اپنا تریاق تریاق ماحول
تیسرے موضوع کو ہم نے مصنوعات کا موضوع اس لیے کہا ہے کہ اس کے لیے کوئی دوسرا نام ہو ہی نہیں سکتا
آج کل جس ''تیسرے موضوع'' پر عوام کی سوئی اٹکی ہوئی ہے، وہ ''مصنوعات'' کا ہے، پہلے والے دو موضوعات یعنی منہگائی اور عمران خان کو ہم نے اس لیے چھوڑ دیا ہے کہ ان پر اس ملک کے پچیس کروڑ دانا دانشوروں میں سے پچاس کروڑ دانادانشور پہلے سے لگے ہوئے ہیں۔
تیسرے موضوع کو ہم نے مصنوعات کا موضوع اس لیے کہا ہے کہ اس کے لیے کوئی دوسرا نام ہو ہی نہیں سکتا ، جہاں بھی دوچار ''چونچیں'' آپس میں دوچار ہوتی ہیں وہاں ایک دوسرے کی معلومات میں اضافے شروع ہوجاتے ہیں،سنا ہے اب تو مصنوعی انڈے بھی بازار میں آگئے ہیں کیوں نہ آتے ، بھئی مرغے مرغیاں تو پہلے سے آنے لگے ، دودھ دہی مکھن لسی تو پہلے ہی سے ایجاد ہوچکے ہیں اورکھویا بھی اورگھی بھی اوران سب سے پہلے تو مصنوعی پانی بھی بازار میں بک رہا ہے ،یوں یہ سلسلہ چل نکلتا ہے تو بہت دورتک چلاجاتا ہے۔
چاول، آٹا، دالیں، سبزیاں ،پھل اور نہ جانے کیاکیا مصنوعی نکلتا ہے ،کچھ لوگ ان مصنوعات میں اس بے پناہ ترقی پر پاکستانی یعنی ''تشویشئے '' ہوجاتے ہیں کہ محو حیرت ہوں کہ دنیاکیا سے کیا ہوجائے گی حالاں کہ کب کی ''ہوچکی'' ہے اور مزید ہوتی جارہی ہے لیکن یہ سب کے سب ''تشویشئے''عرف پاکستانی بھولے ہیں، سادہ ہیں، نادان ہیں انجان ہیں پاکستانی ہیں۔
اس شخص کاقصہ تو آپ نے سنا ہوگا جو خالص پاکستانی تھا یعنی اسے اپنے سوا ساری دنیا کے بارے میں فکر وتشویش رہاکرتی تھی اوراس فکروتشویش کے لیے اس نے اپنے گھر میں ایک غورکاحوض بھی بنایا تھا جو ایک جھلنگی چارپائی کی صورت میں تھا اورجب بھی وہ کسی معاملے میں فکروتشویش کرتاتھا ،اسی غورکے حوض میں ڈوب جاتاتھا، بیوی نے جو اپنے پرایوں سے مانگ مانگ کر تنگ آچکی تھی، ایک دن اسے بڑی مشکلوں سے تیار کیاتھا کہ وہ ساری دنیا کی تشویش کایہ ٹھیکہ چھوڑ کر مزدوری کرنے جائے گا۔
اس صبح بیوی نے اسے بڑی خوشی کے ساتھ رخصت کیاجیسے وہ کام پر نہیں لام پر جارہاہو، لیکن تھوڑی دیر بعد جب بیوی کمرے کے اندر گئی تو کیادیکھتی ہے کہ شوہر واپس آکر اپنے غور کے حوض میں پڑا ہواہے ،بچاری دوڑ کر پاس گئی اور پوچھا آخر کیا ہوا، تم تو کام کے لیے گھر سے نکلے تھے؟ بولا، ہاں نکلا تھا لیکن راستے میں سناکہ فلاں کی گھوڑی نے ایک ایسا بچہ دیاہے جس کے کان بھی نہیں اوردم بھی ندارد ہے، اس تشویشناک خبر کو سن کر میں کام پر کیسے جاسکتاہوں، اس لیے اس پر فکروتشویش کرنے کے لیے واپس آگیا۔ بیوی نے اپنا سر پیٹتے ہوئے کہا کہ خان کی گھوڑی کے اس بچے سے ہمیں کیالینا۔
اس نے مزید ایک ڈبکی لگاتے ہوئے کہا، نیک بخت ذراسوچو! یہ گھوڑی کا بچہ جب جوان ہوجائے گا اورکسی دلدل میں پھنس جائے گا تو لوگ اسے ''کہاں'' سے پکڑ کرباہر نکالیں گے کیونکہ کان اور دم تو اس کے ہیں نہیں۔ بیوی بچاری اس کے بعد کیاکرسکتی تھی سوائے اس کے کہ برقعہ پہن کر کسی کے ہاں کچھ مانگنے چلی جاتی ۔
چنانچہ آج ایسے سارے دانا دانشور عرف پاکستانی،اسی تشویش میں مبتلاہیں کہ بازار میں کسی بھی خالص یا اوریجنل چیزکا ملنا مشکل ہے ، اﷲ جانے کیا ہوگا، مولاجانے کیا ہوگا؟ لیکن ہم آپ کو یہ خوشخبری دے رہے ہیں کہ فکر ناٹ۔تشویش کی کوئی بات نہیں ، سب کچھ پروگرام کے مطابق ہو رہاہے اور بالکل صحیح ہو رہا ہے کہ ان سب چیزوں کا استعمال کرنے والا بھی تو مصنوعی ہوچکاہے ، مصنوعی کے لیے چیزیں بھی مصنوعی ہونا ضروری ہیں ورنہ بیچارا اصلی چیزیں ہضم کیسے کرے گا۔
یقین نہ ہو تو آپ کسی کو بھی پکڑ کرکوئی ''خالص'' چیزکھلاکر دیجیے فوراً تڑپنے لگے گا اوریہ تجربہ ہمیں ہو چکاہے۔کچھ عرصہ پہلے ہم نے سوچا شہروں کی اس دھواں دھار فضا سے نکل کر کسی صحت افزا ماحول میں کچھ دن گزارے جائیں۔ جگہ بھی بڑی اچھی ملی کالام سے بھی چند میل اوپر ایک بہت ہی صحت افزامقام پر ایک دوست کے ہاں نہایت ہی خاموش پرسکون اور عین سوات دیر اورچترال کے مقام اتصال پر۔ ہم اپنے ساتھ کاغذ اور ڈھیر سارے قلم لے گئے تھے کہ اس جنت نگاہ مقام کی خاموشیاں سن سن کر ڈھیر سارا لکھیں گے۔
دوست نے ہمارے قیام کے لیے جو جگہ تیارکی تھی وہ دیکھ کر جی اور بھی خوش ہوگیا، یہ خالص دیودار کی لکڑیوں سے بنائی گئی ایک فراخ بیٹھک تھی جو دیودار کی بھینی بھینی خوشبو سے معطر رہتی تھی ،لیکن ابھی دوسرا ہی دن تھا ''آؤٹ گوئنگ'' کم ہوگئی جب کہ ان کمنگ برابر جاری تھی، اس کے بعد قبض کے ساتھ زکام نے بھی ساتھ دیا، پھر کھانسی پھر بخار اورساتھ ہی جسم کے روم روم میں شدید خارش، دوائیں کچھ ساتھ لائے تھے اورکچھ ذرا فاصلے پر چھوٹے سے اڈے میں ایک ڈاکٹر سے منگوا لیتے تھے لیکن افاقے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی تھی بلکہ ہرروز کوئی اوربیماری آکر دوسروں کا ساتھ دینے لگتی۔
اس ڈاکٹر کو بھی بلایا گیا ،انجکشن پر انجکشن لگے ،گلو کوز کے تھیلے بھی چڑھائے گئے لیکن مرض بلکہ امراض بڑھتے گئے جوں جوں دواکی ۔آخر تنگ آکر گھر فون کیا ،بیٹا دوسرے دن گاڑی لے کر پہنچا، اسی وقت روانہ ہوئے،مینگورہ میں تھوڑا سا کھان پان کیا ،مردان میں حالت اتنی سنبھل گئی تھی کہ ہلکا پھلکا کھانا بھی کھا لیا۔ ارادہ تھا کہ رات گھر میں گزار کر صبح اسپتال جائیں گے لیکن دوسری صبح ضرورت ہی نہ پڑی، وہ سارے امراض سوات کے خالص آب وہوا میںر ہ گئے تھے اور ہم اپنے تریاق تریاق ماحول میں لوٹ آئے تھے۔