میٹروٹرین اوربسوں میں سفر کرنے والی خواتین کو ہراسگی کا سامنا
پنجاب ماس ٹرانزٹ اتھارٹی ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے کوئی ٹھوس اورمستقل میکنزم نہیں بناسکی ہے
پنجاب ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کے زیرانتظام لاہور میں چلنے والی میٹروبس سروس اورمیٹروٹرین میں سفرکرنیوالی لڑکیوں اورخواتین کو ہراسگی کاسامناکرناپڑتا ہے جبکہ اتھارٹی ابھی تک ایسے واقعات کی فوری رپورٹنگ اورہیلپ کاکوئی ٹھوس اورمستقل میکنزم نہیں بناسکی ہے۔
میٹروٹرین اوربس میں روزانہ ہزاروں خواتین سفرکرتی ہیں ،خاص طورپرطالبات اور ورکنگ وویمن سفر کے لئے میٹروبس اورٹرین کا سفرکرتی ہیں جن میں سے 80 فیصد طالبات اورخواتین ایسی ہیں جن کو ہراسگی کے واقعات کاسامنا کرناپڑا ہے۔بڑی عمرکی خواتین کی بجائے 18 سے 30 سال تک کی عمرکی خواتین کو جنسی ہراسگی کے واقعات کا زیادہ سامنا کرنا پڑتاہے۔
میٹروبس اورٹرین اسٹیشنوں پرجنسی طور پر ہراساں کرنے کی سب سے عام اقسام میں گھورنا، پیچھا کرنا، فحش اشارے، سیٹی بجانا،موبائل فون سے تصویریاویڈیوبنانا، جنسی تبصرے کرنا اور چھونا شامل ہیں۔
لاہورکی ایک سرکاری یونیورسٹی کی طالبہ عنبرین فاطمہ نےبتایا کہ ان کی زندگی میں ہراساں کرنا اس قدر عام ہو گیا ہے کہ اب توانہیں یہ بھی یاد نہیں کہ انہیں پہلی بار کب ہراساں کیا گیا، مجھے لگتا ہے کہ جب بھی کسی آدمی کو موقع ملتا ہے تو وہ آپ کے ساتھ بدسلوکی کرسکتا ہے۔
نجی کالج کی 19 سالہ طالبہ نے بتایا بس اسٹاپ اورٹرانسپورٹ میں ہراساں کئے جانے کا تعلق عورت کے لباس سے نہیں ہے،وہ عبایاپہنتی ہیں لیکن کالج آتے جاتے،میٹروبس اسٹاپ پرگاڑی کے انتظاراورپھربس کے اندر اگرانہیں کھڑے ہوکرسفرکرناپڑے توناجانے کتنے مردوں کی نگاہیں انہیں اپنے جسم میں چبھتی محسوس ہوتی ہیں۔ اگرغلطی سے بھی آپ کی نگاہیں کسی مردسے دوچارہوگئیں تو وہ ایک لمحہ ضائع نہیں کرے گا اورشیطانی مسکراہٹ اس کے چہرے پرعیاں ہوجائے گی۔
26 سالہ سدرہ احمد کہتی ہیں میٹروٹرین کی بجائے بس میں سفرکرنا زیادہ مسئلہ ہوتا ہے،خاص طورپرصبح کے وقت جب رش زیادہ ہوتاہے۔
اسکینرسے گزرتے اوربس میں سوارہوتے وقت کوئی دن ایسانہیں گزرتا جب کوئی مردانہیں چھونے کی کوشش نہیں کرتا ہے لیکن وہ سوائے بے بسی اورصبرکے کچھ نہیں کرسکتی ہیں۔
خواتین مسافروں کے مطابق پولیس پبلک ٹرانسپورٹ پر خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات سے نمٹنے کے لیے اپنا کردار ادا نہیں کرتی ہے لیکن دوسری طرف یہ بات بھی اہم ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں ہراسگی کانشانہ بننے والی خواتین اور لڑکیاں دونوں ہی محدود کارروائی کرتی ہیں۔
خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنیوالی غیرسرکاری تنظیم ''عورت'' کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق میٹروبس،میٹروٹرین اورلاہورٹرانسپورٹ اتھارٹی کی بسوں میں سفرکرنیوالی 80 فیصد خواتین مسافروں نے بس اسٹاپس پر ہراساں کیے جانے کی تصدیق کی ہے، 62 فیصد خواتین کے مطابق انہیں بس اورٹرین میں سفرکرنیوالےدیگرمسافروں کی طرف سے ہراسگی کاسامناکرناپڑا۔
خود میٹروبس کے ڈرائیوراورعملے نے بھی اس بات کی تصدیق کی بس اورٹرین میں کھڑے ہو کر سفر کرنیوالی خواتین کو زیادہ ہراسگی کا سامنارہتا ہے، آج بھی 90 فیصد خواتین جنسی ہراسگی سے متعلق قوانین سے ناواقف ہیں۔
لاہورکالج فاروویمن یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف جینڈرسٹیڈیزکی لیکچرار نایاب جاوید کہتی ہیں ''پبلک ٹرانسپورٹ میں خواتین کوہراساں کئےجانے کے واقعات معمول کی بات ہے لیکن خواتین کی طرف سے ایسے واقعات رپورٹ نہیں کئے جاتے ہیں جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی عورت نوکری اورتعلیم کے لئے گھرسے نکلتی ہے تو اکثر مردانہ اجارہ داری پرمبنی معاشرہ اسے قبول نہیں کرتا ہے۔
ان حالات میں اگرکوئی لڑکی یا عورت اپنے ساتھ ہونیوالی بدسلوکی کے خلاف قانونی کارروائی کرتی ہے تو یقینا ا سکی اطلاع پھراس کے خاندان کودیناپڑتی ہے جس سے وہ ڈرتی ہیں کہ اس طرح اس کی نوکری یا پھر تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ بند ہوجائیگا۔ بدقسمتی سے خواتین کے ساتھ اس طرح کے سلوک کو معمول سمجھ لیاگیا ہے ،خواتین اورلڑکیوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ جب انہیں ہراساں کیا جا رہا ہو توانہیں برداشت کرنا یا خاموش رہنا ہے۔
دوہزاربیس میں پنجاب پولیس نے خواتین کے ساتھ ہراسگی کے واقعات کی فوری اطلاع کے لئے وویمن ہراسگی ایپ متعارف کروائی تھی لیکن اس کے باوجود ایسے واقعات کی روک تھام میں کمی نہیں آسکی ہے۔
پنجاب ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کے جنرل مینجرآپریشنز عزیرشاہ نے بتایا'' اس سے انکارنہیں کیاجاسکتا کہ دوران سفرخواتین کو مختلف طریقوں سے ہراساں کیاجاتا ہے، انہوں نے بتایا کہ شکایات کے فوری اندراج کے لئے ہم کال سنٹربنانے جارہے ہیں ۔اس کے علاوہ ہمارے سوشل میڈیا پیجزپربھی شکایت درج کروائی جاسکتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اگردوران سفرکوئی خاتون ایسی شکایت کرتی ہے تو شکایت کنندہ اورملزم دونوں کوہی قریبی اسٹیشن پراتارکر تحقیق کی جاتی ہے اگرالزام ثابت ہوجائے توملزم کو پولیس کے حوالے کردیاجاتا ہے۔ آج تک ایسے کتنے افرادکوپولیس کے حوالے کیا گیا اس بارے ان کے پاس کوئی ریکارڈموجود نہیں ہے۔
عزیرشاہ نے مزید بتایا کہ حال ہی میں متعددطالبات کی طرف سے یہ شکایت ملی ہے کہ میٹروبس کے روٹ پرآنیوالے ایک نجی کالج اورایک سرکاری اسکول کے طلبا انہیں ہراساں کرتے ہیں۔انہوں نے کالج اوراسکول انتظامیہ کو خطوط لکھے ہیں کہ اگرانہوں نے اپنے طلباکوایسی حرکات سے نہ روکا توان کے بس اورٹرین میں سفرکی سہولت ختم کردی جائیگی۔