بچوں کے حقوق اور معاشرتی رویے

بچوں کا اغوا بدقسمتی سے شرپسند عناصر کے لیے اب ایک منافع بخش تجارت کی صورت اختیار کر چکا ہے


Editorial March 29, 2023
بہت کم پولیس آفیسرز اپنی بصیرت سے بچوں کو بازیاب کروانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ فوٹو فائل

پاکستانی معاشرے میں عدم برداشت بڑھتی جارہی ہے اور لوگ معمولی باتوں پر بھی قتل سے دریغ نہیں کر رہے اور جب ایک دفعہ کوئی خاندان اس میں پڑ جاتا ہے تو پھر انتقام کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور ان کی آنے والے نسلیں اس کی قیمت چکاتی رہتی ہیں۔

خاندانی دشمنیاں اس خطے میں صدیوں سے چلی آرہی ہیں، جب کہ غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کا بھی ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ زمینی تنازعات اور غیرت کے نام پر قتل و غارت کے واقعات کو بدقسمتی سے رسم و رواج سمجھا جاتا ہے۔

سندھ میں نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کی تعداد بڑھ رہی ہے اور بظاہر تو یہ خاندان کی عزت کی بحالی کے لیے کیے جاتے ہیں لیکن ماہرین کے مطابق کاروکاری کی آڑ میں قبائلی اور جائیداد کے تنازعات بھی حل کیے جاتے ہیں۔ کئی اضلاع میں زمینی تنازعات کی وجہ سے کئی افراد قتل کیے جاچکے ہیں۔

'کچے' کے ان علاقوں میں ڈاکوؤں کا راج ہے۔ ڈاکوؤں نے زرعی زمینوں پر قبضہ کرکے علاقے میں خوف پھیلا رکھا ہے اور اسی خوف کی وجہ سے لاتعداد بچے اسکول جا کر تعلیم حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔ یہ صورتحال صرف صوبہ سندھ میں نہیں ، بلکہ پورے پاکستان میں ہے۔

کافی عرصے سے زمینی تنازعات چلے آ رہے ہیں لوگوں کے عدالتوں میں عرصہ دراز سے چلنے والے کیسز کے فیصلوں میں تاخیر کی وجہ سے تشویش اور مسائل بڑھ رہے ہیں۔

حکومت زمین کے تنازعات کے حل کو یقینی بناتے ہوئے ریونیو ریکارڈ کے مطابق مالک کو ملکیت دے تاکہ حقیقی حقداروں کو ان کی زمین کا حق مل سکے اگر یہی صورت حال برقرار رہی اور لوگوں کو زمینوں کے حوالے سے ان کا حق نہ ملا تو قتل و غارت گری اور شورش میں اضافہ ہوگا۔

انتظامیہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے لوگوں کو انصاف مہیا نہیں کریں گے تو لوگ اپنی زمینوں کو کیسے حاصل کرسکیں گے ؟

دانشور طبقے کا خیال ہے کہ قانون ہاتھ میں لینے کے دو بڑے اسباب ہوتے ہیں۔ ایک تھکا دینے والا نظام انصاف اور دوسرا قبائلی معاشرے کی اہم روایت پنچایت یا جرگہ کے نظام پر سے عوام کے اعتماد کا اٹھ جانا ہے۔

ہمارا نظام انصاف تو روز اول سے طویل اور صبر آزما رہا ہے مگر پنچایت پر لوگوں کے اعتماد میں کمی کی اصل وجہ پرانے نظام کے بجائے سیاسی اور بااثر لوگوں کے ذریعے ہونے والے فیصلے ہیں۔

سیاسی رہنما اور دیگر علاقائی بااثر لوگ اب پنچایت سسٹم پر بھی حاوی نظر آرہے ہیں تاہم پہلے ایسا نہیں تھا لوگ پنچایت درویش صفت اور پرہیزگار لوگوں کے ذریعے کرتے تھے جن پر لوگوں کا اعتماد ہوتا تھا کہ یہ جو بھی فیصلہ کریں گے اس میں کوئی دنیاوی مفاد نہیں ہوگا، لیکن اب وہ صورتحال نہیں رہی اور پنچایت میں بیٹھے سیاسی لوگوں کے فیصلے بھی سیاسی ہوتے ہیں جس کے باعث روایتی دشمنیاں ختم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہیں۔

دوسری جانب وطن عزیز میں بھی چھوٹی کم سن بچیوں کے ساتھ زیادتی کے بعد قتل کرنے کے واقعات میں پریشان کن حد تک اضافہ ہوا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس طرح کے واقعات میں مزید اضافہ ہو رہا ہے جو پوری قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

ایک اندازے کے مطابق ملک میں روزانہ بے شمار معصوم بچے انسان کے روپ میں چھپے کسی نہ کسی وحشی کی درندگی کا نشانہ بنتے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق ان معصوم بچوں کی ایک بڑی تعداد ایسے افراد کی حیوانیت کا نشانہ بنتی ہے، جنھیں وہ پہلے سے جانتے ہیں اور وہ ان کے قریبی رشتے دار، خاندان کا کوئی رکن یا کسی دوست کے عزیز ہو سکتے ہیں، لیکن عدالتوں اور تھانوں میں ایسے مقدمات بھی دیکھنے کو ملے ہیں جن میں زیادتی کے مرتکب افراد کا متاثرہ بچے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے یا وہ سرے سے ان کو جانتے ہی نہ تھے۔

اس پر مستزاد یہ کہ ہمارے معاشرے میں اس قسم کے ظلم پر خاموشی، صبر اور قانونی چارہ جوئی سے اجتناب کے رویوں نے وحشیوں کو مزید کھل کھیلنے کا موقع فراہم کیا ہے۔

ایسے اذیت ناک وقت میں بچے کے والدین اگر کوئی حتمی قدم اٹھانے کا فیصلہ کر بھی لیں تو ان کے قریبی عزیز و اقارب انھیں صبر و تحمل، عزت و ناموس کا جنازہ نہ نکالنے اور خاندان کی رسوائی اور اس کے دیگر بچوں پر برے اثرات کا درس دے کر خاموش کرا دیتے ہیں۔

ملک بھر میں شایع ہونے والے اخبارات و رسائل و جرائد میں شایع شدہ خبروں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ 18 سال اور اس سے کم عمر کے بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے جن میں زیادہ تعداد یعنی 72 فیصد چھوٹی بچیوں اور بچوں کی ہے۔ متاثرہ بچوں کی ایک بڑی تعداد کا تعلق ملک کے انتہائی پسماندہ اور دور دراز علاقوں سے ہوتا ہے۔

گزشتہ سال صرف پنجاب میں79 فیصد، سندھ میں 10 فیصد، خیبر پختونخوا میں 4 فیصد اور بلوچستان میں 2 فیصد کیسز ریکارڈ کیے گئے، جب کہ ملک کے شہروں کی نسبت دیہاتی علاقوں میں بچوں پر جنسی تشدد کی شرح سب سے زیادہ دیکھنے میں آئی جو کہ پورے ملک کی 60 فیصد ہے۔

75 سالہ پاکستانی تاریخ میں اس گھناؤنے فعل کے خاتمے کے لیے جہاں ہمیشہ سے قوانین پر عملدرآمد کا فقدان رہا وہاں حکومتوں میں شامل وزرا، اراکین اسمبلی، بچوں کے حقوق کے ادارے اور نجی تنظیمیں سب اس بدنما فعل کے نام پر بین الاقوامی اداروں سے پیسے بٹورنے اور اصل مقاصد سے چشم پوشی کی مرتکب رہی ہیں۔

اب تک سوائے اسمبلیوں میں شور مچانے کے بچوں کے حقوقِ سے متعلق نام نہاد قراردادوں کی منظوری کے علاوہ کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا۔

ماہرین کے مطابق ایسے کیسز کے سلسلے میں حکومت اور پولیس کے ساتھ ساتھ عدالتی نظام کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ عدالتی نظام اس قدر گھسا پٹا ہے کہ اس میں آنے والے بیشتر مقدمات میں ملزم عدم ثبوت کی بنا پر رہا کر دیے جاتے ہیں، حالانکہ ان ملزمان میں بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں جنھیں رنگے ہاتھوں اہل علاقہ نے پکڑا ہوتا ہے اور جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کیس کے چشم دید گواہ موجود ہوتے ہیں پھر بھی ملزم باآسانی رہا ہو جاتے ہیں۔

اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ عدالتی نظام میں فوری انصاف کے عمل کو یقینی بنایا جائے تاکہ التوائے مقدمہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملزم بچ نہ سکیں اور انھیں کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے۔

اس طرح نہ صرف معصوم بچوں کے والدین کو انصاف ملے گا بلکہ اس گھناؤنے کھیل میں ملوث دیگر افراد باز آ جائیں گے۔ اس میں محکمہ پولیس کی کارکردگی کو بھی دیکھنے کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ ایسے واقعات سے اپنی جان چھڑانے کی کوشش کرتی ہے اور متاثرین پر صلح کے لیے دباؤ ڈالتی ہے۔ اس معاملے میں پولیس کو پابند کیا جائے کہ وہ متاثرین کا ساتھ دے اور ملزمان کو فوری گرفتار کر کے کیفر کردار تک پہنچائے۔

جس معاشرے میں عدل و انصاف نہ رہے، جزا اور سزا کا تصور ہی ختم ہو جائے، انسانی حقوق کی پامالی عام لوگوں اور ان کے نام نہاد لیڈروں کا وتیرہ بن جائے، فرائض سے غفلت عام ہو جائے، انسانی جان و مال کے محافظ اس غلاظت میں خود گردن تک دھنسے ہوئے ہوں تو وہاں معاشرہ ایسی خرابیوں کا بری طرح شکار ہو جاتا ہے۔

بچوں کا اغوا بدقسمتی سے شرپسند عناصر کے لیے اب ایک منافع بخش تجارت کی صورت اختیار کر چکا ہے، جیسا کہ بچوں کے جسمانی اعضا کاٹ کر انھیں مفلوج بنانا اور پھر بھیک مانگنے پر مجبور کرنا ہے۔ ان مافیاز کے کارندے منظم طور پر مختلف شہروں سے اغوا شدہ بچوں کو ٹھیکے پر لے کر آتے ہیں۔

علاقوں کو منتخب کر لیا جاتا ہے اور بھکاری بچوں کو رکشہ، بسوں میں بٹھا کر رات کو اکٹھا کر کے مقررہ جگہوں پر لے جایا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ بے اولاد جوڑوں کی اولاد کی ضرورت کی تکمیل نیز ان سے مشقت لینا ، ان کا برین واش کرکے کسی ملک و قوم کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ ستم ظریفی کہ قحبہ گری جیسے گھناؤنے امور بھی سرفہرست ہیں۔ بظاہر بچوں کا اغوا غیر قانونی ہے لیکن اس مسئلے پر قانونی موقف ہی صاف نہیں ہے۔

بہت کم پولیس آفیسرز اپنی بصیرت سے بچوں کو بازیاب کروانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ جہاں قبائلی اور جاگیردارانہ نظام کا راج ہو وہاں سیاسی دباؤ انصاف کے عمل میں رکاوٹ بنتا ہے، ہمارے علمائے کرام بھی اس حوالے سے ایک روایتی مذہبی معاشرے میں اس قتل و غارت کو روکنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

ملک کے دانشوروں اور شعراء کو بھی مسئلے کے حل میں کردار ادا کرنا چاہیے اور سب سے بڑھ کر جب تک لوگ خود اپنے غلط رویوں، ضد اور انا سے پیچھے نہیں ہٹیں گے وہ خود بھی ایک اضطراب میں زندگی گزاریں گے اور اپنے آنے والی نسلوں کے لیے بھی وراثت میں صرف دشمنیاں چھوڑتے رہیں گے۔

ایسے سنگین مسائل کے حل کے لیے شہریوں ، پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا ، قانون نافذ کرنے والے اداروں، سول سوسائٹی سب کو مل جل کر کوشش کرنا ہونگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں