آخر ایسی نوبت ہی کیوں آئی؟

سلیم خالق  منگل 17 اگست 2021
پاکستان کو بھی پروٹیز جیسی کارکردگی دکھانا چاہیے تھی مگر افسوس ایسا نہ ہوا، ٹیسٹ میں بھی ہماری کارکردگی زوال پذیر ہے۔ فوٹو : فائل

پاکستان کو بھی پروٹیز جیسی کارکردگی دکھانا چاہیے تھی مگر افسوس ایسا نہ ہوا، ٹیسٹ میں بھی ہماری کارکردگی زوال پذیر ہے۔ فوٹو : فائل

’’تر نوالہ بھی کبھی گلے میں اٹک جاتا ہے،کاغذ پر ویسٹ انڈیزکی ٹیم کمزور لگتی ہے مگر پاکستان کی بھی یہ روایت رہی کہ آسان حریفوں سے بھی ہار جاتا ہے اوردوسری ٹیموں کو نئے ہیروز بنا کر دیتا ہے، اس لیے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ آرام سے جیت جائیں گے‘‘

چند روز قبل جب ’’کرکٹ پاکستان‘‘ کے شو میں میں نے میزبان کامل احسان سے یہ بات کہی تو ان کی مسکراہٹ بتا رہی تھی جیسے وہ مجھ سے متفق نہیں ہیں،آج میں نے بھی انھیں صرف مسکراہٹ والی ایموجی بھیجی۔ ہم پاکستانی جذباتی لوگ ہیں،اولمپکس میں چھٹی پوزیشن آنے پر ہی جشن منانے لگتے ہیں اور کوئی میڈل نہ جیتنے کا غم یاد نہیں رہتا، چلیں دیگر کھیلوں میں تو کھلاڑیوں کو سہولتیں میسر نہیں، وہ بیچارے اگر تھوڑا بہتر پرفارم کر لیں تو بھی ان کو سراہنا چاہیے۔

البتہ کرکٹ میں ایسا نہیں ہے، کرکٹرز کوتو عالمی معیارکی سہولتیں حاصل اور بہترین معاوضے ملتے ہیں، ایسے میں ان سے مثبت نتائج کی توقع کچھ غلط نہیں ہوتی، ویسٹ انڈیز سے پہلے ٹیسٹ میں بلاشبہ گرین کیپس نے سخت فائٹ کی اور آخر تک فتح کیلیے کوشش کرتے رہے، مگر ایک وکٹ سے شکست ہی نصیب ہوئی، سوشل میڈیا پر اب لوگ ٹیم کو سراہا رہے ہیں کہ واہ واہ کیا فائٹ کی، مگر ہم یہ بھول گئے کہ آخر ایسی نوبت ہی کیوں آئی؟ بلاشبہ بولرز نے بہترین پرفارم کیا۔

خصوصاً شاہین شاہ آفریدی اورحسن علی نے  ایک بار پھر اپنی صلاحیتیں منوا لیں، مگر ڈراپ کیچز نے محنت پر پانی پھیر دیا، فیلڈنگ پاکستان ٹیم کا ہمیشہ سے بڑا مسئلہ ہے، کبھی تو ہم مشکل ترین کیچز بھی تھام لیتے ہیں اور کبھی آسان کیچز بھی نہیں لیے جاتے، اس میچ میں بھی یہی ہوا مگر اصل مسئلہ بیٹنگ کا ہے،پہلی اننگز میں 217 اوردوسری میں 203 رنز یہ کارکردگی قطعی قابل قبول نہیں ہے،یہ درست ہے کہ پچ اتنی آسان نہیں تھی مگر کیا ویسٹ انڈیز میں بھی آپ کیلیے کراچی اور لاہور جیسی بیٹنگ پچز تیار کی جائیں گی؟ مشکل کنڈیشنز کیلیے تیار رہنا چاہیے تھا مگر بیٹسمین بہت پریشان نظر آئے۔

خاص طور پر اوپننگ میں مسائل کا سامنا کرنا پڑا، عمران بٹ تو بالکل اعتماد سے عاری لگے، وہ فیلڈر بہت اچھے ہیں اور سلپ میں زبردست کیچز بھی تھامے مگر صرف اس صلاحیت پر انھیں قومی ٹیم میں مستقل جگہ نہیں مل سکتی، ہر میچ زمبابوے سے تھوڑی ہوگا، آپ کو بڑی ٹیموں کیخلاف بھی اسکورکرنا پڑتا ہے۔

عابد علی دوسری اننگز میں اچھا آغاز لینے کے بعد جب سیٹ نظر آئے تو وکٹ گنوا بیٹھے، اظہر علی کوٹیسٹ کرکٹ کھیلتے11 برس بیت چکے مگر اب تک کبھی کبھی ایسے جدوجہد کرتے دکھائی دیتے ہیں جیسے کوئی نوجوان پہلا میچ کھیل رہا ہو، پہلی اننگز میں ریویو کی مدد سے کئی بار بچے پھر بھی بڑی اننگز نہ کھیل پائے، دوسری باری میں کیچ ڈراپ ہوا مگر پھر بھی جلد رخصت ہو گئے،یہ کارکردگی قطعی طور پر کسی سینئر کھلاڑی کے شایان شان نہیں، انھیں ذمہ داری لینا ہوگی۔

بابر اعظم نے دوسری اننگز میں ففٹی بنائی مگر جب وکٹ پر قیام کر کے ٹیم کا اسکور بڑھانا چاہیے تھا تو وکٹ گنوا بیٹھے، فواد عالم پہلی باری میں نصف سنچری کے بعد دوسری میں کھاتہ بھی نہ کھول سکے،محمد رضوان نے دونوں بار اچھا آغاز لیا مگر اس سے فائدہ نہ اٹھا پائے، پاکستان کے پاس اب ماضی جیسے آل راؤنڈرز موجود نہیں،اس لیے اگر ٹیم کو بڑا اسکور بنانا ہے تو ٹاپ بیٹسمینوں کو لمبی اننگز کھیلنا ہوں گی، ویسٹ انڈیز کا رینکنگ میں ساتواں نمبر ہے، حال ہی میں جنوبی افریقہ نے اس کوہوم گراؤنڈز پر اننگز اور 63 رنز اور پھر158 رنز کے بڑے مارجن سے شکست دی تھی۔

پاکستان کو بھی پروٹیز جیسی کارکردگی دکھانا چاہیے تھی مگر افسوس ایسا نہ ہوا، ٹیسٹ میں بھی ہماری کارکردگی زوال پذیر ہے، رینکنگ کے ٹاپ 10بیٹسمینوں یا بولرز میں ہمارا کوئی کھلاڑی شامل نہیں، موجودہ کوچ مصباح الحق کی قیادت میں نمبر ون بنے تھے، اب نمبر5،6 پر گھوم رہے ہیں، ٹیم کے پاس کوئی بیٹنگ کوچ موجود نہیں مگر جب یونس خان تھے تب بھی کوئی خاص فرق نظر نہیں آیا تھا، پی سی بی کو اب مستقبل میں کوئی اچھا بیٹنگ کوچ تلاش کرنا ہوگا۔

بولرز کی کارکردگی کنگسٹن میں تو اچھی رہی مگر انھیں بھی تسلسل سے پرفارم کرناچاہیے، فیلڈنگ میں بہتری کیلیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے، کیچز میچز جتواتے ہیں یہ بات پہلے ٹیسٹ میں ثابت ہو چکی، دفاعی خول سے نکلنا چاہیے، اب ماضی والی کرکٹ نہیں رہی،آپ کو اسٹروکس بھی کھیلنا ہوتے ہیں۔

حد سے زیادہ دفاع کبھی کبھی مشکل میں ڈال دیتا ہے، مگر مصباح الحق کی کوچنگ میں آپ اور کیا توقع کر سکتے ہیں،ایک اور بڑا مسئلہ آج کل یہ نظر آ رہا ہے کہ سلیکٹرز نوجوان کھلاڑیوں کو اسکواڈ میں تو شامل کر لیتے ہیں مگر ٹیم مینجمنٹ انھیں کھیلنے کا موقع ہی نہیں دیتی، پھر اگلی سیریزمیں دوسرے نئے کرکٹرز آجاتے ہیں، بغیر کھلائے آپ کسی کی صلاحیت کیسے جانچ سکتے ہیں؟کوچز کو نوجوانوں پر بھی بھروسہ کرنا پڑے گا، جیسا کہ ویسٹ انڈیز نے19سالہ جیڈن سلیس کوکھلایا اور وہ اپنے تیسرے ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں 5 وکٹیں لے کر مین آف دی میچ ایوارڈ کے حقدار بن گئے، کیا پتا شاہنواز دھانی بھی ہمارے لیے ایساکرجائیں، اسپنر یاسر شاہ نے کنگسٹن میں بہت مایوس کیا، وہ بالکل ہی آف کلر نظر آئے۔

ان کیلیے آخری ٹیسٹ میں زمبابوے کیخلاف آل راؤنڈ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے نعمان علی کو ڈراپ کیا گیا مگر یاسرتوقعات پر پورا نہ اتر سکے،اس سے ان کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گئے ہیں،خیر ویسٹ انڈیز میں مسلسل دوسری سیریز جیتنے کا موقع تو ہاتھ سے نکل گیا، بس اب 16 سال بعد پہلی سیریز میں شکست سے بچنا ہوگا، بابر اعظم کو قیادت کے حوالے سے ابھی کافی سیکھنے کی ضرورت ہے، امید ہے ٹیم دوسرے ٹیسٹ میں اچھی کارکردگی سے سیریز بچا لے گی اور ہمیں ’’ہار تو گئے مگر فائٹ بڑی کی‘‘ کہہ کرخود کو تسلی نہیں دینا پڑے گی۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پرمجھے @saleemkhaliqپر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔