پاکستان میں رہنے اور پیدا ہونے والے بنگالیوں کو پاکستانی شہری تسلیم کرنے سے متعلق اب تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوسکا، جس کے نتیجے میں بنگالیوں کی تین نسلیں جو کراچی میں پیدا اور بڑی ہوئیں تاحال تعلیم، روزگار اور ووٹ جیسے بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔
ہر سال سیکڑوں بنگالی بچے اسکول کی تعلیم چھوڑ کر مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ ان میں سے درجنوں بچوں کو سبزی فروخت کرتے، چائے کے اسٹالوں اور کریانے کی دکانوں پر کام کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔
بنگالیوں کی نوجوان نسل میں حالیہ پانچ سال میں خودکشی کے واقعات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ کراچی پولیس آفس کی جانب سے بتائے گئے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ پانچ سال میں 18 سال سے 30 سال تک کے نوجوان مرد اور خواتین میں خودکشی کے چھ سو اٹھائیس سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے، جس میں سے خواتین کی تعداد 489 ہے۔
پولیس ریکارڈ کے مطابق خودکشی کے اکثر واقعات تعلیم اور شہریت کے حصول میں رکاوٹ، مشکلات اور روزگار نہ ہونے کے باعث پیش آئے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ذرائع کے مطابق 2013 میں 11 ہزار بنگالیوں کے ووٹ رجسٹرڈ کیے گئے، جس میں سے 8 ہزار سے زائد افراد نے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ تاہم اگلے پانچ سال بعد یعنی 2018 کے الیکشن میں ان کی ووٹنگ کی رجسٹریشن منسوخ کردی گئی اور ایک بار پھر بنگالیوں کو شناخت سے محروم کردیا گیا۔ سیکریٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ وہ ان وجوہات کو بیان کرنے سے قاصر ہیں کہ ان بنگالیوں کے ووٹ کو دوبارہ کیوں منسوخ کیا گیا۔
ابراہیم حیدری میں رہائش پذیر بنگالی کمیونٹی کی سماجی کارکن حفصہ سلطان نے بتایا کہ ہر پانچ سال بعد جب انتخابات آتے ہیں تو ہر سایسی جماعت ہمارے اس علاقے میں آتی ہے، تاہم انتخابات کے بعد خواہ منتخب ہوں یا نہ ہوں نظر نہیں آتے اور یوں ہمیں عرصہ دراز سے سیاسی جماعتوں کے ایجاد کردہ نعروں کی امید پر زندگی گزارنی پڑرہی ہے۔
حفصہ نے اپنی آدھی تعلیم گھر میں بیٹھ کر انٹرنیٹ کے ذریعے حاصل کی اور اب وہ آن لائن اپنے روزگار کے سلسلے میں انٹرنیٹ سے منسلک ہے۔ حفصہ کے مطابق ہمارے بنگالیوں میں کم ہی لوگ تعلیم حاصل کرپاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آٹھویں جماعت کے بعد ہمیں داخلے نہیں ملتے جس کی وجہ ہمارے پاس شناخت کے ثبوت کا نہ ہونا ہے۔
حفصہ نے بتایا کہ ہم نے نادرا دفتر جاکر شاختی کارڈ بنانے کی کوشش کی مگر نادرا ہمارے پردادا تک کے شناختی کوائف مانگتی ہے۔ ہم کہاں سے وہ دستاویزات لائیں جس میں دادا اور والد کے پرانی شناختی کارڈ اور جائیداد کے کوائف ہوں۔ ہمارے دادا، والد کے بچپن میں ہی فوت ہوگئے تھے اور علیحدگی کے وقت میرے والد دادی کی گود میں تھے جب وہ پاکستان آئے اور کراچی کے اسی علاقے ابراہیم حیدری میں رہائش اختیار کی۔
نادرا کی ویب سائٹ پر شناختی کارڈ کے حوالے سے طریقہ کار کے مطابق، 'اگر درخواست گزار کی پیدائش، 16 دسمبر 1971 سے پہلے کی ہے اور جائے پیدائش بنگلہ دیش ہونے کے ساتھ والدین کے شناختی کارڈ موجود نہ ہوں تو اسے (UV) یعنی انڈر ویریفکیشن پالیسی سے گزرا جائے گا۔ اس سے مراد کہ وہ افراد جن کے پاس شناخت سے متعلق کوائف موجود نہ ہوں اور اگر کوائف نامکمل ہوں، ایسے افراد کو ایک مخصوص وقت تک انڈر ویریفکیشن پالیسی کے تحت رکھا جاتا ہے۔ تاہم یہ بات واضح نہیں کہ اس پالیسی کے تحت کتنے وقت تک انڈر ویریفکیشن رکھا جاسکتا ہے۔
حفصہ نے 2018 میں سندھ ہائیکورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی تھی جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے لیکن ہم بنگالیوں کو سندھ اور ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں صرف شناختی کارڈ نہ ہونے کے باعث داخلے نہیں دیے جاتے؟
اس وقت عدالت نے اس معاملے پر نادرا اور صوبائی حکومت کو احکامات جاری کیے تھے کہ بنگالی کمیونٹی کے بچوں کےلیے قانون سازی کی جائے، جس میں ان کے تعلیمی سلسلے کو یقینی بنایا جائے۔ مگر افسوس اس پٹیشن کے فیصلے کو پانچ سال سے زائد ہوگئے لیکن کوئی قانون سازی نہیں ہوئی۔
ماہر قانون ایڈووکیٹ صدف زہرا، جو حفصہ کے کیس میں وکیل بھی تھیں، نے بتایا کہ شناخت کا مسئلہ اتنا ہی سنگین ہے جتنا دیگر انسانی حقوق۔ بلکہ اب تو اقوام متحدہ نے بھی شناخت کے مسئلے کو انسانی حقوق کا بنیادی مسئلہ کہا ہے۔ صرف شناخت نہ ہونے کے باعث ان کا پورا مستقبل برباد ہوجاتا ہے۔ شناخت ان بچوں کا حق ہے۔ یہ حق انہیں اور ان جیسے سب بے زمین، بے شناخت بچوں کو ملنا چاہیے، تاکہ یہ بچے تعلیم حاصل کریں اور ان کی زندگی بہتر ہو۔
پاکستان میں شہریت سے متعلق قانون 1951 کی تعریف یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو پاکستانی سرحدی حدود میں رہتا ہے وہ پاکستانی تسلیم کیا جائے گا۔ ساتھ ہی ہر وہ بچہ جو پاکستان کی زمین پر پیدا ہوا، وہ پاکستانی ہونے کا حق دار ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے مقامی رہنما شہباز میمن کہتے ہیں کہ ہم بنگالیوں کی شناخت کےلیے کئی بار اپنی صوبائی حکومت سے رابطہ کرچکے ہیں تاہم صوبائی حکومت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ وفاق جب تک سندھ بھر میں شفاف مردم شماری نہیں کراتا ان کی شناخت کا مسئلہ اسی طرح رہے گا۔ جب کہ دیگر سیاسی جماعتوں کے مقامی رہنماؤں سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ صوبائی حکومت بنگالیوں کو شہریت دینے کے معاملے میں ہمیشہ سے سست روی کا مظاہرہ کرتی آئی ہے۔
سماجی کارکن جبران ناصر کا کہنا تھا کہ صوبے پر گزشتہ پندرہ سال سے ایک ہی سیاسی جماعت حکمران ہے۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سندھ میں شفاف مردم شماری چاہتی ہے مگر دوسری طرف کراچی میں 1971 سے مقیم بنگالیوں کو شناخت نہیں دے رہی اور وفاق پر ڈال دیتی ہے کہ یہ ان کا مسئلہ ہے۔ جب کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد صوبے کے پاس تمام انتظامی فیصلوں کا اختیار آگیا تھا مگر اس کے باوجود صوبائی حکومت وفاق پر معاملہ ڈال دیتی ہے۔ جب کہ حقیقتاً بنگالی کمیونٹی کی اکثریت کراچی میں آباد ہے تو پھر شناخت میں تاخیر کا مطلب سیاسی جماعت کا ذاتی مفاد ہی کہلائے گا۔
1973 کے قانون کے مطابق پاکستان میں جتنے بنگالی مقیم ہیں، انہیں مکمل پاکستانی شہری تسلیم کیا جائے گا۔ یہ قانون ذوالفقار علی بھٹو کا پاس کیا ہوا ہے۔ بنگالی کمیونٹی کا بنیادی مسئلہ تعلیم کی کمی، کم علمی اور آگاہی کا فقدان ہے۔ زیادہ تر لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ کون سا مسئلہ کس طرح حل ہوگا، جس کے باعث ان کی شناخت کا مسئلہ سنگین نوعیت تک پہنچ چکا ہے۔
نادرا کراچی کے ترجمان ارشاد ہاشمی کا کہنا ہے کہ 'ہمارے ڈیٹا کے مطابق 96 ہزار بنگالی، نادرا کے تحت رجسٹرڈ ہیں، جو بنگالی تسلیم کیے جاتے ہیں۔ انہیں پاکستانی شہری تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ اسی قانون کے تحت ان کے بچوں کو بھی شہری تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بنگالی برادری کے مسائل سنگین ہوتے جارہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بنگالیوں کی قومی شناخت کا یہ سنگین مسئلہ جلد از جلد حل کیا جائے تاکہ بنگالی کمیونٹی بھی بنیادی مسائل سے نمٹ کر ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔