زندگی میں بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو وقتی طور پر یہ سوچ کر کسی مشکل میں ڈالتے ہیں کہ مستقبل میں اس کے بدلے میں یہ آسائش حاصل ہوگی۔ مثلاً نوجوان یہ سوچ کر کہ کام کرنے کے مواقع زیادہ ہوں گے، مشکل سے مشکل پیشوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ کیریئر کے آغاز میں زیادہ محنت کرکے وہ زیادہ پیسے کما لیں گے اور پھر پینتیس یا چالیس سال کی عمر کو پہنچے کے بعد وہ ملازمت چھوڑ کر اپنی دلچسپیوں کے مطابق سکون سے زندگی گزاریں گے۔
مگر اس عمر تک پہنچتے پہنچتے معاملات یکسر تبدیل ہوچکے ہوتے ہیں۔ بچوں کے اسکول کی فیس دینی پڑ رہی ہوتی ہے، مضافاتی علاقوں میں فارم ہاؤس بنانے کی وجہ سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ کم از کم دو گاڑیوں کی ضرورت ہے۔ اس وقت تک یہ احساس بھی پیدا ہوچکا ہوتا ہے کہ امپورٹڈ چیزیں کھانے کے بغیر زندگی کا کوئی لطف نہیں۔ اگر ہر سال باہر کے دو ملکوں کی سیر نہیں کی تو یہ زندگی بھی کیا زندگی ہے۔ اس وقت انسان اس مرحلے پر پہنچ چکا ہوتا ہے کہ وہ یہ نہیں کرسکتا کہ وہ دوبارہ واپس جاکر عام آدمی کی طرح شہر میں بس جائے جہاں اسکول قریب ہوں، ایک گاڑی کے ساتھ گزارا ہو، لوگ جو بھی عام کھانے کھا رہے ہیں وہ بھی وہی کھائے، دوسرے ملکوں کی سیر کے بجائے وہ باقی عام لوگوں کی طرح شمالی علاقہ جات کی سیر پر نکلے۔
اس لیے لامحالہ یہ نتیجہ نکلتا ہے جتنا کام ابھی تک وہ کرتا رہا ہے اس سے دگنا کام کرے تاکہ یہ باقی سب خواہشیں پوری ہوں۔ نتیجتاً وہ اس فیصلے پر پہنچتا ہے کہ جس ڈیمانڈنگ انڈسٹری میں وہ اب تک کام کرتے رہے ہیں اس سے بھی زیادہ ڈیمانڈنگ انڈسٹری میں جائے تاکہ زیادہ اوور ٹائم کام کرسکے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ تاریخی لحاظ سے پوری انسانیت اسی آسائش کے حصول کےلیے کسی اور مشکل میں پھنستی چلی آرہی ہے۔ اس بات کا آغاز شاید بیس ہزار سال پہلے اس وقت ہوا جب انسانیت نے آسائشوں کا سوچ کر شکار کے بجائے زراعت کو ترجیح دی۔ اس وقت جب انسانوں کو کاشت کاری اور اجناس کے اگنے کی سمجھ آگئی تو تاریخی آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے خانہ بدوشی چھوڑ کر اسی جگہ رہنے کو ترجیح دی جہاں یہ فصلیں اُگ سکتی تھیں۔ ایک طرف تو تمدن وجود میں آئے لیکن دوسری جانب انسانیت کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ آغاز میں تو اجناس کی کمی نہیں تھی، مگر اچھے کھانے کی دستیابی کی وجہ سے انسان صحت مند ہوئے اور آبادی میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ آبادی میں اضافے سے غذا کی قلت پیدا ہونے لگی تو انسانیت کو کاشت کاری کے نئے طریقے سوچنے پڑے اور خانہ بدوشی سے کئی گنا زیادہ محنت کرنا پڑی۔ اس محنت کے باوجود وہ ترقی نہیں کرسکے بلکہ انہیں ضرورتیں پوری کرنے کےلیے صنعتوں کی طرف جانا پڑا، اور وہ ایک اور جال میں پھنس گئے۔
اسی طرح کا معاملہ انفرادی سطح پر نہیں بلکہ اجتماعی سطح پر انسانیت کو آج بھی درپیش ہے۔ ہر نئی ایجاد کے وقت ہم یہ سوچتے ہیں کہ اس سے زندگی آسان ہوگی، مگر حقائق کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم آسائش کے نام پر ایک اور جال میں پھنس گئے ہیں۔ آسائشوں کے جال میں پھنسنے کی ایک مثال ہم موجودہ دور کی کسی بھی ایجاد کا اس کے پرانے زمانے کے متبادل سے کرکے دیکھ سکتے ہیں۔ اگر ہم مثال کے طور پر ٹیکسٹ میسیج کا موازنہ خطوط سے کریں تو یہ معاملہ بالکل کھل کر ہمارے سامنے آجاتا ہے کہ کس طرح ہم ایک جال میں پھنس چکے ہیں۔
خط اور ٹیکسٹ میسیج کا موازنہ
پرانے زمانے میں خط لکھنا ایک اچھا خاصا کام سمجھا جاتا تھا۔ ایک خط کےلیے ہمیں بہت سی چیزوں کی ضرورت ہوتی تھی جیسے کہ لفافہ، ٹکٹ اور پھر اس کو ڈاک خانے تک پہنچانا وغیرہ۔ خط بھیجنے کے بعد اس کے متعلقہ شخص تک پہنچے میں بھی اچھا خاصا وقت لگتا اور خط کے جواب میں تو ہفتے اور مہینوں تک لگ سکتے تھے۔ اس کے برعکس اب کسی کو میسیج کرنے کےلیے ہمیں کچھ تردد کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ نہ ہم لفافہ یا ٹکٹ خریدتے ہیں اور نہ ہی ڈاک خانے تک جانے کی کوئی ضرورت ہوتی ہے بلکہ لمحوں میں موبائل اٹھا کر کسی کو میسیج کردیتے ہیں۔ یہ میسیج چند سیکنڈز میں پہنچ بھی جاتا ہے اور منٹوں میں ہی ہمیں اس کا جواب بھی مل جاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ہم اپنے آپ کو مشقت سے بچانے میں کامیاب ہوئے۔ مگر کیا واقعی اس سے ہماری زندگی میں سکون آیا ہے؟
کوئی چیدہ مثال دے کر شاید کہے کہ ہاں ہم سکون میں آئے ہیں۔ مگر مجموعی طور پر تجزیہ کرکے دیکھیں تو سکون کے بجائے ہم نے اپنی زندگی مزید مشکل کرلی ہے۔ جس دور میں خطوط لکھے جاتے تھے تو یہ خط صرف تب ہی لکھے جاتے تھے جب کسی سے بات کرنے کی واقعتاً ضرورت ہوتی تھی۔ پہلے بہت سوچ سمجھ کر اس بات کا تعین کیا جاتا تھا کہ کیا لکھنا ہے اور کیسے لکھنا ہے۔ اس کے علاوہ خط لکھنے والے کو جواب دینے والے سے بھی اسی چیز کی توقع تھی کہ وہ سوچ سمجھ کر بہت واضح جواب دے گا (اسی توجہ سے خطوط لکھنے کی وجہ سے ہم اب بھی اقبال و غالب کے خطوط پڑھنے میں دلچسپی محسوس کرتے ہیں)۔ اس کے علاوہ انہیں جواب کی بھی جلدی نہیں ہوتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ زیادہ تر لوگوں کو سال میں بس درجن بھر خطوط ہی لکھنے ہوتے تھے۔ مگر آج معاملہ یہ ہے کہ ہم ایک ہی دن میں بیسیوں ٹیکسٹ میسیج وصول کرتے ہیں اوراسی وقت ان کا جواب لکھتے ہیں۔ چونکہ میسیج کرنے والوں کو یہ توقع ہوتی ہے کہ ہم اسی وقت جواب دیں اس لیے سب مصروفیات چھوڑ کر ہمیں جواب دینا پڑتا ہے۔ ہم نے ٹیکسٹ میسیج کو ایجاد کرکے یہ سوچا تھا کہ اس کے ذریعے سے ہم وہ سب وقت بچا سکیں گے جو خطوط لکھنے میں ضائع ہوتا ہے مگر معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوا۔
ہم آسائشوں کے اس جال سے نکل کیوں نہیں جاتے؟
اب کسی کے ذہن میں شاید یہ سوال پیدا ہو کہ ہم سب لوگ نہ سہی کچھ لوگوں کو تو غلطی کا ادراک ہونا چاہیے اور انہیں واپس جانا چاہیے۔ پھر ایسا کیوں نہیں ہوتا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ چند لوگ اس جال سے فرار ہونا بھی چاہیں تو وہ فرار نہیں ہوسکتے۔ مثلاً بیس ہزار سال پہلے شاید انسانیت کے ایک حصے نے زراعت کے بجائے شکاری رہنے کو ہی ترجیح دی ہوگی مگر رزعی انقلاب کے بعد وہ اپنے اس فیصلے پر قائم نہیں رہ سکے۔ اگرچہ شکاریوں کی زندگی بہتر رہی ہوگی مگر ان کی آبادی میں اتنا اضافہ نہیں ہوا کہ وہ زراعت سے منسلک قبائلوں کا مقابلہ کرپاتے۔ آج بھی اگر چند لوگ اس بات پر اصرار کریں کہ ہم میسیج کے بجائے خطوط لکھیں گے تو زیادہ امکان یہی ہے کہ کوئی بھی ان کے خطوط کا جواب نہیں دے گا بلکہ خط لکھنے والے کے کسی قریبی شخص کو میسیج کرکے خط کا جواب دے دیا جائے گا۔ یوں چار و ناچار یہ جانتے ہوئے بھی کہ موبائل اور میسیجز سے وقت بچنے کے بجائے ضائع ہوگا اسے پھر بھی میسیج اور موبائل کی طرف آنا پڑے گا۔
ہم کیا کرسکتے ہیں؟
ہم میں سے کوئی بھی شاید انسانیت کے مجموعی فیصلوں میں بہت زیادہ اثر انداز نہ ہوسکے مگر انفرادی معاملات میں ہمیں اس حقیقت کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جوں جوں ہم آسائشوں کی تلاش میں نکلتے ہیں دراصل ہم کسی اور مشکل میں پھنستے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی آسائش کے ساتھ وقت گزارنے کے بعد وہ آسائش ہماری ضرورت بن جاتی ہے اور ہم آسائش کی کسی اور شکل کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ اس جال سے نکلنےکا واحد راستہ یہی ہے کہ ہم قناعت سے کام لیں اور کسی آسائش کو اپنے شب و روز میں ایسے شامل نہ کریں کہ وہ ضرورت کی حیثیت اختیار کرجائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔