حکومت کی جانب سے ایک مربتہ پھر بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 5 روپے اضافے پر اتفاق رائے کرلیا گیا ہے۔ اور اس نئی قیمت کا اطلاق نئے مالی سال کے آغاز سے کردیا جائے گا۔
بجلی کی قیمت میں اضافے کی بڑی وجہ گردشی قرضے میں مسلسل اضافے کے ساتھ اس کا تین ہزار ارب روپے تک پہنچ جانا بتایا جاتا ہے۔ اس لیے حکومت نے بجلی کے شعبے میں 664 ارب روپے کی سبسڈی رکھنے کے باوجود فی یونٹ قیمت کو بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
بجلی کی قیمت میں اضافے کی وجوہ میں آئندہ مالی سال میں روپے کی قدر میں متوقع تیزی سے گراوٹ ہے۔ اس کے علاوہ ڈیسکوز کی جانب سے 600 ارب روپے اضافی طلب کیے گئے ہیں۔
اس سے قبل حکومت نے بجلی کی فی یونٹ قیمت گزشتہ سال جون سے ستمبر کے دوران 8 روپے بڑھائی تھی۔ جس سے فی یونٹ قیمت 16.91 روپے سے بڑھ کر 24.82 روپے ہوگئی تھی۔ اس مجوزہ اضافے سے بجلی کی فی یونٹ قیمت 29.82 روپے ہوجائے گی۔ جس پر مزید ٹیکس بھی عائد ہوں گے۔
وزارت توانائی کی ویب سائٹ کے مطابق الیکٹرک سٹی ڈیوٹی 1 سے 1.5 فیصد، جی ایس ٹی 17 فیصد، پی ٹی وی لائسنس فیس 35 سے 60 روپے، پاور ہولڈنگ کے قرض کے سود کی مد میں 34 پیسے فی کلو واٹ، صنعتی اور تجارتی صارفین پر 5 سے 17 فیصد تک ایکسٹرا ٹیکس، جبکہ مزید ٹیکس 3 تجارتی اور ایسے صنعتی صارفین جو کہ اپنا ٹیکس ریٹرن فائل نہیں کرتے، ان سے اور ان کا بل 20 ہزار روپے تک ہو، ان سے 5 فیصد، اور 20 ہزار سے اوپر 7.5 فیصد انکم ٹیکس بجلی کے بلوں میں عائد کیا جاتا ہے۔
مگر کیا حکومت کی جانب سے بجلی کی قیمت بڑھانے کے اثرات بلوں کی وصولی یا بجلی کی کھپت پر پڑ رہے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب بجلی کی مجموعی کھپت سے لگایا جاسکتا ہے۔ نیپرا کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق اپریل میں بجلی کی کھپت میں سالانہ بنیادوں پر 23 فیصد کی کمی دیکھی گئی۔ اور اپریل میں 10010 گیگاواٹ بجلی استعمال ہوئی، جبکہ گزشتہ سال اپریل میں بجلی کی کھپت 12960 گیگاواٹ تھی۔ جولائی 2012 کے بعد بجلی کی کھپت میں ہونے والی سب سے بڑی کمی ہے۔
مگر یہ کمی صرف اپریل کے مہینے میں نہیں ہوئی بلکہ بجلی کے استعمال میں مجموعی طور پر کمی دیکھی جارہی ہے۔ نیپرا کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق مالی سال 2022-23 کے ابتدائی دس ماہ کے دوران بجلی کی پیداوار میں 10 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی۔ مالی سال 2021-22 کے ابتدائی دس ماہ میں 114660 گیگاواٹ بجلی استعمال ہوئی تھی جبکہ رواں مالی سال کے اسی عرصے میں بجلی کھپت 103593 گیگاواٹ رہ گئی۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا بجلی کی کھپت میں کمی صارفین کی جانب سے بجلی کے استعمال میں کمی کی وجہ سے ہوئی ہے یا پھر حکومت کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے کھپت میں کمی ہوئی۔ حکومت نے آئی پی پیز سے جو معاہدے کیے ہوئے ہیں ان کے مطابق اگر حکومت بجلی نہیں خریدے گی تو اس کو پاور پلانٹس کے کیپیسٹی چارجز دینا ہوں گے۔ اس لیے حکومتی مفاد میں ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ بجلی کے کارخانوں کو چلائے اور بجلی پیدا کرے تاکہ یونٹس کی فروخت سے آمدنی حاصل ہوسکے اور کم سے کم کیپیسٹی چارجز کی ادائیگی کرنا پڑے۔ تو پھر دوسری وجہ صرف یہ رہ جاتی ہے کہ صارفین کی جانب سے بجلی کے استعمال میں کمی کی جارہی ہے۔
اس حوالے سے انسٹیٹوٹ آف پالیسی اسٹیڈیز (IPS) نے ملک بھر میں بجلی کے تجارتی اور رہائشی صارفین کے ساتھ ایک سروے کیا۔ اس سروے رپورٹ کے مندرجات پر آئی پی ایس کی اسٹیئرنگ کمیٹی میں بحث ہوئی۔ راقم ایک انرجی رپورٹر ہونے کے ناتے اس کمیٹی کا رکن بھی تھام اس لیے رپورٹ کی تیاری میں کسی قدر حصہ بھی ہے۔
آئی پی ایس کی اس رپورٹ کی تیاری میں نہایت عرق ریزی سے بجلی کے استعمال، بجلی کے بلوں میں اضافے، بجلی کے بلوں میں اضافے کے گھریلو بجٹ پر پڑنے والے اثرات کے حوالے سے سوالات تیار کیے گئے تھے۔ اور صارفین کے جوابات پر ایک جامع ڈیٹا بیس تیار کیا گیا۔
اس سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ بجلی کے مہنگا ہونے سے صارفین کی مشکلات بڑھ گئی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ بلوں کا بوجھ کاروبار اور گھروں کے بجٹ دونوں کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ چونکہ بجلی کے بلوں کو مختلف سلیبز میں تقسیم کیا گیا ہے اور اسی حساب سے ان پر ٹیکس بھی عائد ہوتا ہے تو صارفین نے بھی بجلی کے بلوں میں اضافے کے حوالے سے ملے جلے اثرات کو بیان کیا ہے۔ تمام صارفین کا کہنا ہے کہ ان کے بجلی کے بل میں اضافہ ہوا ہے۔ صارفین 20 سے 50 فیصد تک بجلی کے بل بڑھنے کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔ ان بلوں میں اضافے کی وجہ سے بجلی کی افورڈیبلیٹی کو بہتر بنانا ہوگا۔ بجلی کے بل ادا کرنا اب ان کے بس سے باہر ہوتا جارہا ہے۔
گھریلو صارفین کا کہنا تھا کہ بجلی کے بلوں میں ان کی مجموعی ماہانہ آمدنی کے 25 فیصد یا اس سے زائد بجلی کے بلوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ گھریلو اخراجات میں بہت زیادہ تناؤ کی کیفیت ہے۔ بجلی کے بلوں سے چھوٹے کاروبار والوں کا کہنا ہے کہ انہیں کاروبار جاری رکھنا مشکل ہورہا ہے۔ اس لیے انہوں نے بجلی کے استعمال میں بچت شروع کردی ہے۔ اور اب جمع پونجی استعمال کرکے ماہانہ اخراجات پورے کرنا پڑ رہے ہیں۔
بجلی کے استعمال میں کمی کے اثرات بجلی کی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں پر بھی پڑنا شروع ہوگئے ہیں اور صارفین کی بڑی تعداد نے اس سروے میں اعتراف کیا ہے کہ وہ بروقت بجلی کے بل نہیں بھر سکے، جس کی وجہ سے ان کی بجلی بھی منقطع کی گئی۔
اس مجموعی صورتحال میں ڈیسکوز کو بجلی کی فروخت اور وصولیوں میں کمی کا سامنا ہے۔ جس کی وجہ سے ڈیسکوز کے مجموعی ریونیو میں کمی دیکھی گئی ہے۔ اسی طرح عوام کی بل ادائیگی کی صلاحیت میں کمی سے بھی ڈیسکوز کے لائن لاسز بڑھ رہے ہیں۔ مگر ڈیسکوز اسٹاک مارکیٹ میں اندراج نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے اعداوشمار عوام کو بتانے سے گریز کرتی ہیں۔
آئی پی ایس کی اتنطامیہ کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کی تیاری کےلیے تمام ڈیسکوز سے ڈیٹا مانگا گیا تھا، مگر کے الیکٹرک کے علاوہ کسی بھی ڈیسکو نے ڈیٹا کی فراہمی نہیں کی۔ کے الیکٹرک کے مطابق اپریل 2022 سے مارچ 2023 کے دوران جاری کردہ بلوں کی وصولی 96.69 فیصد سے کم ہوکر 94 فیصد رہ گئی ہے۔ جس کی وجہ سے کے الیکٹرک کے ریونیو میں 2.69 فیصد کی نمایاں کمی ہوئی۔ جبکہ غیر تصدیق شدہ ڈیٹا کے مطابق ڈیسکوز کی بلوں کی وصولی میں 7 فیصد تک کمی دیکھی گئی ہے۔
ڈیسکوز کے ریونیو میں کمی سے نہ صرف ان کی جانب سے بجلی کی خریداری کے عوض این ٹی ڈی سی کو ادائیگی متاثر ہوسکتی ہے، بلکہ اس سے ڈیسکوز کے آپریشن بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔ اور انہیں اپنے آپریشنل اخراجات، جس میں ملازمین کی تنخواہیں، انفرااسٹرکچر کی دیکھ بھال، انتظامی اخراجات اور سرمایہ کاری میں مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
بجلی کی فی یونٹ قیمت میں اضافے سے صارفین کی بلوں کو ادا کرنے کی صلاحیت متاثر ہورہی ہے اور ڈیسکوز کی ریکوری میں کمی دیکھی جارہی ہے۔ اس حوالے سے حکومت پاکستان کا بجلی کو مزید مہنگا کرنا کسی طور پر دانش مندی نہیں ہوگی۔ مگر لگتا ہے کہ حکومت کے پالیسی ساز انفلیشن یعنی قیمت بڑھا کر بجلی کی ترسیل میں ہونے والے خسارے کو پورا کرنا چاہ رہے ہیں۔ جبکہ بجلی کے شعبے میں سالانہ 500 ارب روپے کی چوری یا خسارہ ہورہا ہے۔ اس خسارے کو کم کرلیا جائے تو صارفین کو نہ صرف بھاری بجلی کے بلوں میں کسی حد تک راحت مل سکتی ہے بلکہ ڈیسکوز کا خسارہ منافع میں تبدیل کیا جاسکتا ہے اور حکومت پر گردشی قرضے کے بڑھتے ہوئے بوجھ کو کم کیا جاسکتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔