نوجوان ملازمتوں کے بجائے اپنا کاروبار کریں

ضیا الرحمٰن ضیا  جمعرات 21 جولائی 2022
نوجوان فری لانسنگ سے لاکھوں روپے کما سکتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

نوجوان فری لانسنگ سے لاکھوں روپے کما سکتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

وطن عزیز میں ملازمتوں کےلیے دو اہم شعبے ہیں۔ ایک شعبہ سرکاری، جس میں نیم سرکاری بھی شامل ہے کیونکہ اسے بھی سرکاری یا اس کے قریب تر سمجھا جاتا ہے جبکہ دوسرا شعبہ پرائیویٹ ہے۔

سرکاری شعبے کے بارے میں عوام کا نقطہ نظر بہت اچھا ہے۔ وہ سرکاری ملازمت کو بہت زیادہ پسند کرتے ہیں جبکہ پرائیویٹ شعبے کو عام طور پر اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ جو سرکاری ملازمت کررہا ہو اسے تو برسرروزگار سمجھا جاتا ہے جبکہ پرائیوٹ ملازمت والا اگرچہ سرکاری ملازم سے زائد تنخواہ وصول کر رہا ہو اسے بے روزگار ہی خیال کیا جاتا ہے اور پرائیویٹ شعبے میں ملازمت کرنے والے سرکاری ملازمت کےلیے ہاتھ پاؤں مارتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ سرکاری ملازمت کو اللہ کی طرف سے روزی ملنا خیال کیا جاتا ہے اور اس پر شکر بھی ادا کیا جاتا ہے جبکہ پرائیویٹ ملازمت کو تو فضول خیال کرکے ہمیشہ ناشکری کے الفاظ ہی ادا کیے جاتے ہیں۔

اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ ہمارے عوام زیادہ تر کاہل اور سست ہیں۔ اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ آسان سا کام ہو اور بس بیٹھے بٹھائے اتنی آمدن ہو جائے جس سے گھر کا نظام چلتا رہے۔ اس کےلیے ظاہر ہے کہ سرکاری ملازمت ہی بہترین ہے۔ کیونکہ اس میں کافی مراعات ملتی ہیں۔ سب سے بڑی رعایت تو یہ ہے کہ یہ ملازمت مستقل ہوتی ہے اور ساٹھ سال کی عمر تک کوئی ان ملازمین کو اپنے کسی ذاتی مقصد کی خاطر ملازمت سے فارغ نہیں کر سکتا۔ مگر یہ کہ کوئی ملازم سنگین نوعیت کا جرم یا غلطی کا ارتکاب کر بیٹھے، اس کے علاوہ ان کی ملازمت مقررہ میعاد تک بلا روک ٹوک جاری رہتی ہے۔ سرکاری ملازمت کی یہی خوبی ہمارے اچھے اچھے پڑھے لکھے، ذہین، محنتی اور باصلاحیت نوجوانوں کو اپنی طرف اس طرح کھینچ لیتی ہے کہ انہیں اپنی صلاحیتوں کے زنگ آلود ہونے، اپنی محنت کے بل بوتے پر ترقی کرنے اور اپنی ذہانت کی وجہ سے دولت اور شہرت حاصل کرنے سے غافل کر دیتی ہے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں میں شعور کی کمی ہے۔ انہیں یہ نہیں معلوم کہ اگر وہ پرائیویٹ شعبے میں محنت کریں تو وہ سرکاری ملازمت سے کہیں زیادہ آمدن اور سکون پا سکتے ہیں۔ اپنا کاروبار کرلیں یا آن لائن فری لانسنگ وغیرہ کے ذریعے کام کریں تو اتنی آمدن بھی حاصل کرسکتے ہیں جنتی سرکاری ملازم کئی سال لگا کر نہیں کرسکتا۔ لیکن نوجوانوں کو یہ چیز سکھانے اور سمجھانے والا کوئی نہیں ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام بھی ایسا ہے جس میں ایسا کچھ بھی نہیں سکھایا جاتا بلکہ وہاں تو صرف رٹے لگوا کر نوکر ہی تیار کیے جاتے ہیں، جو ڈگریاں لیے نوکریاں تلاش کرنے میں اپنی عمر اور صلاحیتیں گنوا دیتے ہیں۔ مستقل طور پر فری لانسگ کرنے والے نوجوان گھر بیٹھے لاکھوں روپے ماہانہ کما رہے ہیں۔

پرائیوٹ شعبے میں کام کرنے والے نوجوان حکومت پر بھی بوجھ نہیں بنتے اور اپنے اہل خانہ پر بھی۔ بلکہ وہ تو ملک کےلیے زرمبادلہ کماتے ہیں۔ حکومت کو انہیں نوکریاں نہیں دینی پڑتیں، جس کی وجہ سے سرکاری خزانے پر بوجھ نہیں پڑتا۔ میں ایک ایسے نوجوان کو جانتا ہوں جو اسلام آباد میں ایک سرکاری ادارے میں ملازمت کرتا تھا مگر کم تنخواہ پر خوش نہیں تھا۔ اس نے فری لانسنگ سیکھی اور ورڈ پریس (WordPress) میں مہارت حاصل کرکے ایک سال میں پچاس لاکھ روپے سے زائد کمائے اور سرکاری ملازمت چھوڑ کر مستقل طور پر اسی شعبے کو اپنا لیا۔ اگر حکومت نوجوانوں کےلیے اپنے کاروبار اور فری لانسنگ کی تربیت کا انتظام کردے تو اس سے ملک کو بہت فائدہ ہوگا۔

اس کے علاوہ نجی شعبے میں نوجوانوں کے جو مسائل ہیں انہیں حل کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر فری لانسنگ کے شعبے میں نوجوان کئی طرح کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ کئی کمپنیاں پاکستان میں اپنی سروسز نہیں دے رہیں۔ جیسے آن لائن پیمنٹ کی کمپنی پے پال (Paypal) کی سروسز پاکستان میں میسر نہیں ہیں اور پاکستانی نوجوان ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ اسی طرح اور بھی کئی سروسز ہیں جو بھارتی نوجوانوں کو تو حاصل ہیں لیکن پاکستانی نوجوانوں کےلیے بہت سے مسائل ہیں۔

پاکستان کے دیگر لاتعداد نوجوان اس شعبے میں کام کرنا چاہتے ہیں لیکن سہولیات کے فقدان اور مسائل کی زیادتی کی وجہ سے وہ کام نہیں کرپا رہے۔ اگر ان کے مسائل حل کیے جائیں اور انہیں سہولتیں فراہم کی جائیں تو وہ سرکاری خزانے پر بوجھ بھی نہیں بنیں گے اور ملک کےلیے بہت زیادہ زرمبادلہ بھی کمائیں گے۔

نوجوانوں کو خود بھی اس شعبے کی طرف توجہ دینی چاہیے اور ملازمتوں کی تلاش کے بجائے کوئی ہنر چاہے وہ آن لائن ہو، سیکھ کر اپنا کام شروع کر دینا چاہیے۔ ابتدا میں تھوڑی سی محنت اور صبر تو ضرور کرنا پڑتا ہے لیکن جب رفتہ رفتہ کام چل نکلتا ہے تو اچھی خاصی آمدن اور آرام بھی ملتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔