محکمہ آثار قدیمہ اور والڈ سٹی اتھارٹی میں تاریخی مقامات کے کنٹرول کی جنگ
کئی تاریخی مقامات کو پنجاب آرکیالوجی سے لیکر والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کی نگرانی میں دینے کا فیصلہ
فائل فوٹو : لاہور شالامار باغ کا عکس
پنجاب کی نگراں حکومت نے شاہی قلعہ کے بعد لاہور کے تاریخی شالامار باغ، مقبرہ جہانگیر اور مقبرہ نور جہاں کو بھی پنجاب آرکیالوجی سے لے کر والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کی نگرانی میں دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم دوسری طرف پنجاب آرکیالوجی کے ملازمین نے اس اقدام کو لاہور ہائیکورٹ مین چیلنج کر دیا ہے۔
انہوں نے موقف اختیار کیا ہے کہ نگراں حکومت کا یہ مینڈیٹ نہیں کہ وہ وفاقی حکومت کی ملکیت آثار قدیمہ کو کسی اتھارٹی کے سپرد کر دے جبکہ خود والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کا قانون بھی اسے یہ اجازت نہیں دیتا ہے۔
پنجاب کی نگراں صوبائی کابینہ نے گزشتہ دنوں ایک اجلاس میں لاہور کے اہم تاریخی مقامات جن میں شالامار باغ، مقبرہ جہانگیر اور مقبرہ نور جہاں (شاہدرہ کمپلیکس) پنجاب آرکیالوجی سے لیکر والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کی نگرانی میں دینے کا فیصلہ کیا تاہم لگتا ہے کہ نگراں حکومت اور والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کا یہ خواب ایک بار پھر ادھورا رہ جائے گا۔
پنجاب آرکیالوجی کلرکس ایسوسی ایشن (ایپکا) کے نمائندے رانا عرفان علی نے بتایا کہ 2019 میں بھی مقبرہ جہانگیر والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کو دینے کی کوشش کی گئی تھی لیکن انہوں (آرکیالوجی ملازمین) نے لاہور ہائیکورٹ سے حکم امتناہی حاصل کر لیا تھا جو ابھی تک برقرار ہے لیکن اس کے باوجود پنجاب کی نگراں حکومت نے ناصرف مقبرہ جہانگیر بلکہ مقبرہ نورجہاں، مقبرہ آصف جاہ، جہانگیر سرائے اور شالامار باغ والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کو دینے جارہی ہے۔
انہوں نے ایک بار پھر لاہور ہائیکورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کر دی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ نگراں حکومت کا یہ مینڈیٹ ہے اور نہ ہی والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کا اپنا قانون اسے اجازت دیتا ہے کہ وہ پرانے لاہور شہر سے باہر کی عمارتوں کو اپنی تحویل میں لے سکے۔
ماہر آثار قدیمہ اور پنجاب آرکیالوجی کے سابق ڈائریکٹر مقصود احمد ملک نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے بتایا ''پاکستان میں جس قدر تاریخی عمارتیں اور آثار ہیں ان کی ملکیت وفاقی حکومت کے پاس ہے، 18 ویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ اپنے اپنے صوبے میں موجود قومی اورعالمی ورثے کی حفاظت، کنزرویشن کریں گی۔ لہٰذا قانون کے مطابق وزیراعلیٰ کا یہ اختیار ہی نہیں کہ وہ کسی قومی اور عالمی ورثے کو کسی اتھارٹی کے حوالے کر دے، آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ نے سالہا سال کی محنت سے اس قومی اور تاریخی ورثے کو سنبھال رکھا ہے اور اس کی کنزرویشن میں مصروف ہے۔
ذرائع کے مطابق والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی پر یہ اعتراضات بھی اٹھائے جاتے ہیں کہ اتھارٹی سیاحت کے فروغ اور ریونیو جمع کرنے کے نام پر شاہی قلعہ کو نقصان پہنچایا ہے۔ غیر ملکی فنڈنگ کے حصول کے لیے ایک ہی جگہ پر کئی بار کام کیا گیا ہے۔ والڈ سٹی اتھارٹی پر یہ اعتراضات بھی ہیں کہ اس نے آج تک سیاحتی مقامات سے حاصل ہونے والی آمدن کی ایک پائی بھی پنجاب ہیری ٹیج فاؤنڈیشن فنڈ میں جمع نہیں کروائی ہے۔ اس اقدام کو لاہور ہائیکورٹ میں دائر کی گئی پٹیشن میں شامل کیا گیا ہے۔
دوسری طرف پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ آرکیالوجی کے سربراہ ڈاکٹر محمد حمید کہتے ہیں کہ پنجاب آرکیالوجی کے تاریخی مقامات بارے تحقیق اور کنزرویشن کے لیے مہارت اور جدید لیب موجود ہے لیکن بدقسمتی سے محکمے کے پاس فنڈز اور افرادی قوت کی کمی ہے۔ پنجاب میں سیکڑوں سائٹس ہیں لیکن پنجاب آرکیالوجی کے پاس اس وقت صرف چار، پانچ ماہرین ہیں۔ دوسری طرف والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کے پاس فنڈز اور افرادی قوت موجود ہے اور وہ اپنے کام کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنے کا ہنر جانتی ہے، والڈ سٹی اتھارٹی کے کام کو مختلف فورمز پر پسند بھی کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر محمد حمید نے بتایا کہ قومی اور بین الاقوامی ورثے کی فہرست میں شامل آثار اور سائٹس کو والڈ سٹی اتھارٹی کے حوالے کرنے سے قبل یونیسکو کے ساتھ معاملات کو دیکھنا ہوگا۔ انہوں نے تجویز دی کہ بہتر یہ ہے کہ ان سائٹس اور آثار کی اونر شپ پنجاب آرکیالوجی کے پاس ہی رہے تاہم ان کی کنزرویشن اور آرائش و تزئین کے لیے والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کی خدمات لی جا سکتی ہیں۔
اس حوالے سے سیکریٹری سیاحت و آرکیالوجی پنجاب ظہیر حسن کا کہنا ہے کہ انہیں ابھی تک نگراں کابینہ کی طرف سے کیے گئے ایسے کسی فیصلے کے تحریری طور پر کوئی آرڈر نہیں ملے ہیں۔ تاہم یہ اطلاعات ہیں کہ کابینہ اجلاس میں اس پر بات کی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بطور سیکریٹری محکمہ وہ کابینہ میں کیے گئے فیصلوں پر عمل درآمد کے پابند ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ پنجاب آرکیالوجی کی کارکردگی سے مطمئن ہیں کیونکہ اس ڈیپارٹمنٹ نے انتہائی کم وسائل اور چند افراد کے ساتھ بہت تاریخی اور اہم کام کیا ہے۔