قلعہ روہتاس؛ عالمی ثقافتی ورثے کی بحالی میں مقامی افراد کا قابلِ قدر کردار

شبینہ فراز  جمعرات 14 اکتوبر 2021
قلعہ روہتاس کی تعمیر روایتی اینٹوں کے بجائے بڑے بڑے پتھروں سے کی گئی ہے۔ (تصاویر: بلاگر)

قلعہ روہتاس کی تعمیر روایتی اینٹوں کے بجائے بڑے بڑے پتھروں سے کی گئی ہے۔ (تصاویر: بلاگر)

قدیم قلعہ روہتاس سولہویں صدی عیسوی میں جہلم کے قریب تعمیر کیا گیا تھا جو اب یونیسکو کے عالمی ثقافتی مقامات کی فہرست میں شامل ہے۔

یہ وسیع و عریض قلعہ 400 ایکڑ پر محیط ہے جبکہ بعض کتابوں میں اس کا قطر 4 کلومیٹر بیان کیا گیا ہے۔ تاریخ کے صفحات پلٹیے تو یہ دلچسپ حقیقت سامنے آتی ہے کہ برصغیر کے عظیم قلعوں میں شامل یہ واحد قلعہ ہے جس پر کبھی یلغار نہیں کی گئی، اس کے حصول کے لیے کوئی بڑی جنگ نہیں لڑی گئی اور نہ کبھی اس کا محاصرہ ہوا۔

کہا جاتا ہے کہ یہ قلعہ شیر شاہ سوری نے گکھڑ قبائل کو اپنے زیر نگیں لانے کےلیے کثیر لاگت سے یوں تعمیر کیا تھا کہ اس کے پتھر کی ہر سل کی تنصیب کےلیے ایک ایک اشرفی معماروں کو عطا کی گئی تھی، کیونکہ گکھڑ قبائل کے خوف سے کوئی بھی تعمیر کرنے پر آمادہ نہیں تھا۔

قلعہ روہتاس کی تعمیر روایتی اینٹوں کے بجائے بڑے بڑے پتھروں سے کی گئی ہے۔ ان بڑے بڑے پتھروں کو بلندیوں پر نصب دیکھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے۔ تاریخی روایات کے مطابق، شیر شاہ سوری اس گھنے سے جنگل سے گزررہا تھا تو وہاں موجود کسی بزرگ نے اس مقام پر قلعہ تعمیر کرنے کا حکم دیا تھا۔

اس قلعے کی قدامت سے بہت سی روحانی داستانیں یا روایات لپٹی ملتی ہیں۔ مثلاً دیوہیکل پتھروں کو اس بلندی پر نصب ہونا بزرگوں کے روحانی کمالات میں سے خیال کیا جاتا ہے۔ مقامی لوگ بھی یقین رکھتے ہیں کہ اس قلعے کی تعمیر میں عام مزدوروں کے ساتھ ساتھ بے شمار بزرگانِ دین نے روحانی قوتوں سے تعمیر کو ممکن بنایا تھا۔ ان روایات پر مقامی لوگ یوں بھی یقین کرتے ہیں کہ قلعے کے ہر دروازے کے ساتھ کسی نہ کسی بزرگ کا مقبرہ موجود تھا (کچھ اب بھی موجود ہیں) جبکہ قلعے کے اندر بھی جگہ جگہ بزرگوں کے مقابر دکھائی دیتے ہیں۔

قلعے کے بارہ دروازے ہیں جن کی تعمیر جنگی حکمت علمی کو مد نظر رکھ کر کی گئی ہے۔ یہ دروازے فن تعمیر کا نادر نمونہ ہیں۔ ہر دروازے کا اپنا مقصد اور خاص وجہ تسمیہ بھی تھی۔ اس طرح مختلف دروازوں کے مقاصد مختلف تھے۔

قلعہ روہتاس کا سب سے قابلِ دید، عالی شان اور ناقابل شکست حصہ اس کی فصیل ہے۔ اس پر 68 برج، 184 برجیاں، 6881 کگرے اور 8556 سیڑھیاں ہیں جو فن تعمیر کا نادر نمونہ ہیں۔

شیر شاہ سوری کے بیٹے سلیم شاہ نے قلعے کے باہر کی آبادی کو قلعے کے اندر منتقل ہونے کی اجازت دے دی تھی۔ اس آبادی کی منتقلی کے بعد جو بستی وجود میں آئی اب اسے روہتاس گاؤں کہتے ہیں۔ سلیم شاہ کا خیال تھا کہ آبادی ہونے کے باعث قلعہ موسمی اثرات اور حوادثِ زمانہ سے محفوظ رہے گا، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اب قلعے کے اندر مکمل شہر آباد ہے اور ایک ہائی اسکول بھی قائم ہے۔ مقامی لوگوں نے قلعے کے پتھر اکھاڑ اکھاڑ کر مکان بنا لیے ہیں۔

قلعے کا نام یاد آتے ہی فصیلوں، چو برجیوں، غلام گردشوں، اونچے دروازوں، جاہ و جلال اور قوت و جبروت کے ساتھ اس علاقے سے جڑی بہت سی سینہ بہ سینہ اور تاریخ کے دھارے موڑتی کہانیوں کی یادیں آتی ہیں۔ دنیا کا شاید ہی کوئی قلعہ ہوگا جسے اس کے بنانے والے نے اپنی شخصیت کی طرح بلند، مضبوط اور گہرے رازوں کا امین نہ بنایا ہو۔

قلعہ روہتاس سولہویں صدی عیسوی میں بنایا جانے والا ایک ایسا مقام ہے جسے جنگی حکمتِ عملی کے تحت پاکستان کے جنوب میں صوبہ پنجاب میں بنایا گیا۔ جنوبی اور وسطی ایشیا میں مسلمانوں کی جانب سے تعمیر کی گئی بے شمار جنگی تعمیرات میں اس قلعے کی حیثیت ایک نادر موتی جیسی ہے۔

70 ہیکٹر پر محیط اس فوجی چھاؤنی کی بنیادی قلعہ بندی چار کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ایک مضبوط چار دیواری پر مشتمل ہے۔ اس قلعے میں 68 برج پوری شان سے ایستادہ ہیں۔ ترکی، مشرقی وسطی اورجنوبی ایشیا کی مسلم اور مغل فن تعمیر سے متاثر اس قلعے کے 12 شاندار دروازے دفاعی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے انتہائی اہم جگہوں پر بنائے گئے ہیں۔

مشہورسپہ سالار شیر شاہ سوری نے اس قلعہ کی تعمیر کروائی جو 1549 عیسوی میں مغل بادشاہ ہمایوں کو تخت سے اتار کر سوری سلطنت کا فرمانروا بنا۔ غیر منظم منصوبہ بندی کی مثال یہ قلعہ اس طرح بنایا گیا ہے کہ اس کی بیرونی دیوار قلعے کے اندرونی حصے کو باقی قلعے سے علیحدہ کرتی ہے۔ سیڑھی دار کنویں یعنی باؤلی اس قلعے میں پانی کی خود انحصاری کی عکاس ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے 1997 میں قلعہ روہتاس کو اس کی ثفافتی اہمیت کے مدنظر عالمی ورثے کی فہرست میں شامل کرلیا۔ تاریخ کے مطابق اس قلعے کو سب سے زیادہ استعمال کیے جانے والی فوجی چھاؤنی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ سولہویں صدی سے لے کر درانی اور انیسویں صدی میں سکھ جنگجوؤں نے بھی اسے استعمال کیا۔

بعد ازاں یہاں اندرون اور بیرون بڑے پیمانے پر تجاوزات اور قبضوں نے نہ صرف اس قلعے کے حسن کو ماند کردیا بلکہ اس کی بین الاقوامی ساکھ کو بھی نقصان پہنچایا۔ قلعہ روہتاس کو فوری بنیادوں پر تعمیر و مرمت کے کاموں اور بحالی کی ضرورت ہے تاکہ اس عالمی ورثے کو اس کی پوری شان و شوکت کے ساتھ آئندہ نسلوں کےلیے محفوظ رکھا جاسکے۔

حال ہی میں یونیسکو پاکستان اور ایس ٹی پی ایف (Sustainable Tourism Foundation Pakistan) نے مل کر مقامی آبادی خصوصاٌ نوجوانوں اور اسکول کے بچوں کے اشتراک سے اس عالمی ورثے کو محفوظ بنانے کی کوششوں میں اے آئی سی ای (AICE) کا ساتھ دیا ہے۔

اس مہم کے تحت یہاں کی آبادی کو یہ شعور دیا جارہا ہے کہ وہ اپنے علاقے میں موجود اس شاندارورثے کے امین اور وارث بنیں اور یہاں آنے والے سیاحوں کو یہاں کی تاریخ، علاقائی ثقافت اور قلعے کے محل و قوع سے روشناس کروائیں۔

’’ایس ٹی پی ایف‘‘ مقامی آبادی خصوصاً مرد و خواتین اساتذہ کے ساتھ ساتھ وہاں کے اسکولوں کے نوجوانوں کو اس مقصد میں شریک کر رہی ہے تاکہ زمانے کی سختیوں کے شکار اس خوبصورت تاریخی یادگار کو اس کی اصل کے ساتھ برقرار رکھا جائے۔ یہاں آنے والے سیاحوں کو سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اس تاریخی مقام پر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنے کی ترغیب دیا جانا بھی اس پروجیکٹ کا ایک انتہائی اہم جزو ہے۔

پروجیکٹ کے تحت متعلقہ حکومتی اداروں مثلاً پنجاب ڈائریکٹوریٹ آف آرکیالوجی، ٹورزم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن آف پنجاب، پاکستان ٹورزم ڈیولپمنٹ کارپوریشن اور پرائیویٹ سیکٹر سے دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ اشتراک کرکے روہتاس میں ایک قابل عمل اور پائیدار سیاحت کا پروگرام تشکیل دیا جائے گا۔

یہ پروگرام تاریخی اور ثقافتی ورثوں کی بحالی کی جانب ایک ابتدائی اور قابلِ عمل قدم کہا جاسکتا ہے جس سے ارد گرد کی آبادیوں اور بالخصوص نوجوانوں کی مدد سے پاکستان میں موجود آہستہ آہستہ شناخت کھوتے اور گم ہوتے تاریخی نگینوں کو بچانے میں مدد ملے گے؛ اور حکومت پاکستان کی جانب سے ان نادر تاریخی اور ثقافتی ورثوں کو بچانے کی کوششوں میں تائید حاصل ہوگی۔

روہتاس ثقافتی فن و ثقافت

ایس ٹی ایف پی، یونیسیکو پاکستان کی معاونت سے روہتاس بچاؤ مہم میں مقامی آبادی اور نوجوانوں کی شمولیت اور ثقافتی اینٹریپرینیور شپ کو فروغ دے کر شعور او ر روزگار پیدا کرنے والے اس پروگرام کے اجرا کےلیے کامیابی سے ورکشاپس کا آغاز کردیا گیا ہے تاکہ مقامی آبادی خاص طور پر خواتین کو معاشی خود مختاری فراہم کی جاسکے اور مقامی دستکاریوں اور فنون کو جلا بخشی جائے۔

عموماٌ جب مقامی افراد ان سرگرمیوں میں شریک کیے جاتے ہیں اور انہیں وہیں متبادل روزگار بھی حاصل ہوتا ہے تو وہ اس ورثے کی دل و جان سے حفاظت بھی کرتے ہیں۔ مقامی خواتین ”روہتاس ہیریٹیج کرافٹس“ کے نام سے قائم ایک کمیونٹی بیسڈ ادارہ کامیابی سے چلا رہی ہیں۔

روہتاس کے دلفریب نظارے

ایس ٹی ایف پی، یونیسیکو پاکستان کی معاونت سے روہتاس بچاؤ مہم میں مقامی آبادی اور نوجوانوں کی شمولیت سے قلعے کی تمام جگہوں کی تفصیلی معلومات فراہم کرنے کےلیے ٹور گائیڈ پروگرام کا آغاز بھی کیا جارہا ہے۔ سیاحوں کو یہاں کی شان و شوکت اور شاندار ماضی سے وابستہ معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔

ٹیچرز ٹریننگ پروگرام

روہتاس قلعے کی بحالی میں مقامی آبادی کوشامل کرنے کےلیے ایک تربیتی پروگرام شروع کیا گیا ہے۔ پوری دنیا میں اس بات کی اہمیت کو اجاگر کیا جا رہا ہے کہ ثقافتی ورثوں کی بحالی کےلیے مقامی آبادی کو زیادہ سے زیادہ شامل کیا جائے تاکہ نوجوانوں اور بچوں کو ان جگہوں کی اہمیت سے واقفیت ہو اور وہ آج اپنے حصے کا کام کریں اور آئندہ کےلیے تمام یادگاروں کی حفاظت کا بیڑا اٹھا سکیں۔

ان تمام عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے یونیسکو پاکستان اور سسٹین ایبل ٹورزم فاؤنڈیشن پاکستان نے ڈسٹرکٹ گورنمنٹ جہلم اور پنجاب آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ کے تعاون سے دو روزہ تربیتی ورکشاپ کا انعقاد کیا جس میں کمیونٹی بالخصوص نوجوانوں اور اسکول جانے والے بچوں کو قلعہ روہتاس کی ثقافتی اور حفاظت کی اہمیت سے روشناس کرایا گیا۔

16 اور 17 فروری کو منعقد ہونے والی اس ورکشاپ میں 8 اسکولوں سے تعلق رکھنے والے 26 مرد اور خواتین اساتذہ اور چار سینئر طالب علموں نے شرکت کی۔ آفتاب رانا، عتیق الرحمن، محمد بن نوید، علیمہ بی بی اور ہما وقاص نے بطور ریسورس پرسن مختلف سیشن میں شرکت کی۔

لیکچرز، پریزینٹیشن، گروپ ورک اور فیلڈ سروے کی مدد سے اس متنوع موضوع کی اہمیت، ثقافتی ورثوں کی بحالی، مقامی آبادی کی شمولیت، روزگار کے نئے مواقع اور لوگوں میں احساسِ ذمہ داری بیدار کرنے جیسے عوامل پر زور دیا گیا۔

اس سیشن کے فالو اپ کے طور پر یہاں سے تربیت حاصل کرکے اپنے اسکولوں میں اپنے طالب علموں کو اس کے بارے میں معلومات فراہم کرنا ان کا بنیادی مقصد ہے۔ مقامی افراد کا اس اہم ثقافتی ورثے کی اہمیت کو جاننا اور اس کی حفاظت کو اپنا نصب العین بنانا اشد ضروری ہے۔

سیشن کے آخری دن 17 فروری کی شام روہتاس قلعے میں راؤ پرویز اختر ڈپٹی کمشنر جہلم نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ انہوں نے شرکاء میں سرٹیفکیٹس تقسیم کیے۔ انہوں نے یونیسکو اور سسٹین ایبل ٹورزم فاؤنڈیشن پاکستان کی جانب سے کی جانے والے کاوشوں کو سراہا۔ اس موقع پر ایس ٹی ایف پی کے صدر آفتاب رانا، مس مریم، یونیسکو کے نمائندہ اور آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ کے ایس ڈی او نے بھی ثقافتی ورثے کی بحالی اور کمیونٹی کے کردار پر روشنی ڈالی۔

ایس ٹی ایف پی اور یونیسکو پاکستان کی جانب سے مقامی آبادی کےلیے ایک ہفتے کی تربیتی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔

اس تربیت کا مقصد طریقہ کار کا علم اور عملی تربیت کو ملا کر ایسی ٹیکنیکل مہارتیں فراہم کرنا ہے جن سے روہتاس کے علاقے میں پیشہ ورانہ سیاحت کو فروغ ملے۔ اس سیشن میں ٹور گروپ مینجمنٹ، سیاحوں کو دلچسپ انداز میں معلومات فراہم کرنا، سیاحوں کی محفوظ اور آرام دہ انداز میں رہنمائی، ابلاغ کی بہترین مہارت، بنیادی فرسٹ ایڈ، ٹرانسپورٹ کی سہولیات کا انتظام، آمدورفت اور رہائشی انتظامات، سیکیورٹی کے انتظامات، سیاحتی قوانین کی سمجھ بوجھ اور کسی بھی ایمرجنسی صورتحال میں معاملات کو بہتر انداز سے سنبھالنا اس تربیت کے اہم عوامل تھے۔

شرکاء کو یہ بھی سمجھایا گیا کہ کس طرح مثبت انداز سے اس ثقافتی ورثے کی حفاظت کو اپنا نصب العین بنالیں بلکہ یہاں آنے والوں میں بھی یہی شعور بیدار کریں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔