کسان ہمارے ملک کا وہ طبقہ ہے جس کے مسائل دن بدن بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ اپنے حالات کی بہتری کےلیے کسان حکومت کی مدد سے کسی معجزے کا انتظار کرسکتا ہے یا خود آگے بڑھ کر اپنی کاشتکاری کو زیادہ فائدہ مند بناسکتا ہے۔ چونکہ بیج، کھاد، اسپرے وغیرہ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو ہم کنٹرول نہیں کرسکتے، اس لیے کاشتکاری کو فائدہ مند بنانے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے کھیت سے زیادہ آمدن حاصل کرنا ہوگی۔
ایک وقت تھا کہ کسان صرف روایتی فصلیں لگا کر اپنا گزربسر کر رہا تھا لیکن مہنگائی کے اس دور میں ہمیں روایتی فصلوں کے ساتھ ساتھ آمدنی کے دیگر ذرائع کی طرف بھی توجہ دینا ہوگی۔ زرعی شجرکاری کاشتکاروں کےلیے اضافی آمدن کا ایک ایسا ذریعہ ہے جس میں فصلوں کے ساتھ ساتھ مختلف اقسام کے درخت بھی لگائے جاتے ہیں۔
ہمارے کاشتکاروں کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ فصل کی فروخت ہے، جس کےلیے چھ مہینے یا سال بھر انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اگر فصل کے ساتھ درخت بھی لگادیے جائیں تو ضرورت پڑنے پر درخت بیج کر رقم حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس طرح پانچ سال بعد کاشتکار کےلیے فصل کے علاوہ اضافی آمدن کا ایک مستقل ذریعہ شروع ہوجائے گا۔ اگر درخت لگانے کے ساتھ کچھ بھیڑ، بکریاں بھی پال لی جائیں تو ایسا منافع بخش فارمنگ سسٹم تشکیل دیا جاسکتا ہے جس میں کاشتکار کےلیے فائدہ ہی فائدہ ہوگا۔اس سے نہ صرف دیہی علاقوں میں غربت میں کمی واقع ہوگی بلکہ ماحولیاتی مسائل پر قابو پانے میں بھی مدد ملے گی۔
پاکستان میں ہر سال جب گندم پک کر تیار ہوتی ہے تو آندھی طوفان کی وجہ سے فصل گر جاتی ہے اور کاشتکار کو نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر کھیت کے کنارے درخت لگے ہوں تو یہ ہواؤں کو روکنے اور آندھی کی شدت کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ درختوں کی جڑیں نہ صرف آبی آلودگی میں کمی کا سبب ہوتی ہیں بلکہ زمینی کٹاؤ کو روک کر زمین کی زرخیزی کو بھی محفوظ رکھتی ہیں۔ چونکہ درخت پرندوں کی آماجگاہ ہوتے ہیں اس لیے یہ بائیوڈائیورسٹی میں اضافے کا باعث بھی بنتے ہیں۔ آرگینگ فارمنگ میں پرندوں کو خصوصی اہمیت حاصل ہے، کیوں کہ یہ فصلوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑوں کے ''بائیولوجیکل کنٹرول'' میں مدد کرتے ہیں۔ اسی طرح درختوں کے پتے اور پرندوں کا فضلہ بھی زمین میں قدرتی کھاد کا فائدہ دیتا ہے۔
زرعی شجرکاری میں ہمیں چند باتوں کا خیال رکھنا چاہیے جس میں سب سے اہم درختوں کا انتخاب ہے۔ ہمیں ایسے درختوں کا انتخاب کرنا چاہیے جو مقامی ماحول سے مطابقت رکھتے ہوں۔ تیزی سے بڑھنے والے اور ایسے درختوں کو ترجیح دینی چاہیے جن کےلیے اضافی محنت کی ضرورت نہ ہو۔ ایسے درخت نہ لگائیں جن کا سایہ زیادہ ہو بلکہ سیدھے تنے والے درختوں کا انتخاب کریں تاکہ ان کے سائے کی وجہ سے فصل متاثر نہ ہو۔ درختوں کی وقتاً فوقتاً چھدرائی اور کٹائی کرتے رہیں تاکہ نشوونما اچھی ہو اور تنا بھی سیدھا رہے۔
زرعی شجرکاری میں عام طور پر کھیت کے کنارے شرقاً غرباً 20 فٹ کے فاصلے پر درخت لگائے جاتے ہیں، جن کی تعداد ایک ایکڑ میں کم از کم 40 ہوتی ہے۔ درخت لگاتے ہوئے الیلوپیتھک ایفیکٹ کا بھی خیال رکھنا چاہیے، جس کےلیے متعلقہ محکمہ کے ماہرین سے ضرور مشورہ کرنا چاہیے۔
عام طور پر جنوبی اور وسطی پنجاب میں کھیتوں کے کناروں پر شیشم، پاپولر، سمبل اور شریں کے علاوہ کیکر کی ایسی اقسام بھی لگائی جاسکتی ہیں جو زیادہ سایہ دار نہ ہوں اور تیزی سے نشوونما پائیں۔ پھل دار درختوں میں جامن، بیری اور آم لگا کر آپ نہ صرف موسمی پھلوں سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں بلکہ اضافی آمدنی بھی کماسکتے ہیں۔
ہمارے ہمسایہ ممالک چین اور بھارت میں فصلوں کے ساتھ ہربل درخت لگانے کا رواج عام ہورہا ہے۔ ہماری آب و ہوا نیم، بکائن اور سوہانجنا کےلیے بہترین شمار ہوتی ہے، جنہیں کھیتوں کے کناروں پر بھی لگایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح املتاس اور ارجن بھی ایسے درخت ہیں جن کی پھلیاں، پتے اور چھال فارماسیوٹیکل میں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔آج کل سفیدہ کی کئی ماحول دوست اقسام آچکی ہیں، جن کے پتے اور تیل ادویات میں استعمال ہوتے ہیں۔
آبادی میں اضافے کی وجہ سے لکڑی کی مانگ میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے، کیوں کہ فرنیچر، کھیلوں کا سامان اور کاغذ انڈسٹری کا زیادہ تر انحصار جنگلات پر ہے۔ آج بھی پاکستان کے 28 فیصد لوگ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے لکڑی کو بطور ایندھن استعمال کرتے ہیں۔ زرعی شجرکاری کو فروغ دے کر ہم قدرتی جنگلات کے کٹاؤ کو روک سکتے ہیں۔اس طرح حاصل ہونے والی لکڑی نہ صرف مقامی آبادی کے ایندھن کی ضروریات کو پورا کرسکتی ہے بلکہ انڈسٹریز اور انفرااسٹرکچر بھی بہتر ہوسکتا ہے۔ موجودہ حکومت کے بلین ٹری سونامی پراجیکٹ میں ایگروفاریسٹری اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان اپنی تقاریر میں زیتون کی کاشت میں دلچسپی کا اظہار بھی کرچکے ہیں۔ اس پراجیکٹ کے تحت نہ صرف زیتون بلکہ عود اور صندل جیسے قیمتی درخت لگا کر زرمبادلہ بھی کمایا جاسکتا ہے۔
ہمارے کاشتکاروں کا عمومی خیال ہے کہ کھیتوں میں درخت لگانے سے فصل کی پیداوار میں کمی واقع ہوگی۔ اگرچہ جدید تحقیق نے اس مفروضے کو غلط ثابت کردیا ہے لیکن ریسرچ اداروں کو چاہیے کہ اس پر مزید تحقیقات کرتے ہوئے نمائشی پلاٹ لگائیں تاکہ عام کاشتکار اس ریسرچ سے فائدہ اٹھا سکیں۔ کپاس اور دھان جیسی فصلوں کے ساتھ درخت لگانے سے لیف رولر، ہاپر اور سفید مکھی جیسے کیڑوں کے حملے میں ممکنہ اضافہ ہوسکتا ہے۔ ان عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے ریسرچ کے بعد مکمل منصوبہ بندی کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں منفی اثرات کا خدشہ نہ رہے۔
محکمہ جنگلات کی ذمے داری ہے کہ مقامی آب و ہوا کے مطابق درخت لگانے میں کاشتکاروں کو مدد فراہم کرے۔ اس مقصد کےلیے سیمینارز اور ورکشاپس کا انعقاد مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے کاشتکاروں کو ایگروفاریسٹری کی طرف راغب کرنا چاہیے۔ حکومت کو چاہیے کہ زرعی شجرکاری کےلیے علحیدہ پالیسی بنائی جائے یا نیشنل فاریسٹ پالیسی میں جگہ دی جائے۔ اس کے فروغ کےلیے کسانوں کو مالی امداد، مشینری اور نرسری لگانے کےلیے سہولیات بھی فراہم کی جائیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔