حیات انسانی ہمہ وقت جدوجہد کا نام ہے جو آخری سانس تک جاری رہتی ہے۔ انسان کی ساری کوشش اس کے نظریات کے تابع ہوتی ہے۔ ذیل میں عملی نوعیت کے چند اہم رہنما اصول پیش کیے گئے ہیں جو نظریات کو تبدیل کرکے انسانی زندگی پر براہ راست اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
بقا کے اخلاقی اصول
اپنے حق، بھوک اور بقا کےلیے تو گلی کوچوں میں آوارہ گھومنے والے کتے بھی آپس میں لڑتے پھرتے ہیں۔ لیکن انسان کا امتیازی وصف یہ ہے کہ وہ کسی حالت میں بھی بنیادی اخلاقی اصولوں سے رو گردانی نہیں کرتا۔ یعنی ظلم کے جواب میں جبر نہیں کرتا، حق تلفی کے جواب میں حق نہیں مارتا، گناہ کے جواب میں فسق و فجور سے کام نہیں لیتا۔ تم بھی کبھی اپنے حق کی خاطر ناحق کے بدلے ناحق نہ کرنا۔ حق پر رہتے ہوئے اگر حق مل جائے تو ٹھیک ورنہ حق کو چھوڑ دینا۔ کیونکہ قدرت کا بے لاگ انصاف مٹی کے اس ڈھیر تک پہنچتا ہے جس کے نیچے ایک دن انسان کو مر کر دب جانا ہے۔ حق پانے کی جنگ ہو یا حق چھیننے کا پاپ قدرت کو کبھی فراموش نہ کرنا۔
طاقت کا فلسفہ
طاقت محض کمزوری سے فائدہ اٹھانے کے موقع اور صلاحیت کا نام ہے، ورنہ مال اور اختیار کا نام ہرگز طاقت نہیں۔ دشمن میں پائی جانے والی کمزوری، حالات کا فراہم کردہ موقع اور اس موقع سے فائدہ اٹھانے کےلیے تمہاری صلاحیت، تینوں مل کر طاقت کو جنم دیتی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ کمزور کبھی ہمیشہ کمزور نہیں رہتا اور طاقتور کی طاقت کو دوام حاصل نہیں۔ کمزوریاں ہر کسی میں ہوتی ہیں، صلاحیت سے تقریباً ہر کوئی لیس ہوتا ہے، بس حالات بدلتے رہتے ہیں۔ پس حالات کا بدلنا ہی اصل طاقت ہے اور حالات کو بدلنے والا طاقت کا اصل سرچشمہ ہے۔ لہٰذا اپنی طاقت کا ظالمانہ و بے رحمانہ استعمال کبھی نہ کرنا، کیونکہ حالات بدلتے رہتے ہیں۔
قناعت اور سخاوت
دنیا کا ہر جام، ہر پیمانہ بھر جائے تو چھلک جاتا ہے۔ شیر بھی شکم سیر ہوجائے تو اپنے شکار کی زائد بوٹیاں گِدھوں اور چیلوں کےلیے بخوشی چھوڑ دیتا ہے۔ نشیب میں پانی داخل ہوتا رہے تو دھیرے دھیرے بلندیوں کو سیراب کرنے لگتا ہے، حتیٰ کہ بارش کی کثرت میں گندے غلیظ نالے تک ابل پڑتے ہیں۔ اپنے چاروں طرف نظر تو دوڑاؤ تمہیں دنیا کی ہر چیز میں قناعت اور سخاوت نظر آئے گی۔ کائنات کا ذرہ ذرہ اپنی ضرورت پوری ہونے کے بعد دوسرے کی ضرورت پوری کرنے لگتا ہے، لیکن حضرت انسان کا معاملہ بالکل الٹ ہے۔ اس کی ''ضرورت'' اس کے ''حاصل'' سے دو قدم آگے چلتی ہے اور اس کا ''حاصل'' محض اپنی ''ضرورت'' کے گرد گھومتا ہے۔ اپنے جیسے انسانوں سے بہتر نہیں ہوسکتے تو کم از کم نباتات، حیوانات اور بے جان اشیا جیسا بننے کی کوشش تو کرو۔ کم از کم جھولی بھر جانے8 پر تو بانٹنے کی عادت ڈالو، اگر تم ایک انسان ہو۔
تکبر
جب لوگ تمہاری بات ماننے لگیں، جب لوگ تم سے امید رکھنے لگیں، جب لوگ تمہاری تعریف کرنے لگیں، جب لوگ تمہیں غور سے سننے لگیں۔ تو پھر لوگ بہت چھوٹے نظر آئیں گے۔ خبط عظمت حاوی ہونے لگے گا۔ سلام میں پہل کرنا بھول جاؤ گے۔ کئی کام کرنے میں عار ہونے لگے گا۔ انکار ناقابل برداشت درد دینے لگے گا۔ ہر جگہ اہمیت پانا حق سمجھنے لگو گے۔ اپنی ذات کی بڑائی حد سے بڑھنے لگے گی۔ اختلاف تمہارے اندر کے خدا کو چبھنے لگے گا۔ پوری طرح کسی بدترین زعم کا شکار ہوجاؤ گے اور تکبر تمہارے رگ و پے میں سرائیت کرچکا ہوگا۔ اس حالت میں اللہ تم پر اپنا قہر نازل کرے گا، تمہیں یہ بتانے کےلیے کہ دوسرے انسانوں کو جو کیڑے مکوڑے سمجھتے ہو اس سے کہیں زیادہ حقیر حشرات نے تمہارا خوشبودار کفن پھاڑ کر تمہارے بدبودار گوشت سے اپنا پیٹ بھرنا ہے۔ اگر تم بچنا چاہتے ہو تو ہمیشہ یاد رکھو کہ ہر صلاحیت، ہر نعمت، ہر موقع قدرت کی جانب سے ودیعت کردہ ہے۔ تمہارا کچھ نہیں۔
سورج گرہن
چاند سورج سے 400 گنا چھوٹا ہونے کے باوجود اُس کی روشنی تم تک پہنچنے سے صرف اِس لیے روک لیتا ہے کیونکہ وہ سورج کے مقابلے میں تم سے تقریباً 400 گنا زیادہ قریب ہے۔ تمہارے اندر، تمہارے پاس اور تمہارے اردگرد موجود چھوٹی چھوٹی کتنی ہی رکاوٹیں ہیں جنہوں نے بڑے بڑے حقائق تم سے چھپا رکھے ہیں اور نورِ ہدایت کو تم تک پہنچنے سے روک رکھا ہے۔ سورج گرہن کے بعد چاند جب تمہارے اور سورج کے بیچ سے ہٹ جائے تو کوشش کرنا کہ چند فصیلیں تم بھی گرا دو۔ عین ممکن ہے تمہیں وہ نظر آجائے جو تم نے آج تک نہیں دیکھا یا دیکھنا ہی نہیں چاہتے تھے۔
مقصد حیات
اگر تمہیں فکر نہیں کہ کل تمہارے بچے کھانا کہاں سے کھائیں گے۔ تمہارے پاس اپنے بچوں کےلیے خوبصورت ملبوسات موجود ہیں۔ تم مطمئن ہو کہ تمہارے سر سے چھت کوئی نہیں چھین سکتا۔ تمہیں کوئی ڈر نہیں کہ بچے بیمار ہو جائیں تو علاج کیسے ہوگا۔ تم اپنے بچوں کو معیاری تعلیم باآسانی مہیا کررہے ہو۔ اور تم اتنے باشعور ہو کہ بچوں کی بہترین تربیت کرنا جانتے ہو۔ تو سمجھ لو کہ تمہارا مقصد حیات انسانیت کی خدمت کرنا ہے۔ جس کی ادنیٰ ترین صورت یہ ہے کہ تم اُن کی فکر کرو جو دو وقت کی روٹی کو ترستے ہیں۔ جن کے تن بدن پر چیتھڑوں کے سوا کچھ نہیں۔ جنہیں رہنے کو مستقل چھت میسر نہیں۔ جو علاج کے ہاتھوں تڑپ تڑپ کر جان دے دیتے ہیں۔ جنہیں علم حاصل کرنا نصیب نہیں ہوتا، اور جو شعور کی دولت سے محروم ہیں۔ ورنہ جب سے دنیا بنی ہے، بچے پیدا کرکے انہیں پال پوس کر بچے پیدا کرنے اور پالنے پوسنے کے لائق بنا کر مر جانے کا کام تو جانور بھی بطریق احسن کرتے آرہے ہیں۔
لوگ، معاملات اور توقعات
جس دن تم لوگوں کے علم، خاندانی پس منظر اور ان کی مجبوریوں کو سامنے رکھ کر معاملات کرنے لگو گے اس دن کئی ایک سے تمہارے گلے شکوے ختم ہوجائیں گے۔ کچھ لوگوں پر تمہیں پیار آنے لگے گا اور چند لوگ تمہیں قابل رحم نظر آنے لگیں گے۔ ایسے تمام لوگوں کی مدد کرنا، ان پر ظلم نہ کرنا اور ان کے ساتھ بے رخی سے پیش نہ آنا۔ جو لوگ باقی رہ جائیں، وہ طبعاً بد فطرت ہیں، ان سے احتیاط کرنا۔ خوش قسمتی سے اگر اس کے بعد بھی کوئی بچ جائے تو وہ یقینی طور پر تمہارا ہمدرد ہے، اس کی قدر کرنا۔
پستیاں اور بلندیاں
نشیب کی پستیوں کا کیا ہے، ذرا سا پانی ڈالو تو فوراً اپنا پتا بتا دیتی ہیں۔ کمال تو بلندیاں تلاش کرنے میں ہوتا ہے۔ معیار سے گرے ہوئے غلط آدمی کی پہچان باآسانی ہوجاتی ہے۔ اصل ہنر تو بلند پایہ صحیح آدمی کو تلاش کرنا ہے، خصوصاً قحط الرجال کے دور میں جب ہر طرف دھوکا دہی کا راج اور بد گمانی کا رواج ہو۔ مگر جنہیں لوگوں میں عیب تلاش کرنے کی لت لگی ہو انہیں صحیح آدمی کبھی نہیں ملتا۔ ایسے مردم بیزار ہمیشہ نشیب کی پستیوں میں گرے رہتے ہیں۔ لوگوں میں خوبیاں تلاش کیا کرو تاکہ تمہیں بلندیاں حاصل ہوں، کیونکہ بلندیوں کی پہچان بلندیوں پر پہنچ کر ہوتی ہے۔
سیاسی مباحثے اور سیاسی قبلے
بچپن سے آج تک بحث اور دلائل کی بنیاد پر قائل ہوکر میں نے کئی سنیوں کو شیعہ اور کئی شیعان کو سنی ہوتے دیکھا ہے، کتنے دیوبندی، بریلوی و اہلحدیثوں کو مسلک تبدیل کرتے دیکھا ہے۔ ہندو، سکھ، یہودی، عیسائی، مجوسی و دہریے مسلمان ہوجاتے ہیں یا مذہب بدل لیتے ہیں۔ لیکن آج تک کسی شخص کو مباحثے کی بنیاد پر اپنا سیاسی قبلہ تبدیل کرتے نہیں دیکھا۔ لوگوں کے سیاسی نظریات ہمیشہ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے ہیں۔ جب دھیرے دھیرے حقائق ان کے سامنے آتے ہیں، جنہیں تعصبات سے بلند ہو کر قبول کرنے میں وقت لگتا ہے، یہ یکدم کبھی نہیں ہوتا۔ اگر کوئی توقع کرتا ہے کہ کسی کے پاس بیٹھ کر، دلائل کے انبار لگا کر دو گھٹنے بعد اس کے سیاسی خیالات تبدیل کردے گا تو وہ بیوقوف ہے۔ اور جو سیاست پر اختلافی مباحثے کی وجہ سے باہمی محبتوں کو آگ لگاتا ہے، وہ جاہل ہے۔
آزمائشیں، قربانیاں اور کامیابی
موت سے پہلے تک کوئی آفت ایسی نہیں پڑتی جو تجھے مکمل طور پر فنا کردے۔ مشکل کیسی ہی کیوں نہ ہو کامیابیوں کو چھو لینے کی گنجائش ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ مطلق ناکامی صرف ان کا مقدر بنتی ہے جو آزمائشوں کو قربانیوں کا لہو پیش کرنے سے گھبراتے ہیں۔ یاد رکھو! ہر دکھ، تکلیف، پریشانی اور مشکل گھڑی تمہاری زندگی اور تمہاری ذات سے اپنا حصہ مانگتی ہے۔ کامیابی کے راستے پر جگہ جگہ اپنے ٹکڑوں کا تاوان دینا پڑتا ہے اور پھر منزل پر وہی پہنچتے ہیں جو بکھرے بغیر پارہ پارہ ہونا جانتے ہوں۔ ہاں اگر اپنے وجود کی وحدت عزیز ہو تو حالات کی پہلی ہی ٹھوکر انسان کو ڈھیر کر دیتی ہے۔
مہلت
ہر کوئی مہلت پر چل رہا ہے۔ لیکن یہ مہلت کب تک ہے؟ قدرت ہمیشہ انصاف کے تقاضے پورے کرتی ہے اور مہلت ختم ہونے سے پہلے تین طرح خبردار کرتی ہے۔ حالات کے اشارے، غیر مرئی احساس، ضمیر کی شدید پکار۔ سلیم الفطرت روحیں ان آثار کو پہچان لیتی ہیں، جبکہ شیطان صفت لوگ سمجھتے ہیں قدرت نے انہیں اچانک آن پکڑا ہے اور سنبھلنے کا موقع نہیں دیا۔ اگر تمہارے اوپر ضمیر کا بوجھ یکدم بڑھ گیا ہے، چھوٹی موٹی تکلیفیں پہنچنا شروع ہوگئی ہیں اور تباہ ہوجانے کا انجانا خوف ستانے لگا ہے تو سلیم الفطرت ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے پلٹ آؤ، تلپٹ ہونے سے پہلے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔