متبادل کہاں سے لائیں
ایک زمانے میں یہ بحث شروع ہوئی تھی کہ غیر ملکی مدد ملے تو این جی اوز حکومت کی ذمے داریاں سنبھال سکتی ہیں
SHEIKHUPURA:
زندگی ہر روز ایک نئے رنگ میں ہمارے سامنے آشکار ہوتی ہے۔ دل کو خوش کرنے کے ساتھ ایسی خبریں بھی آتی ہیں جو ہم کو مدتوں دکھی رکھتی ہیں۔ کل اطلاع آئی کہ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کار کے ایک حادثے میں جاں بحق ہوگئے، اس سے پہلے ڈاکٹر مہدی حسن اور شرافت علی کے جانے کی اطلاع ملی تھی۔
گزشتہ دو برسوں سے کسی نہ کسی دوست یا مہربان کے رخصت ہونے کی تقریباً ہر روز خبر ملتی ہے۔ دنیا سے ایسے بہت سے لوگ چلے گئے جن کی محروم، محکوم اور مظلوم لوگوں کو ابھی بہت ضرورت تھی۔ زیادہ وقت نہیں گزرا کہ تسنیم صدیقی بھی اچانک ابدی نیند سو گئے۔ وہ ایک غیرمعمولی انسان تھے جو اپنی زندگی کے آخری دن تک محروم انسانوں کے حقوق کے لیے کام کرتے رہے۔
تسنیم صدیقی ہمارے بزرگ اور مہربان دوست سعید حسن خان کے بہت پرانے اور گہرے دوست تھے۔ سعید بھائی جس المناک کیفیت سے دوچار ہوں گے اس کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ تسنیم صاحب ایک اعلیٰ بیوروکریٹ تھے۔ انھیں عوام دوست بیوروکریٹ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ انھوں نے سندھ یونیورسٹی سے انگریزی ادب اور پولیٹیکل سائنس میں ایم اے کرنے کے علاوہ ہارورڈ سے بھی پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ وہ شروع سے ہی ڈاکٹر اختر حمید خان سے بے حد متاثر تھے۔ اختر حمید خان نے کراچی میں اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کے تحت کچی آبادی میں رہنے والوں کی دنیا بدل ڈالی۔
تسنیم صدیقی نے ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حیدرآباد میں ''خدا کی بستی'' کے نام سے غریبوں کے لیے ایک رہائشی منصوبہ شروع کیا جس میں تمام سہولیات فراہم کرکے لوگوں کو انتہائی کم قیمت پر پلاٹ دیے گئے تاکہ وہ خود اپنے گھر تعمیر کرسکیں۔ اس بے مثال منصوبے پر انھیں 1995 میں آغاخان آرکیٹیکٹ ایوارڈ دیا گیا۔ تسنیم صدیقی کو یاد کرتے ہوئے کیسے ممکن ہے کہ اختر حمید اور مادام رتھ فاؤ کو یاد نہ کیا جائے جنھوں نے یہ ثابت کردیا کہ غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعے بھی غریب اور ضرورت مند لوگوں کے لیے کیا کچھ کیا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر اختر حمید خان مرحوم اورنگی پائلٹ پراجیکٹ جیسی عظیم الشان این جی او کے کرتا دھرتا تھے۔ اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کا شمار آج دنیا کی سب سے بڑی کچی آبادی میں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم کے طور پر ہوتا ہے اور اسے بین الاقوامی شہرت حاصل ہے۔ اس کے باوجود ڈاکٹر اختر حمید خان نے این جی اوز کو کبھی بھی حکومت کا متبادل نہیں سمجھا۔ ان کا خیال تھا کہ غیر سرکاری تنظیمیں کمیونٹی کو منظم کرنے، اپنی مدد آپ کے اصول کے تحت کمیونٹی کے لوگوں کو اپنی زندگی بہتر بنانے اور ان کی رہنمائی کرنے کا کام تو کرسکتی ہیں لیکن اس سے آگے کے تمام کام حکومت کو کرنے چاہئیں۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان میں دیہی اور شہری عورتوں کی صحت کے معاملات اور ماحولیات کے شعبے میں غیر سرکاری تنظیموں نے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کے باوجود یہ وہ شعبے ہیں جن میں سرکاری امداد اور تعاون کے بغیر بڑی کامیابیاں نہیں حاصل کی جاسکتیں۔ ان غیر سرکاری تنظیموں کی کارکردگی کو سامنے لانا بہت ضروری ہے جنھوں نے روز اول سے انسانوں کی خدمت اور ان کی زندگیاں بہتر بنانے کے لیے کام کیا اور آج تک اپنی پرانی روش پر قائم ہیں۔
پاکستان میں جس این جی او نے سب سے پہلے کام شروع کیا وہ جذامیوں کی دیکھ بھال اور ان کے علاج معالجے کے لیے مغربی جرمنی کی ایک تنظیم کی مدد سے قائم ہوئی تھی۔ یہ 1955 کی بات ہے جب کراچی سے ایک خط پیرس بھیجا گیا۔
شہر کے آرچ بشپ کی طرف سے ڈاٹرز آف دی ہارٹ آف میری کے ہیڈ کوارٹرز کو لکھے گئے اس مختصر سے خط میں چند کیتھولک راہباؤں کے لیے درخواست کی گئی تھی جو میکلوڈ روڈ کے عقب میں قائم ہونے والی ایک پس ماندہ بستی میں کام کرسکیں جس کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا تھا اور شہر کے گوشے گوشے سے جذام میں مبتلا افراد اس بستی کے تعفن زدہ ، افلاس اور عسرت میں ڈوبے ہوئے گلی کوچوں کا رخ کررہے تھے مگر کسی کو ان کی خبر نہ تھی۔ دم توڑتے ہوئے انسانوں کی اس بستی کی طرف کوئی متوجہ نہ تھا۔ کوئی نہیں چاہتا تھا کہ جذام کے مریضوں کو محض ایک نگاہ بھر کر دیکھ بھی لے۔ یوں جذام کے مریضوں کے لیے 1963 میں قائم ہونے والے لپریسی سینٹر کی بنیاد پڑی۔
میری ایڈی لیڈ لپریسی سینٹر کا ذکر میں بالخصوص اس لیے کررہی ہوں کہ اس این جی او نے پاکستان میں جذام کے مریضوں کے لیے جو کچھ بھی کیا ، اس کے چالیس سالہ کام کا تمام انحصار ایک ایسی خاتون کی ذات پر رہا جو پاکستانی شہری نہیں تھیں ، ان کی مادری زبان جرمن تھی ، وہ جرمنی کی شہری تھیں۔
اگر وہ پاکستانی شہریت قبول کرلیتیں تو انھیں جرمنی کی شہریت سے محروم ہونا پڑتا لیکن یہ بات انھیں گوارا نہیں تھی۔ اس لیے چالیس برس پاکستان میں جذامیوں کے ساتھ گزارنے کے باوجود وہ اس ملک کو اپنے دل کا وطن تو کہتی تھیں لیکن اپنا پیدائشی وطن جرمنی کو بھی مانتی تھیں اور یہ کہنے میں عار محسوس نہیں کرتی تھیں کہ میں اندر سے جرمن ہوں۔
کراچی میں اپنے آنے اور پھر یہاں سے واپس وطن نہ جانے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ جب میں خدمت خلق کے جذبے کے ساتھ کراچی پہنچی تو میری ملاقات میکسیکو کی ایک خاتون فارماسسٹ سے ہوئی جو سٹی اسٹیشن کے پیچھے جذامیوں کی ایک بستی دریافت کرچکی تھی۔ اس بستی میں درد و الم کا آپ تصور بھی نہیں کرسکتے۔ وہ خاتون مجھے اس بستی میں لے گئی۔
میں وہاں جذام میں مبتلا لوگوں کی بھیانک زندگیاں دیکھ کر سن رہ گئی۔ دنیا میں کسی مقام پر آپ کو ایسی تکلیف اور بے حسی کا مظاہرہ شاید ہی دیکھنے کو ملے۔ لوگ خاموشی سے دکھ اٹھا رہے تھے، مر رہے تھے مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی تھی۔ میں نے پیرس اپنے ہیڈ کوارٹر مطلع کردیا کہ اس مقام پر میری سب سے زیادہ ضرورت ہے چنانچہ انھوں نے مجھے یہاں ٹھہرنے کی اجازت دے دی۔ تب سے اب تک میں پاکستان میں جذام کے خاتمے کے لیے مسلسل جدوجہد کررہی ہوں۔
پاکستان میں این جی اوز مسائل کے حل کے لیے جوکام کررہی ہیں اس بارے میں ڈاکٹر رتھ فاؤ کا موقف تھا کہ یہاں اتنے مسائل ہیں کہ کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ اگر میرے پاس دس زندگیاں بھی ہوتیں تو بھی میں اسی سوچ میں رہتی کہ آخر یہ مسائل کیسے حل ہوں گے۔ مثال کے طور پر پاکستان میں سڑکوں پر رہنے والے بچوں کے لیے کوئی نہیں سوچ رہا ، جن کی تعداد دن بہ دن بڑھ رہی ہے۔ یہاں ذہنی طور پر پس ماندہ اور دیوانگی میں مبتلا افراد کو سڑکوں پر مارا مارا پھرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ لاکھوں بچے اسکول کی شکل تک نہیں دیکھ پاتے۔ بے روزگاری نے نوجوانوں سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لی ہے۔
اقلیتوں خاص طور پر ہندوؤں کا ہم ہر طرح سے استحصال کر رہے ہیں۔ ہمارا امیر طبقہ اپنی ذمے داریاں ادا نہیں کررہا ہے ، اگر جرمنی اس ملک میں جذام کے مریضوں کے لیے پیسے دے سکتا ہے تو پاکستان اپنے اخراجات خود کیوں نہیں اٹھا سکتا۔ مجھے کیوں بار بار خیرات کے لیے جرمنی کا رخ کرنا پڑتا ہے ، حکومت بہت تھوڑا سا حصہ دیتی ہے۔ پاکستان ایک امیر ملک ہے جہاں کی حکومت غریب ہے۔ اس میں حکومت کا قصور نہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے۔ ڈاکٹر رتھ فاؤ کی یہ باتیں ہمیں جس طرح آئینہ دکھاتی ہیں اس بارے میں کچھ کہنا محض فضول ہے۔
ایک زمانے میں یہ بحث شروع ہوئی تھی کہ غیر ملکی مدد ملے تو این جی اوز حکومت کی ذمے داریاں سنبھال سکتی ہیں۔ جسے ڈاکٹر حمید خان مرحوم نے '' تباہی کا نسخہ '' قرار دیا تھا۔ رتھ فاؤ بھی کہتی تھیں کہ ''میں خیرات کے لیے بار بار جرمنی کا رخ کیوں کروں'' ڈاکٹر اختر حمید، رتھ فاؤ اور تسنیم صدیقی جیسے لوگوں نے دنیا کو یہ دکھا دیا کہ ''بھیک مانگے یا حکومت کا متبادل '' بنے بغیر بھی لوگوں کو ساتھ ملا کر غیر معمولی کام کیے جاسکتے ہیں لیکن یہ سچ دکھ دیتا ہے کہ ہم جانے والوں کا متبادل کہاں سے لائیں گے؟