ROME:
معدنیات سے مالا مال بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ بلوچستان کے سب سے بڑے ضلع چاغی کی پہچان پاکستان میں ایٹم بم کے تجربے اور معدنیات سے ہوتی ہے۔ جب بھی ایٹم بم کا ذکر ہوتا ہے تو چاغی کے پہاڑوں کی قربانیوں کے تذکرے بھی ہوتے ہیں۔
44 ہزار کلومیٹر اسکوائر پر محیط ضلع چاغی نے 28 مئی 1998 کے دن دھرتی ماں کے تحفظ اور وقار کےلیے ایٹم بم کو سینے سے لگایا۔ 24 سال قبل چاغی کے پہاڑ راسکوہ میں پاکستان نے ایٹمی تجربہ کیا۔ تجربے سے دنیا بھر میں پاکستان کی خودمختاری، سالمیت کو وقعت ملی۔ پاکستان دنیا کا پہلا اسلامی ایٹمی طاقت بنا۔ تمام بیرونی طاقتوں کے پرزور دباؤ کے باوجود پاکستان نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ڈاکٹر ثمر مبارک کی قیادت میں ایٹم بم کا تجربہ کیا۔ ایٹمی تجربے کےلیے اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف بھی چاغی تشرہف لائے تھے۔ ملک کی مضبوطی کےلیے تمام پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ چاغی کے عوام بھی سرشار تھے اور یہ فخر محسوس کرتے تھے اور کرتے رہیں گے کہ پاکستان کی مضبوطی کےلیے ایٹمی تجربے کےلیے چاغی کی سرزمین کو چنا گیا۔ مگر افسوس اس وقت کے حکمرانوں نے اس قربانی کے بدلے میں پسماندگی، محرومیاں اور جھوٹے وعدے دیے۔
ایٹمی تجربے کے بعد اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے چاغی کے ہیڈکوارٹر دالبندین میں عظیم الشان جلسہ کیا۔ جلسے میں چاغی کو زرعی پیکیج اور بجلی دینے کا وعدہ کیا تھا۔ چاغی میں تعلیمی نظام کے قیام، صحت کی سہولتیں و دیگر مراعات کا بھی وعدہ کیا گیا تھا۔ مگر وعدے جو کیے وہ وفا نہ ہوسکے۔
میاں نوازشریف کی حکومت کے بعد پرویز مشرف کے دور میں بھی چاغی کو نظرانداز کیا گیا۔ ایٹمی تجربے کے بعد عمران خان نے بھی چاغی کا دورہ کیا۔ مشرف کی حکومت کے بعد پیپلزپارٹی کے دور اقتدار میں چاغی سے پی پی پی کے ایم این اے بننے والے سردار عمر گورگیج نے چاغی کو نیشنل گرڈ سے منسلک کرکے چاغی کی بجلی جیسی اہم ضرورت کو پورا کیا۔
چاغی کے بنیادی مسائل میں سب سے اہم مسئلہ صحت کا ہے۔ ہر دور حکومت میں صحت کے نظام کی بہتری کےلیے حکمرانوں کے آگے چیخ و پکار کی جاتی ہے۔ مگر چاغی کے باسیوں کی فریاد ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دی جاتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ چاغی ڈسٹرکٹ کے ہیڈکوارٹر دالبندین میں واقع ضلع کے ہیڈکوارٹر اسپتال میں ڈاکٹرز اور اودیہ میسر نہیں۔ آپریش تھیٹر عرصے سے غیر فعال ہے۔ ضلع میں ایک سرجن کی تعیناتی بھی گوارا نہیں کی جارہی۔ ایمرجنسی کی صورت میں مریضوں کےلیے کوئی سہولت موجود نہیں۔ جس دھرتی نے ایٹم بم کو سینے سے لگا کر اف تک نہ کیا، آج 26 سال سے بوند بوند پانی کو ترس رہی ہے۔ چاغی کی زرخیز زمین کو بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے قحط کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پینے کےلیے صاف پانی میسر نہ ہونے کی وجہ سے کم عمر نوجوانوں کو گردے اور معدے کی بیماریوں کا سامنا ہے۔ وعدوں کی تکمیل کےلیے راسکوہ کے باسیوں کی ترستی آنکھیں ہر آنے والی نئی حکومت سے امیدیں لگا لیتی ہیں۔
چاغی پاکستان کا واحد ضلع ہے جس سے دو ملکوں کی سرحدیں جڑتی ہیں۔ پاکستان ایران کی تجارت سے بھی چاغی کو خاطرخواہ فائدہ نہیں ہورہا۔ چاغی ضلع کے سرحدی شہروں میں بنیادی سہولتوں کا نام و نشان نہیں ہے۔ دو طرفہ سرحدیں ہونے کے باوجود علاقے میں روزگار کے مواقع پیدا نہیں کیے جارہے۔ بیشتر نوجوانوں کی ڈگری ردی کی ٹوکری کی نذر ہوجاتی ہے۔ ضلع میں نشے کے عادی افراد میں بھی نوجوانوں کی کثیر تعداد ہے جو حالات سے تنگ آکر اپنی اپنی زندگیوں کے خاتمے میں لگے ہوئے ہیں۔
تعلیمی نظام اور معیار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ضلع کے بیشتر طالبعلم کوئٹہ اور دیگر بڑے شہروں میں جاکر ہاسٹلز میں رہ کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ ضلع میں سرکاری تعلیمی ادارے اساتذہ کی عدم حاضری اور سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے اجڑے ہوئے ہیں۔ دوردراز علاقوں میں اساتذہ کی رسائی کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے وہاں کے بچوں کو پرائمری تعلیم تک میسر نہیں۔ پرانے اسکولوں کی عمارات کی خستہ حالی کی وجہ سے وہاں تعلیم کے دروازے کو تالا لگ چکا ہے۔
ایٹمی دھماکوں کے بعد ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ایٹمی دھماکے کی تابکاری سے بیماریاں پھیل سکتی ہیں، اور جنگلات اور حیوانات کو بھی نقصان ہوسکتا ہے۔ چاغی، نوشکی، خاران میں کینسر، گردے اور جلد کی موذی بیماریاں پھیلنے کی وجہ بھی عوام نے ایٹمی تابکاری کو قرار دیا، جس کی روک تھام کےلیے واضح طور پر کوئی اقدام نظر نہیں آیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ضلع تو دور صوبے میں بھی ان بیماریوں کا علاج ممکن نہیں۔ سونے، تانبے اور 80 سے زائد معدنیات سے مالا مال بلوچستان میں ایک کینسر کا اسپتال تک تعمیر نہیں کیا جاسکا۔
ضلع چاغی کو ایٹمی دھماکے کے بعد ایک پہچان ضرور ملی لیکن ضلع بھر میں آج بھی صحت جیسی بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے۔ ملک میں ہر سال 28 مئی کو یوم تکبیر جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے مگر ضلع چاغی کے باسی آج بھی 26 سال قبل کیے گئے وعدوں کی تکمیل کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ ضلع میں صحت اور تعلیم کے شعبے میں فوری اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ نوجوان نسل کا مستقبل محفوظ اور روشن رہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔