اب ہر درخت سرمایہ ہے
دنیا بھر میں جنگلات کی کٹائی اور ان کا غیر مستحکم نظام پیدا ہونے والے کاربن کی 11 فیصد آلودگی کا باعث ہے
جنگلات کو اگر ماحول کا نگہبان کہیں تو غلط نہ ہوگا۔ (فوٹو: فائل)
کلائمیٹ چینج یا موسمیاتی تبدیلیاں اب اتنی واضح ہوچکی ہیں کہ ان سے انکار کرنے والوں کے پاس اب سوائے خاموشی کے کوئی چارہ نہیں رہا۔ پاکستان اگرچہ گرین ہاﺅس گیسیں پیدا کرنے والے ممالک میں بہت نیچے کے نمبروں پر موجود ہے، لیکن گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس کے مطابق خطرات سے دوچار ممالک میں اس کا نمبر آٹھواں ہے۔
پاکستان جیسی کم زور معیشت کا حامل ملک اپنے متنوع جغرافیے کے باعث کلائمیٹ چینج کے مختلف نوعیت کے خطرات سے دوچار ہے۔ پہاڑوں میں گلیشیئر کا پگھلاﺅ، مسلسل سیلاب، بے موسم اور کم وقت میں تیز بارشیں، سمندر کی سطح میں اضافہ اور صحراﺅں میں خشک سالی اب معمول بنتی جارہی ہے۔ ماہرین کے نزدیک ان تمام مسائل کی جڑ کہیں نہ کہیں جنگلات کی بے دریغ کٹائی سے بھی وابستہ ہے۔ اگر گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو یہ تجزیہ حقیقی نظر آتا ہے۔ اس کی چند مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
ہمارے ''شان دار'' فیصلوں کے باعث باغات کا شہر لاہور درختوں سے خالی ہوکر ''اسموگ ٹریپ'' ، کراچی ''ہیٹ ٹریپ'' اور ''اسلام آباد ''پلوشن ٹریپ'' بنتا جارہا ہے۔ لیکن پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو بہرحال یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ اس نے اپنے گرین ایجنڈے کے تحت بلین ٹری ایفارسٹیشن اور اب ٹین بلین ٹری سونامی جیسے منصوبوں سے ملک بھر میں جنگلات اور شجرکاری کے حوالے سے نہ صرف صورت حال کو بہتر بنایا ہے بلکہ عام آدمی کو بھی ان منصوبوں میں شریک کردیا ہے۔
یاد رہے کہ کسی بھی ملک کی خوش حالی اور استحکام کا اندازہ اس کے زرمبادلہ کے ذخائر سے نہیں بلکہ اس کے قدرتی وسائل سے لگایا جاتا ہے۔ یہ جنگلاتی وسائل ہی ہیں جو معیشت کی مضبوطی، دریاﺅں میں پانی کی روانی اور فوڈ سیکیورٹی کو یقینی بناتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ IPCC کے مطابق بھی کسی ملکی معیشت اور ماحول کے استحکام کےلیے ضروری ہے کہ وہاں 25 فیصد رقبے پر جنگلات موجود ہوں، جبکہ ماہرین کے مطابق پاکستان میں جنگلات کل رقبے کا صرف 5.7 فیصد ہے، یعنی 4.78 ملین ہیکٹر رقبے پر جنگلات موجود ہیں۔
دنیا بھر میں جنگلات کی کٹائی اور ان کا غیر مستحکم نظام پیدا ہونے والے کاربن کی 11 فیصد آلودگی کا باعث ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ان مضر گیسوں اور ان سے بڑھنے والے درجۂ حرارت میں اضافے کو دو ڈگری سے نیچے محدود کرنے کی عالمی کوششیں اس وقت تک بارآور نہیں ہوسکتیں، جب تک جنگلات کے وسائل کو محفوظ نہ کرلیا جائے۔
دنیا بھر اور خصوصاً ترقی پذیر ممالک میں مقامی لوگوں کو جنگلات کے تحفظ اور انتظامی معاملات میں شامل کرنے کےلیے عالمی سطح پر بہت سے اقدامات کیے گئے ہیں، جن میں سرفہرست ریڈ پلس (REDD+) منصوبہ ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی کنونشن United Nations Framework Convention on Climate Change (UNFCCC) نے جنگلات کی کٹائی اور ان کے عدم استحکام کو روکنے کےلیے Reducing emissions from deforestation and forest degradation (REDD+) نامی ایک طریقہ کارمتعارف کروایا ہے۔ اس طریقہ کار کے تحت پہلی بار جنگلات کے وسائل کی مالی حیثیت کو پرکھا گیا ہے۔ مثلاً درختوں میں ذخیرہ ہونے والی کاربن کا مالیاتی تخمینہ لگایا گیا تاکہ درختوں کی کٹائی روکنے کےلیے ترقی پذیر ممالک کو اس کاربن کے برابر ایسی مالی ترغیبات دی جاسکیں کہ وہ قدرتی جنگلات کے تحفظ اور کٹائی کو کم کرسکیں۔
ریڈ پلس (REDD +) صرف جنگلات کی کٹائی یا ان کی تنزلی تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ ماحول اور قدرتی وسائل کے تحفظ، پائیدار بنیادوں پر جنگلات کا انتظام اور جنگلات کا بطور کاربن ذخیرہ گاہ میں اضافے جیسے طریقہ کار کا بھی احاطہ کرتا ہے۔
پاکستان میں ریڈ پلس میں شمولیت اور عمل درآمد کےلیے 2015 سے FCPF کے مالی تعاون سے شروع ہونے والے منصوبے کے تحت ریڈ پلس کے ابتدائی مرحلے کی سرگرمیاں مکمل کی گئیں ہیں۔ جس میں قومی سطح، ریڈ کی حکمت عملی، جنگلات کا مانیٹرنگ سسٹم، گیسوں کے اخراج کا تخمینہ، سیف گارڈ انفارمیشن سسٹم، مشاورت اور ابلاغ شامل تھا۔
اس منصوبے کے تحت قومی سطح پر ریڈپلس کے آفس کا قیام بھی عمل میں آیا جو کینکن معاہدے، وارسا فریم ورک اور پیرس معاہدے کے آرٹیکل 5 کے تحت پاکستان کے وعدوں اور ذمے داریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پورے ملک میں تحفظ جنگلات کے عمل کو یقینی بنانے کےلیے کوشاں ہے۔ ریڈ پلس کے قومی آفس کا بنیادی مقصد پاکستان میں ریڈ پلس کے حوالے سے معلومات اور تیاری اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہے، تاکہ معاشرتی، ماحولیاتی، اور تکنیکی طور پر مستحکم قومی ریڈ پلس حکمت عملی کے ذریعے جنگلات کے شعبے میں گرین ہاﺅس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کےلیے پاکستان میں کام کیا جاسکے۔
ہر درخت قیمتی ہے
عالمی سطح پر ریڈ پلس کے قیام کے بعد یہ سمجھ لیجیے کہ اب ہر درخت قیمتی ہے۔ یہ ایک ایسا ٹینک ہے جو آلودہ فضا سے کاربن کو اپنے اندر ذخیرہ کرلیتا ہے۔ ہر درخت کے ذریعے چونکہ فضا سے ایک مخصوص مقدار میں کاربن کو کم کرلیا جاتا ہے، لہٰذا اس کے بدلے جنگل کے مالک کو مالی رقم فراہم کی جائے گی۔ بشرطیکہ اس کو کاٹنے سے محفوظ رکھا جائے۔ اب بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہر درخت قیمتی اور نقد آور ہے۔
درختوں کی اہمیت
زمین پر زندگی کے تمام رنگ قدرتی وسائل کے مرہون منت ہیں۔ مالامال سمندر، دریا، دنیا کے بلند پہاڑ ان کے دامن میں جھومتے بارشوں کو کھینچتے سیکڑوں سال قدیم درخت، زرخیز مٹی کے میدان، سرسبز کھیت کھلیان اور رنگ برنگا حیاتی تنوع ہی ہماری اصل دولت ہے۔ انسان دراصل دو گھروں کا مکین ہے، ایک اس کا ذاتی گھر اور دوسرا کرۂ ارض۔ ہمیں دونوں گھروں کا یکساں تحفظ کرنا ہے، لیکن ہم نے اپنی عاقبت نااندیشی سے اپنے ان دونوں گھروں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
زمینی وسائل کے استعمال اور قدرتی ماحول کے درمیان ایک نہایت مضبوط تعلق موجود ہے اور انسانی سرگرمیاں جب قدرتی ماحول میں خلل ڈالتی ہیں تو ہرے بھرے مناظر کو صحراﺅں میں تبدیل ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔
درخت یا جنگلات بظاہر ہمارے لیے ایک عام سے وسائل ہیں، لیکن زمین کا تمام تر فطری ماحولیاتی نظام ان ہی کے گرد گھومتا ہے۔ یہی موسموں کے جن کو قابو میں رکھتے ہیں۔ جنگلات کو اگر ماحول کا نگہبان کہیں تو غلط نہ ہوگا۔ یہ بڑے پیمانے پر فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں، آکسیجن فراہم کرتے ہیں، درجۂ حرارت اور بارش کو قابو میں رکھتے ہیں۔ ان کی جڑیں زمین کو مضبوطی سے تھامے رکھتی ہیں۔ بے شمار جانور اور پرندوں کےلیے فطری مساکن اور لاکھوں افراد کےلیے وطن کا کام کرتے ہیں۔
نباتات اور حیوانات کی یہ رنگارنگی خوراک کی زبردست دولت اور انسانی صحت کےلیے بیش بہا ادویہ فراہم کرتی ہے۔ جنگلات سے ایندھن اور تعمیرات کےلیے لکڑی، حیوانات کےلیے چارا، پھل، شہد، پروٹین، دواﺅں کے عرق اور دوسری بہت سی خام اشیا مثلاً گوند، موم اور سریش وغیرہ حاصل ہوتے ہیں۔ جنگلات کروڑوں مویشیوں، بکریوں، بھیڑوں اور اونٹوں کےلیے چارے کی ضروریات بھی پوری کرتے ہیں۔
ملک کے بڑے بڑے آب گیر علاقوں (واٹر شیڈز) میں اگنے والا یہ حفاظتی پردہ نہ صرف ماحولیاتی نظاموں کو برقرار رکھتا ہے بلکہ مٹی کو اپنی جگہ قائم رکھ کر سیلابوں کے مقابلے میں رکاوٹ کا کام بھی دیتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں جنگلات کی کٹائی بے خوفی سے جاری ہے۔ حتیٰ کہ برازیل کے قدیم جنگلات کا ایک تہائی حصہ صفحۂ ہستی سے مٹ چکا ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق ان بارانی جنگلات کے رقبے میں کمی سے فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بڑھ رہی ہے اور جنگل میں لگنے والی آگ کی شرح بھی بڑھی ہے۔ برازیل کے علاقے میں واقع امیزون جنگل کی خلائی سیارے کی مدد سے لی گئی تصاویر اور جائزوں سے دنیا کے ان گھنے ترین بارانی جنگلات کی تباہی آسانی سے نظر آجاتی ہے۔
پاکستان میں جنگلاتی رقبہ
پاکستان میں بھی جنگلات کے حوالے سے کوئی تسلی بخش صورت حال نظر نہیں آتی۔ وزارت موسمیاتی تبدیلی اور ریڈ پلس پاکستان کی حالیہ جاری کردہ ایک تحقیقی رپورٹ Forest Reference Emission Level کے مطابق پاکستان میں قدرتی جنگلاتی رقبہ 5.45 سے 5.67 فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ واضح رہے کہ اس جنگلاتی رقبے میں باغات اور زرعی زمینوں پر موجود درخت شامل نہیں ہیں۔
اسی رپورٹ کے مطابق اگرچہ اعدادو شمار بہت کم دستیاب ہیں لیکن اس کے باوجود 2004 سے 2012 کے درمیان جنگلات کی کٹائی کا تخمینہ سالانہ 11,000 ہیکٹرز تھا۔
جنگلات کی بحالی اور ان کے انتظام میں مقامی لوگوں کی شرکت اور درختوں کو بچانے کے عوض مالی ترغیبات کےلیے ریڈ پلس اور اس جیسے دیگر پروگرام بلاشبہ قابل تعریف ہیں۔ مگر ضروری ہے کہ اس حوالے سے زیادہ سے زیادہ معلومات عام لوگوں تک پہنچائی جائیں تاکہ آنے والے برسوں میں ہمیں اس حوالے سے مثبت فرق نظر آئے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔