خیبرپختونخوا میں خطیبوں کی ماہانہ تنخواہ 21 ہزار روپے مقرر

ویب ڈیسک  منگل 16 نومبر 2021
وزیراعلی کا سالانہ ترقیاتی پروگرام میں شامل نئے منصوبوں کے پی سی ونز کی منظوری کی صورت حال پر عدم اطمینان کا اظہار۔(فوٹو: فائل)

وزیراعلی کا سالانہ ترقیاتی پروگرام میں شامل نئے منصوبوں کے پی سی ونز کی منظوری کی صورت حال پر عدم اطمینان کا اظہار۔(فوٹو: فائل)

 پشاور: وزیر اعلی خیبر پختونخوا محمود خان کے زیر صدارت ہونے والے جائزہ اجلاس میں خطیبوں کی تنخواہوں میں اضافے اور سرکاری محکموں میں تمام خالی آسامیوں پر 3 ماہ کے اندر بھرتیوں کا عمل مکمل کرنے کی ہدایات جاری۔

وزیر اعلی خیبر پختونخوا محمود خان کی زیر صدارت سالانہ ترقیاتی پروگرام کی پہلی سہ ماہی کا جائزہ اجلاس ہوا جس میں متعلقہ صوبائی وزراء کے علاوہ ایڈیشنل چیف سیکریٹری، ایس ایم بی آر اور انتظامی سیکریٹری بھی شریک ہوئے۔

وزیر اعلی نے محکمہ اوقاف کو 15 روز میں صوبے بھر کے خطیبوں کی ماہانہ تنخواہوں میں اضافے کا اعلامیہ جاری کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ خطیبوں کی ماہانہ تنخواہیں 8000 ماہانہ سے بڑھا کر 21 ہزار ماہانہ کی جائیں۔

اجلاس میں وزیر اعلی کو پہلی سہ ماہی کے دوران تمام محکموں کے تحت ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص اور جاری کردہ فنڈز، فنڈز کے استعمال کی صورت حال اور دیگر متعلقہ امور پر تفصیلی بریفنگ دی گئی، جب کہ گزشتہ اور رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران ترقیاتی منصوبوں پر پیش رفت کا تقابلی جائزہ بھی پیش کیا گیا۔

اجلاس سے خطاب میں وزیر اعلی سرکاری محکموں میں تمام خالی آسامیوں پر 3 ماہ کے اندر بھرتیوں کا عمل مکمل کرنے، تمام واٹر سپلائی اسکیموں میں  ایک کی بجائے 2 اہلکاروں کی تعیناتی کے لیے نئی آسامیاں تخلیق کرنے اور صوبے کے پبلک گیم ریزروز میں وائلڈ لائف چوکیدار کی آسامیاں بھی تخلیق کرنے کی ہدایات جاری کیں۔

وزیر اعلی نے فاریسٹ گارڈ کی نئی تخلیق کردہ 1200 آسامیوں پر بھرتیوں کا عمل جلد مکمل کا حکم بھی جاری کیا۔ اس موقع پر وزیر اعلی کے پی کا کہنا تھا کہ محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم کو ڈیپوٹیشن پر دوسرے محکموں اور انتظامی عہدوں پر تعینات تمام اساتذہ کو ایک ہفتے کے اندر واپس  بلا کراسکولوں میں تعینات کرکے اس کی رپورٹ پیش کی جائے۔

اجلاس میں وزیر اعلی کو بریفینگ دی گئی کہ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران ترقیاتی منصوبوں کے لیے جاری  کردہ فنڈز کے استعمال کی شرح 38 فیصد رہی، جو کہ گذشتہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے مقابلے میں 425 فیصد زیادہ ہے، اس دفعہ مالی سال کے شروع ہی میں 100 فیصد ترقیاتی فنڈز جاری ہونے کی وجہ سے جاری ترقیاتی فنڈز کے استعمال کی شرح میں نمایاں بہتری آئی ہے۔

اجلاس میں بتایا گیا کہ رواں مالی سال کے ترقیاتی پروگرام میں 1713 ارب روپے مالیت کے 2280 منصوبے شامل ہیں،جن کے لیے رواں مالی سال کے بجٹ میں 210 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، جب کہ سالانہ ترقیاتی پروگرام میں 331 ارب روپے مالیت کے 219 ترجیحی منصوبے شامل ہیں جو اگلے دو سالوں میں مکمل کیے جائیں گے اوران منصوبوں کی بروقت تکمیل کے لیے رواں بجٹ میں 73 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

وزیر اعلی کو دی گئی بریفنگ میں بتایا گیا کہ پہلی سہ ماہی کے دوران جاری کردہ فنڈز استعمال کرنے کے سلسلے میں محکمہ ٹرانسپورٹ 74 فیصد کے ساتھ  پہلے نمبر، روڈ سیکٹر 67 فیصد کے ساتھ دوسرے اور انرجی سیکٹر 61 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہا۔ پہلی سہ ماہی کے دوران ان ترجیحی منصوبوں کے لیے جاری کردہ فنڈز کے استعمال کی شرح 42 فیصد رہی، رواں سالانہ ترقیاتی پروگرام میں شامل 458 نئے منصوبوں میں سے اب تک 153 منصوبے متعلقہ فورمز سے منظور کروا لیے گئے ہیں، رواں مالی سال کے دوران اب تک ترقیاتی منصوبوں سے متعلق 1439 مانیٹرنگ رپورٹس مرتب کی گئی ہیں، ان میں سے 1090 رپورٹس پر متعلقہ محکموں کی طرف سے فیڈ بیک موصول ہو چکا ہے، رواں مالی سال کے دوران 170 ارب روپے مالیت کے 670 مختلف ترقیاتی منصوبے تکمیل کے مراحل میں ہیں، ان منصوبوں کی تکمیل کے لیے رواں بجٹ میں 60 ارب روپے مختص ہیں۔

اجلاس میں وزیر اعلی نے رواں سالانہ ترقیاتی پروگرام میں شامل نئے منصوبوں کے پی سی ونز کی منظوری کی صورت حال پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے تمام محکموں کو رواں ماہ کے آخر تک اپنے اپنے پی سی ونز متعلقہ فورمز سے منظور کروانے کی ڈیڈ لائن دے دی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دسمبر میں سالانہ ترقیاتی پروگرام پر دوبارہ نظر ثانی کی جائے گی اور پی سی ونز منظور نہ ہونے کی صورت میں متعلقہ سیکرٹریز کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔

وزیر اعلی نے ترقیاتی منصوبوں کی موثر مانیٹرنگ کے لیے مانیٹرنگ اینڈ ایویلیوایشن سیل کو مزید مستحکم کرنے اور اس کے دائرہ کار کو وسیع کرنے کی ہدایت جاری کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مانیٹرنگ رپورٹس کی روشنی میں متعلقہ ذمے داروں کے خلاف کاروائیاں بھی عمل میں لاکر رپورٹس پیش کی جائیں، ضم اضلاع میں ترقیاتی منصوبوں کی موثر نگرانی کے لیے مانیٹرنگ کا خصوصی نظام متعارف کرایا جائے، ضم اضلاع میں ترقیاتی منصوبے کی نشان دہی میں زیادہ آبادی والے علاقوں اور لوگوں کی ضروریات کو پہلی ترجیح دی جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔