کہتے ہیں کہ جب تک لالچی لوگ زندہ ہیں ٹھگ کبھی بھوکے نہیں مرسکتے۔ ایسا ہی کچھ معاملہ پاکستان کے لوگوں کے ساتھ بھی ہے۔ دنوں میں امیر ہونے کے چکروں میں یہاں کے کئی لوگ اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی تک لٹا بیٹھتے ہیں اور کنگال ہوجاتے ہیں۔
دنیا بھر میں آن لائن کام کافی مشہور ہے اور بہت کامیابی کے ساتھ چل بھی رہا ہے۔ لیکن پاکستان مین آن لائن کاروبار یا انویسمنٹ کا نام لے کر ہزاروں لوگوں کے ساتھ فراڈ ہوچکے ہیں۔ یاد رکھیے کاروبار کا اصول ہے کہ انویسمنٹ وہی ہوتی ہے جو آپ کو نظر آئے اور آپ کے ہاتھ میں ہو۔ بلائنڈ انویسمنٹ سے زیادہ تر دھوکے ہی ملتے ہیں۔ پچھلے دو تین سال میں کئی پاکستانی اپنی زندگی بھر کی کمائی آن لائن کاروبار کے چکروں میں گنوا بیٹھے ہیں۔ حال ہی میں ایک اور آن لائن کمپنی اربوں کا فراڈ کرکے غائب ہوچکی ہے۔
بزرگوں کی زندگی کا نچوڑ ہے ''پہلے سال چٹی، دوجے سال ہٹی، تے تیجے سال وٹی'' اس کا اگر اردو ترجمہ کیا جائے تو مطلب بنتا ہے کہ اگر آپ کوئی کاروبار شروع کرتے ہیں تو پہلے سال آپ کو کچھ حاصل نہیں ہوتا، دوسرے سال آپ کم از کم اس قابل ہوجاتے ہیں کہ جو سرمایہ آپ نے کاروبار میں لگایا ہے وہ آپ کو واپس مل جاتا ہے اور پھر تیسرے سال سے آپ کا منافع شروع ہوتا ہے۔ نئے زمانے میں اس کہاوت میں کسی نہ کسی حد تک تبدیلی ضرور ہوئی ہوگی، مگر کم و بیش اصول اس جیسا ہی رہے گا۔ مگر ہمارے ملک کے اکثر لوگوں کے پاس نہ تو وقت ہے، نہ ہی کوئی ہنر اور ان کو بس ایک ہی لالچ ہے کہ راتوں رات امیر ہوجائیں۔ فراڈ آن لائن کمپنیاں بھی ایسے لوگوں کے لالچ کا فائدہ اٹھاتی ہیں اور ان کو دنوں میں امیر کرنے کا لالچ دے کر ان کی زندگی بھر کی کمائی لے کر رفوچکر ہوجاتی ہیں۔ اس میں حیران کن بات تو یہ ہے ہم لوگ روزانہ کوئی نہ کوئی ایسی واردات سنتے ہیں اس کے باوجود بھی ہمارے لوگ ان نوسربازوں سے ہوشیار نہیں رہتے۔
پاکستان میں اس طرح کے فراڈ کوئی نئی بات نہیں، آج سے کئی سال پہلے ڈبل شاہ نامی ایک کردار بہت مشہور ہوا تھا، جس نے لوگوں کو راتوں رات امیر ہونے کے سہانے خواب دکھائے تھے۔ شروع شروع میں تو واقعی لوگوں کو پیسے ڈبل کرکے دیتا رہا لیکن جب لوگوں کا لالچ بڑھا تو انویسٹر حضرات کی تعداد بھی عروج پر پہنچ گئی اور پھر ایک دن یوں ہوا کہ لوگوں کی جمع پونجی سب لٹ گئی۔ ڈبل شاہ کو سزا ہوگئی، اسی دوران وہ وفات پاگیا۔ آج بھی اس کے متاثرین آپ کو ملک کے مختلف علاقوں میں افلاس کی زندگی گزارتے نظر آئیں گے۔ ہمارے لوگوں نے اس واقعے سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔ آج بھی ہر دوسرے دن آپ کو اس طرح کی باتیں سننے کو ملتی ہوں گی کہ فلاں شخص نے اتنے پیسے کسی آن لائن کاروبار میں انویسٹ کیے اور اس کے ساتھ فراڈ ہوگیا۔
آج کل کچھ ایسی موبائل ایپلی کیشنز آگئی ہیں جو لوگوں کو ادھار رقم کا لالچ دے کر ڈبل سے بھی زیادہ سود حاصل کررہی ہیں اور ہماری نوجوان نسل ان کے چنگل میں پھنستی چلی جارہی ہے۔ ایک دوست سے پوچھنے پر پتا چلا کہ ان ایپلی کیشنز کے ذریعے آپ باآسانی چند ہزار سے ایک لاکھ تک کا قرض حاصل کرلیتے ہیں۔ کاغذی کارروائی کی صورت میں وہ آپ سے آپ کا مکمل بائیو ڈیٹا حاصل کرلیتے ہیں اور پھر جب رقم واپسی کا وقت آتا ہے تو مختلف طرح کی پیشکشوں کے ذریعے آپ کو مزید چنگل میں پھنسایا جاتا ہے اور یوں جب آپ سب پیشکشوں کو قبول کرکے مکمل طرح سے چنگل میں پھنس جاتے ہیں تو پھر آپ کو بلیک میل کیا جاتا ہے اور رقم واپسی کے تقاضوں کی آڑ میں اپنے ذاتی اور گھٹیا مفادات تک پورے کیے جاتے ہیں۔
چلیے لوگوں کی حد تک تو مان لیا کہ لوگ لالچ میں آکر ایسا کرتے ہیں۔ لیکن جب یہ دھندہ عروج پر چل رہا ہوتا ہے اس وقت ہماری حکومت کیا کررہی ہوتی ہے؟ آپ ملک میں کوئی نجی بینک، اسٹیٹ بینک اور حکومت کی اجازت اور سیکڑوں کاغذی کارروائیوں کے بغیر نہیں کھول سکتے، پھر یہ آن لائن کاروبار والے بینکوں کی طرز کا کاروبار بغیر اجازت کیسے کرلیتے ہیں اور پھر باآسانی فرار بھی ہوجاتے ہیں۔
ان تمام تر واقعات کے پیش نظر حکومت کو چاہیے کہ پاکستان میں آن لائن کاروبار کےلیے منظم میکانزم بنائے تاکہ بغیر رجسٹرڈ فرم لوگوں کے ساتھ ایسے فراڈ نہ کرسکیں اور دوسرا لوگوں کو بھی چاہیے کہ ہوش کے ناخن لیں۔ کامیابی کوئی اتنی سستی چیز نہیں کہ آپ کو پلیٹ میں رکھ کر کوئی پیش کردے گا۔ اس کےلیے محنت کرنی پڑتی ہے، ہنر سیکھنا پڑتا ہے۔ لہٰذا خود بھی اور اپنی نوجوان نسل کو بھی ایسے فراڈ ہاتھوں میں پھنسنے سے بچائیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔