رسل یاد آتے ہیں
آج نہ برطانیہ میں برٹرینڈ رسل ہے، نہ فرانس میں نوبل انعام کو ٹھکرانے والا سارتر ہے
18 مئی 1972 کو بیسویں صدی کا ایک عظیم فلسفی پیدا ہوا جس کا نام برٹرینڈ رسل تھا۔ اس کی پیدائش برطانیہ میں ہوئی تھی جو نو آبادیاتی دور کا سب سے بڑا سامراج تھا اور جس کے غلام ہم بھی تھے۔
رسل نے آزادی کی تحریکوں کی حمایت کی۔ اس نے برطانوی تسلط کا نو آبادیاتی زمانہ بھی دیکھا اور پھر دنیا پر امریکا کا غلبہ بھی دیکھا۔ ویت نام میں امریکا کے جنگی جرائم اور وحشیانہ فوجی کارروائیوں کے خلاف پوری دنیا میں زبردست تحریکیں چلیں جس میں نہ صرف یورپ بلکہ امریکا کے لوگوں نے بھی بھر پور حصہ لیا۔
رسل نے 1960 میں امریکا کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ چلانے کے لیے ایک بین الاقوامی ٹریبونل قائم کیا جس میں فرانس کے فلسفی ژاں پال سارتر کے علاوہ پاکستان کے معروف وکیل محمود علی قصوری بھی شامل تھے۔
رسل مغرب کے ان اوّلین لوگوں میں تھے جنھوں نے ویت نام جنگ کے خلاف سب سے پہلے صدائے احتجاج بلند کی ۔ برٹرینڈ رسل نے امریکی ضمیر سے اپیل کرتے ہوئے کہا تھا 'امریکا کے شہریو ! امریکا ایسی انقلابی روایات کا مالک ہے جو ابتدائی زمانے میں انسانی آزادیوں اور سماجی مساوات کی جدوجہد میں سچی تھیں۔ یہ روایات ان چند لوگوں نے کچل دی ہیں جو آج امریکا پر حکومت کررہے ہیں۔
آپ میں سے اکثر کو شاید اس کا مکمل علم نہ ہو کہ آپ کے ملک پر ان صنعت کاروں کا کس حد تک اختیار ہے جن کے ذریعے آج ریاست ہائے متحدہ دنیا بھر کے قدرتی وسائل کے ساٹھ فیصد حصے پر قابض ہے حالانکہ اس کی آبادی دنیا بھر کی آبادی کی صرف چھ فیصد ہے۔
میں آپ کو آپ ہی کے رہنماؤں کے ان الفاظ پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہوں جن کے ذریعے وہ کبھی کبھی اس لوٹ کھسوٹ کو بیان کر دیتے ہیں جو انھوں نے روا رکھی ہے ۔17 فروری 1950کو نیویارک ٹائمز نے لکھا '' ہند چینی ایک ایسا علاقہ ہے جس کے لیے ایک بڑا جوا کھیلا جاسکتا ہے ۔
شمال میں ٹین ، مینگا نیز ، کوئلہ، عمارتی لکڑی، چاول، ربڑ ، چائے ، کالی مرچ اور کھالیں ہیں جو برآمد کی جاسکتی ہیں۔ دوسری طرف جنگ عظیم سے پہلے ہند چینی ہر سال تیس کروڑ ڈالر کا نفع دیتا تھا ، صرف ایک سال کے بعد آپ کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک وزیر نے کہا '' ہم نے جنوب مشرقی ایشیا کے وسائل کو ابھی جزوی طور پر استعمال کیا ہے تاہم جنوب مشرقی ایشیا، دنیا بھر کے خام ربڑ کا نوے فیصد، ٹین کا60 فیصد اور ناریل کے تیل کا 80 فیصد فراہم کرتا رہا ہے۔
شکر، چائے، کاٹن، تمباکو، پھل، مسالے، گوند، پٹرول، خام لوہا اس علاقے میں بڑی مقدار میں موجود ہیں۔' اور 1953 میں جب فرانسیسی ، امریکی امداد کے سہارے ویت نام میں لڑرہے تھے تو صدر آئزن ہاور نے بیان دیا '' آئیے ! فرض کریں کہ ہم ہند چینی کھو بیٹھے ہیں، اگر ہند چینی ہاتھ سے نکل جائے تو ٹین اور ٹنگ اسٹون جس کی ہمیں اس قدر ضرورت ہے، آنا بند ہوجائیں گے۔
ہم اس خوف ناک حادثے کو روکنے کے لیے آسان اور سستے طریقے کی تلاش میں ہیں جس سے ہند چینی اور جنوب مشرقی ایشیا کی دولت حسب منشا حاصل کرنے کی صلاحیت ہمارے ہاتھ سے نہ جاتی رہے۔''
برٹرینڈ رسل نے اس وقت کے امریکی عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا کہ '' ویت نام میں جنگ اس لیے لڑی جا رہی ہے کہ اس علاقے کی دولت پر امریکی سرمایہ داروں کے مستقل قبضے کی حفاظت کی جاسکے۔
جب ہم اس بات پر غور کرتے ہیں کہ اسلحہ بنانے والی صنعتوں کو ٹھیکوں کے ذریعے بے پناہ روپیہ دیا جاتا ہے اور ان صنعتوں کے ڈائریکٹروں میں خود وہی جرنیل شامل ہوتے ہیں جو ہتھیار کے خریدار ہوتے ہیں تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فوج اور بڑے صنعتکاروں نے نفع کی خاطر آپس میں اتحاد کر رکھا ہے۔
میں آپ سے اس بات پر غورکرنے کی اپیل کرتا ہوں کہ امریکی حکومت نے ویت نامی عوام کے ساتھ کیا کچھ کیا ہے۔ کیا آپ دل کی گہرائیوں سے ویت نام پر زہریلی کیمیاوی دواؤں، گیس، جیلی گیسولین اور فاسفورس کے بموں کا استعمال صحیح ثابت کرسکتے ہیں ؟ یہ گیسیں اور مادے زہریلے ہیں۔ نیپام اور فاسفورس بم اپنے شکار کو جلا کر ابلتے ہوئے گوشت کا ڈھیر بنادیتے ہیں۔
آپ کی فوج نے ' لیزی ڈاگ' قسم کے ہتھیار بھی استعمال کیے ہیں، یہ ایسا بم ہے جس میں بلیڈ جیسے لوہے کے دس ہزار دھاردار ٹکڑے بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ انتہائی تیز دھار کے ٹکڑے بم کے پھٹتے ہی نہتے دیہاتیوں کے ٹکڑے کردیتے ہیں۔
شمالی ویت نام کے صرف ایک صوبے میں جو انتہائی گنجان آباد ہے ، تیرہ ماہ کے عرصے میں یہ تیز دھار پترے دس کروڑ کی تعداد میں پھینکے گئے ہیں۔ امریکا نے جب ویت نام کے خلاف جنگ شروع کی تو امریکی محکمہ دفاع ایک سو ساٹھ بلین ڈالرکی مالیت کی جائیداد کا مالک تھا اور اب یہ مالیت دگنی ہوچکی ہے۔
امریکی محکمہ دفاع اس وقت دنیا کی سب سے بڑی تنظیم ہے جو امریکا میں تین کروڑ بیس لاکھ ایکڑ اور باہر کے ملکوں میں کروڑوں ایکڑ زمین کا مالک ہے۔ اربوں ڈالر امریکی فوج کی جیب میں ڈال دیے جاتے ہیں اور یوں امریکی زندگی کے ہر شعبے پر پینٹا گون کو معاشی بالا دستی حاصل ہے۔
امریکی شہریو ! میں آپ کی توجہ خاص طور پر اس امر کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ ان کارپوریشنوں کے انتظامی دفتروں میں ایک ہزار چار سو سے زیادہ سابق فوجی افسر کام کرتے ہیں جن میں دو سو اکسٹھ سابق جرنیل ہیں جو اپنی گاڑیوں پر امریکی پرچم لہرانے کا حق رکھتے ہیں ۔ جنرل ڈائنامکس کی ملازمت میں 187 سابق افسر، 27 جرنیل اور ایڈمرل اور ایک فوج کا سابق سیکریٹری شامل ہیں۔
یہ حکمران طبقہ ہے اور یہ طبقہ ہمیشہ اقتدار پر قابض رہتا ہے، ہر صدر اس قادرِ مطلق گروہ کے مفادات کے مطابق چلنے پر خود کو مجبور پاتا ہے۔ یوں امریکی جمہوریت زندگی اور معنی سے عاری ہوچکی ہے کیونکہ عوام ان اصل لوگوں کو جو حقیقتاً ان پر حکومت کرتے ہیں، ہٹا نہیں سکتے، آپ کے جرنیلوں کا ترتیب دیا ہوا یہ وسیع فوجی نظام دنیا کو اپنے تین ہزار فوجی اڈوں کے ذریعے حصار میں لیے ہوئے ہے۔
چند بڑی کارپوریشنوں کے معاشی مفادات جنگی صنعت اور براہ راست فوج کے ساتھ منسلک ہیں، یہ کارپوریشنیں اس بات کا تعین کرتی ہیں کہ امریکی زندگیوں کو کس طرح داؤ پر لگایا جائے۔ میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ اپنی انسانیت اور اپنی عزت نفس کو یاد رکھیے ۔ ویت نامی عوام کے خلاف یہ جنگ درندگی ہے۔
یہ ایک جارحانہ جنگِ تسخیر ہے۔ امریکی جنگِ آزادی کے دوران کسی نے امریکیوں کو ان کی جدوجہد کا مقصد بتانے یا انھیں ان کی مرضی کے خلاف بھرتی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ نہ امریکی سپاہیوں کو دس ہزار میل دور کسی غیر ملک جانا پڑاتھا۔
امریکا کی انقلابی جنگ میں امریکیوں نے غیر ملکی سپاہیوں (برطانوی نو آبادیاتی افواج) کے خلاف کھیتوں اور جنگلوں میں لڑائی لڑی حالانکہ ان کے بدن پر چیتھڑے تھے اور قابض فوج اس دور کی مضبوط ترین فوج تھی۔ امریکیوں نے قبضہ کرنے والوں کے خلاف جنگ لڑی حالانکہ وہ بھوکے اور غریب تھے اس جنگِ آزادی میں امریکی انقلابیوں کو '' دہشت پسند'' کہا گیا اور انھیں'باغی' اور ' غیر منظم غول' کا نام دینے والے (برطانوی) نو آبادیاتی حاکم تھے۔''
برٹرینڈرسل نے آج سے ساٹھ برس پہلے ویت نام میں امریکا کی فوجی مداخلت کے خلاف جس جرات مندانہ موقف کو اختیار کیا تھا وہ انسانی ضمیر کی تاریخ کا ایک تابندہ باب ہے ،جنوب مشرقی ایشیا میں اس کے معاشی مفادات اور بالا دستی کی جنگ ہے۔
دکھ اس بات کا ہے کہ آج ہماری دنیا فکری طور پر مفلس ہوچکی ہے۔ برٹرینڈرسل، کمیونزم کے مخالف تھے لیکن انھوں نے نظریاتی وابستگیوں کو بالائے طاق رکھ کر اصولوں کی بنیاد پر ویت نام میں امریکی مداخلت کی بھر پور مخالفت کی ۔ آج اس پائے کے اصول پسند فلسفی او ر دانشور سے ہم محروم ہیں ۔
آج نہ برطانیہ میں برٹرینڈ رسل ہے، نہ فرانس میں نوبل انعام کو ٹھکرانے والا سارتر ہے اور نہ پاکستان میں ان دونوں کا ساتھی کوئی محمد علی قصوری ہے۔ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھی منتظر ہے کہ کیا 21 ویں صدی کوئی رسل اور سارتر پیدا کرے گی یا نہیں؟ محسوس یہی ہوتا ہے کہ کہیں اس کا جواب نفی میں نہ ہو!