۔ جبکہ دیگرعلاقوں کے چرواہے بڑے جانور بھی پالتے ہیں۔ اکثر چرواہے بہتر چراگاہوں کی تلاش میں جانوروں سمیت سفر کرتے ہیں۔ کہیں کہیں انہیں  خانہ بدوش بھی کہا جاتا ہے۔ سابق آئی جی جنگلات سید محمود ناصر کی تحقیق کے مطابق دیگر چرواہوں اور بکروال میں ایک واضح فرق دیکھا جاسکتا ہے اور وہ فرق ان کے سفر کی سمت کا ہے۔ بکروال عمودی(میدان سے بلند بالا پہاڑی چراگاہوں اور پھر میدان) سمت اور دیگر چرواہے افقی سمت میں سفر کرتے ہیں۔ ان سب کا ذریعۂ روزگار گلہ بانی پر ہی منحصر ہے۔ دودھ اور مویشیوں کی خریدوفروخت ہی ان کا ذریعہ معاش ہوتا ہے، لہٰذا مویشیوں کےلیے بہتر سے بہتر چراگاہ کی تلاش ان کی ضرورت ہے۔

حلیمہ کے آباء و اجداد کا شمار بھی چرواہوں میں ہی کیا جاسکتا ہے جو اپنے آبائی علاقے میں چارے اور سبزے کی ناپیدی کے باعث بہتر چراگاہوں کی تلاش میں ٹھٹھہ پہنچے تھے۔ چرواہا وہ برادری ہے جو بدلتے موسموں سے سب سے زیادہ متاثر ہے۔ موسموں کی تبدیلی ان کے جانوروں کےلیے چارے اور پانی کے وسائل پر اثر انداز ہوتی ہے، جس کے باعث یہ دن بہ دن اپنے جانوروں کی تعداد گھٹانے پر مجبور ہوتے ہیں اور یوں ان کے روزگار پر منفی اثر پڑتا ہے۔ چارے اور پانی کی کمی کا جو مسئلہ حلیمہ کے پرکھوں کو لاحق تھا، آج حلیمہ کےلیے بھی پریشانی کا باعث ہے۔ گویا بلوچستان سے سندھ کے ضلع ٹھٹھہ تک ان ڈھائی سو برسوں میں کچھ بھی نہیں بدلا، سوائے موسموں کے۔

حلیمہ یا اس کے گاؤں کی دیگر عورتیں یہ تو نہیں جانتی تھیں کہ کلائمیٹ چینج یا گلوبل وارمنگ کس بلا کا نام ہے، لیکن وہ آب وہوا میں آنے والی چھوٹی بڑی تبدیلیوں سے بخوبی واقف ہیں۔

’ پہلے اتنی بارشیں نہیں ہوتی تھیں۔ اب تو ہمارے گھر ڈوب جاتے ہیں، جانور پانی میں کھڑے رہیں تو بیمار ہوجاتے ہیں۔ مجبوری میں گھر چھوڑنا پڑتا ہے۔‘‘

چرواہوں کی برادری میں جانور بھی گھر کا ایک فرد تصور کیا جاتا ہے اور اہل خانہ سے زیادہ ان کی فکر کی جاتی ہے۔ حلیمہ نے مزید بتایا ’’ابھی بارش ہوئی ہے تو یہاں جانوروں کےلیے گھاس موجود ہے لیکن دو مہینوں بعد ختم ہوجائے گی۔ میرا گھر والا جانوروں کے چارے کےلیے  زمینوں میں مکئی لگا رہا ہے۔ جب چارا ختم ہوجائے گا تو ہم اپنے گاؤں چھٹوچھان واپس چلے جائیں گے۔‘‘

’’پہلے یہ علاقہ کیسا تھا؟‘‘ ہمارے پوچھنے پر حلیمہ نے سوچ کر بتایا ’’پہلے بہت ہرا بھرا تھا، درخت بھی بہت تھے۔ جانوروں کےلیے گھاس پھوس بھی بہت ہوتی تھی۔ زمینوں کا پانی بھی میٹھا تھا۔ کنوئیں اوپر تک میٹھے پانی سے بھرے ہوتے تھے۔ کسی سال بارش نہیں بھی ہوتی تو اتنا مسئلہ نہیں ہوتا تھا۔‘‘

حلیمہ کا مشاہدہ صحیح تھا۔ تمام ساحلی علاقوں میں اب زیر زمین میٹھا پانی نہ ہونے کے برابر ہے۔ جبل گاؤں کی ان خواتین کو بھی پینے اور گھر کے استعمال کےلیے پانی بہت دور سے لانا پڑتا ہے۔

اسی گاؤں کے تراب کا کہنا تھا کہ ان کے پاس صرف دو ایکڑ زمین ہے جس پر وہ جوار، باجرہ اور تھوڑی سی سبزی (بھنڈی اور پیاز) کاشت کررہے ہیں، لیکن اس سے پورے خاندان کا گزارا نہیں ہوسکتا۔ مزدوری بھی نہیں ملتی اس لیے وہ روزانہ پہاڑوں سے لکڑی کاٹ کر بیچتے ہیں۔ سارا دن لکڑی کاٹنے کی کڑی مشقت کے بعد 8 من  کے قریب لکڑی بیچنے سے 100 روپے کی قلیل رقم ملتی ہے جس سے بس زندگی کو بہلایا جاسکتا ہے، گزارا نہیں جاسکتا۔

بدلتے موسم یا آب و ہوا کی تبدیلیوں سے ساحلی علاقوں سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہجرت کررہی ہے۔ عالمی بینک 2017 کی رپورٹ کے مطابق ملک کے اندر جاری 40 فیصد نقل مکانی کی وجہ آب و ہوا کی تبدیلیاں ہیں۔

ہجرت کے اس عمل سے لوگوں کی معاشی، جسمانی اور دماغی صحت متاثر ہورہی ہے اور یوں ایک خاموش انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔

بدلتے موسموں کی تبدیلی کے خطرات کا سامنا کرنے والے اولین دس ممالک میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستانی معیشت کو اب تک تین ہزار آٹھ سو ملین امریکی ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے اور حکومت کو مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا چھ سے آٹھ فیصد ان تباہ کاریوں سے نمٹنے میں خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اگر ہجرت کے عمل میں لوگوں کو پیش آنے والی مشکلات کا شمار بھی کیا جائے تو یہ نقصان اور بڑھ جائے گا۔

کلائمیٹ چینج یا آب و ہوا کی تبدیلی نامی بلا سے معاشی نقصان کے ساتھ ساتھ جو جانی نقصان ہوا وہ الگ ہے۔ جرمن واچ انڈیکس نامی ادارے کے مطابق اوسطاً سالانہ 523.1   اور بیس سال میں 10,642 جانیں ضائع ہوئیں۔ ان ہی بیس برسوں میں پاکستان نے آب و ہوا کی تبدیلی سے پیش آنے والی 141 آفات برداشت کیں جن میں سیلاب، خشک سالی، بے موسم شدید بارشیں، برف باری کے طوفان، گلیشیئرز کی جھیلوں کا پھٹنا (Glacial Lake Outburst Floods(GLOF)  اور درجہ حرارت کا بڑھنا(Heat wave) وغیرہ شامل ہیں۔

ایک بین الاقوامی تنظیم اسلامک ریلیف سے وابستہ ماحولیاتی وکیل اور ایڈوکیسی کے سربراہ سرمد اقبال کے مطابق ’’ہماری تنظیم پچھلے 25 سال سے ماحول اور موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق مختلف شعبوں میں کام کررہی ہے اور ہمارے مشاہدے کے مطابق موسموں کی تبدیلی سے ہونے والی نقل مکانی ایک ایسا ابھرتا ہوا مسئلہ ہے جو آنے والے وقت میں خطرناک انداز میں بے قابو ہوسکتا ہے۔‘‘ سرمد اقبال نے مزید بتایا کہ ان کے ادارے اسلامک ریلیف نے سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے کچھ ایسے علاقوں میں تعلیمی اداروں کی مدد سے تحقیق کی ہے جو بدلتے موسموں کے زیر اثر نقل مکانی کے حوالے سے انتہائی حساس تھے۔ اس تحقیقی منصوبے کا عنوان

Climate Change Induced Migration in Marginalized Coastal Communities of Sindh Pakistan… A Governance Perspective ہے۔

سرمد اقبال نے مزید کہا ’’جبل گاؤں کے رہائشی بھی ان ہی حساس لوگوں میں شامل ہیں جو بدلتے موسموں سے متاثر ہوکر ہجرت کررہے ہیں۔ تحقیق کے مطابق ان تمام علاقوں میں پانی کی کمی یا دیگر مسائل کے باعث وسیع پیمانے پر نقل مکانی ہوسکتی ہے اور اس حوالے سے سرکاری سطح پر کوئی سرگرمی یا تیاری نظر نہیں آتی۔ یہ وہ انسانی المیہ ہے جو کسی قدرتی آفت کی صورت میں قابو سے باہر ہوسکتا ہے۔ ‘‘

اندرون ملک نقل مکانی یا ہجرت کرنے والے علاقوں میں ساحلی علاقے سرفہرست ہیں۔ ایک غیر سرکاری تنظیم آکسفیم کی ایک تازہ تحقیق کے مطابق سجاول اور بدین کے لوگوں میں ڈپریشن کا مرض بہت زیادہ پایا گیا۔ ہجرت کا یہ عمل صرف معاشی یا جسمانی تکلیف کا باعث نہیں بنتا بلکہ یہ دماغ پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہم صرف اسی نقصان کو نقصان مانتے ہیں جسے گنا یا تولا جاسکے۔ آب و ہوا کی تبدیلیوں یا قدرتی آفات میں جو سب سے بڑا عذاب انسان بھگتتا ہے وہ اس کے آبائی علاقوں سے دور ہوجانا ہے- انسان اپنی جگہ ٹھیک ہوتا ہے مگر چونکہ اس کے ارد گرد کی اشیا، جن سے اس کی وابستگی تھی، وہ اس سے دور یا تباہ ہوجاتی ہیں۔ درخت، پیڑ، پودے، فصلیں، مویشی یہ سب اس سے چھن جاتے ہیں تو وہ Solastalgia کی حالت میں چلا جاتا ہے جو دماغی امراض کی ایک شدید شکل ہے۔

بدلتے موسموں کے زیر اثرہونے والی نقل مکانی یا ہجرت کی تین اقسام نظر آتی ہیں۔ مستقل ہجرت، قلیل مدتی ہجرت اور مویشیوں کی بقا کےلیے ہجرت۔ حلیمہ کے گاؤں کے لوگ قلیل مدتی اور جانوروں کی بقا کےلیے ہجرت کرتے ہیں۔

 

نقل مکانی کی وجوہات

ساحلی علاقوں میں آب وہوا کی تبدیلی سے آنے والے سمندری طوفان، سمندر کی سطح کا بڑھنا، زرعی زمینوں میں سمندری پانی کا در آنا، ماہی گیری کے وسائل میں کمی۔ ذرائع روزگار کا نہ ہونا، میٹھے پانی کے ذخائر کا سمندری پانی سے آلودہ ہوجانا۔ سمندری سطح بڑھنے سے سمندری پانی کا درجۂ حرارت بدل جاتا ہے، جس سے مچھلیوں کی افزائش متاثر ہوتی ہے۔ بڑھے ہوئے درجۂ حرارت اور کناروں پر تیزابیت بڑھنے سے مچھلیاں گہرے سمندر میں چلی جاتی ہیں۔ یوں ماہی گیر مشکلات سے دوچار ہوجاتے ہیں۔

 

نقل مکانی یا ہجرت کے اثرات

نقل مکانی کے اس عمل سے خواتین فارمر زیادہ متاثر ہورہی ہیں۔ خواتین اور بچوں کی جسمانی اور ذہنی صحت متاثر ہورہی ہے۔ روزمرہ زندگی اور رہن سہن کا روایتی انداز ختم ہوتا جارہا ہے۔ پائیدار ترقی کا ہدف نمبر 15 جس کا تعلق زندگی اور قدرتی وسائل سے ہے، کا حصول مشکل ترین ہوتا جارہا ہے۔

سمندر ساحلی علاقوں میں لاکھوں ایکڑ زرعی زمینیں نگل چکا ہے اور جب زرعی زمین نہیں ہیں تو خوراک بھی نہیں ہے۔ چکی اور چھاج کو نئی نسل جانتی نہیں۔ روایتیں بدل رہی ہیں۔ مردوں کےلیے ماہی گیری بھی خواب بنتی جارہی ہے۔ ہم نے مچھلی پکڑنے کے جالوں کو بہت سے گھروں میں بطور احاطہ (باؤنڈری وال) آویزاں دیکھا۔

وفاقی سطح پر بدلتے موسموں کے حوالے سے نیشنل کلائمیٹ چینج پالیسی بن کر منظور ہوچکی ہے۔ صوبے بھی  کلائمیٹ چینج کے حوالے سے صوبائی پالیسیوں کی تیاری میں مصروف ہیں۔ پالیسی کی تیاری میں شامل حکومت سندھ سے وابستہ ایک نمائندے کا کہنا ہے کہ پالیسی خاصی جامع ہے مگر اس میں بدلتے موسموں کے تناظر میں ہونے والی نقل مکانی کے حوالے سے کوئی قابل ذکر اقدامات موجود نہیں ہیں، لیکن انہیں شامل کیا جاسکتا ہے۔

سرمد اقبال کا کہنا ہے کہ کم از کم کلائمیٹ چینج کی صوبائی پالیسی میں نقل مکانی کے موضوع پر تفصیل سے بات کی جائے اور قابل عمل اقدامات تجویز کیے جائیں۔ پالیسی پر عمل درآمد کےلیے کوئی حکمت عملی یا ایکشن پلان ضرور تیار کیا جائے۔ اس کے علاوہ دیگر متعلقہ شعبوں کی پالیسیوں کو بھی ایک دوسرے سے ہم آہنگ کیا جائے۔ تبھی کچھ بہتر کام ہوسکے گا۔

حلیمہ، تراب اور ان جیسے ہزاروں افراد بدلتے موسموں کے باعث اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ایک غیر یقینی کی کیفیت ان کے دل و دماغ کے تاروپود ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ آنکھوں سے تمام خواب نوچ لیے جائیں تو صحرا اور سراب مقدر بن جاتے ہیں اور چاروں جانب ریت کے بگولے رقص کرنے لگتے ہیں… مگر امید کا ایک در ہر حال میں کھلا ہوتا ہے۔ اب جبکہ سندھ کی کلائمیٹ چینج پالیسی اپنے آخری مراحل میں ہے تو ہم امید کرتے ہیں کہ ساحلوں سے اٹھنے والی ان خاموش آوازوں کو بھی سنا جائے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔