اس دنیا میں ہم صرف زندہ رہنے کےلیے ہی نہیں آئے بلکہ ہم سب کے جینے کی کوئی نہ کوئی وجہ، کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے۔ کامیابی زیادہ سے زیادہ دولت کے حصول کا نام نہیں بلکہ کامیابی تو اطمینان اور سکون کا نام ہے اور اطمینان اور سکون تو انہی کے حصے میں آتا ہے جو اس دنیا میں اپنے ہونے کی وجہ دریافت کرلیتے ہیں اور پھر اپنی ساری توانائی اور توجہ اپنے اسی عظیم مقصد کےلیے وقف کردیتے ہیں۔
مقصدِ حیات وہ رہنما راستہ ہے جو اپنے مسافروں کو نہ بھٹکنے دیتا ہے اور نہ بھولنے دیتا ہے کہ وہ کون ہیں اور ان کی منزل کیا ہے؟ زندگی تو اپنے اندر کے خزانوں کی کھو ج کا نام ہے۔ اپنے اندر کے جوہر کی تلاش کا نام ہے۔ کیونکہ زندگی جی تو سبھی رہے ہیں لیکن بہت سارے لوگوں کو علم نہیں ہوتا کہ وہ کیوں اور کیسے جی رہے ہیں؟ کیا زندگی صرف کھانے پینے، سونے جاگنے، کمانے اور اپنی نسل آگے بڑھانے کا نام ہے؟
زندگی جینا اور گزارنا دونوں الگ ہیں۔ آج کل نفسانفسی کے دور میں زندگی گزار تو سبھی لیتے ہیں لیکن زندگی جیتے بہت کم لوگ ہیں۔ زندگی گزارنے والے لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو ظاہری نمودونمائش کے پجاری ہوتے ہیں۔ نفسی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں۔ دوسروں کو روند کر آگے بڑھنے والے ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بے شمار دو نمبر کام ہورہے ہیں جو انہی لوگوں کے مرہون منت ہیں، جنہوں نے دولت اور مال و زر کو اپنا غلام بنا رکھا ہوتا ہے۔
جھوٹ، فریب، حسد، لالچ، بغض اور نفرت، یہ تمام اخلاقی برائیاں ان کے اندر امربیل کی طرح پھیلتی جاتی ہیں۔ ان کے سینے میں احساسات نہیں ہوتے بلکہ ہر شے کو پیسے میں تولتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان ہی لوگوں سے ملنا جلنا پسند کرتے ہیں جو ان کے ہم پلہ ہوتے ہیں۔ ان کی ساری دوڑ دھوپ اچھا کھانے، اچھا پہننے سے شروع ہوتی ہے اور نمودونمائش پر ختم ہوجاتی ہے۔ ان کا واحد مقصد یہ ہوتا ہے کہ دنیا کی ساری آسائشات جمع کرلیں اور کسی کو اس میں حصے دار نہ بننے دیں۔ ایسے لوگ کبھی اپنے کسی بہن بھائی، رشتے دار کو خود سے آگے نکلتا نہیں دیکھنا چاہتے۔ دوسروں کو صرف اپنا محتاج دیکھنا چاہتے ہیں۔ دنیا دکھاوے کےلیے پیسوں کے ذریعے کبھی کبھار کسی کی مدد کر بھی دیتے ہیں لیکن ایسے لوگوں کی قسم بھی ہمارے ہاں شاذو نادر ہی پائی جاتی ہے۔
دوسری طرح کے لوگ پیسے کو سینت سینت کر رکھنے والے ہوتے ہیں۔ وہ دنیا کے دھندوں اور بے پناہ حاصل کرنے کی حرص میں مبتلا ہوتے ہیں۔ جن کے دماغ کو دولت کی ہوس نے اپنا غلام بنا رکھا ہوتا ہے۔ خود بے حال پھرتے ہیں لیکن پیسوں کو ہلانا تو دور کی بات انھیں ہوا تک نہیں لگنے دیتے ہیں۔ مال ودولت کے پیچھے اپنے خوبصورت رشتوں کو گنوانے سے بھی گریز نہیں کرتے، اور تو اور اس روپے پیسے کو جوڑتے جوڑتے ہی اس دنیائے فانی سے کوچ کرجاتے ہیں اور سب کچھ دوسروں کےلیے چھوڑ جاتے ہیں۔ آپ ہی بتائیے؟ ایسی مال و دولت کا کیا فائدہ جو انسان کے پاس ہوتے ہوئے بھی خود پر خرچ نہ کرسکے؟
دوسری طرف زندگی گزارنے کے بجائے، زندگی جینے والے لوگ ہر حال میں خوش رہتے ہیں۔ کم مال و دولت کے ساتھ بھی زندگی کے حسین لمحوں کو خوشگوار بناتے ہیں۔ محبت، خلوص اور احساس ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔ خود دکھی ہوجاتے ہیں لیکن کسی کا دل دکھانا گناہ سمجھتے ہیں۔ حق کےلیے لڑتے ہیں۔ دکھاوے سے دور رہتے ہیں۔ خود بھی زندگی کا لطف اٹھاتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس میں شامل کرتے ہیں۔ دوسروں کو نصیحت یا اچھی باتیں بتاتے ہیں۔ سفر کرتے ہیں۔ اپنے خیالات کو مثبت رکھتے ہیں۔ اپنی دولت کو دنیوی کاموں میں خرچ کرتے ہیں۔ دوسروں کے ساتھ اچھے تعلقات، کام، شوق اور روحانیت کے ذریعے وہ ایک ایسی زندگی جیتے ہیں جو خوشی اور تکمیل سے بھری ہوتی ہے۔
زندگی سوچوں کے بھنور میں ایک دن تحلیل ہوجائے گی۔ اصل زندگی وہی ہے جو کسی حقیقی اور بڑے مقصد سے جڑی ہو۔ اس لیے زندگی کا مقصد صرف عظیم چیزوں کو حاصل کرنا نہیں ہونا چاہیے بلکہ سب سے پرسکون زندگی وہ ہوتی ہے جو سادگی اور محبت کے ساتھ گزاری جائے۔ اس لیے ہمیشہ مثبت سوچ اور صبر سے معاملات زندگی کو حل کرنے کی کوشش کیجیے۔ خود کا احتساب کیجیے۔ شکر انسان کو جینا سکھاتا ہے، اس لیے شکر گزار بنیے۔
یہ زندگی ایک امتحان ہے، اس میں سرخرو اور کامیاب ہونے کےلیے جدوجہد کرنا ضروری ہے۔ مال و دولت، آسائشیں، یہ آپ کو وقتی خوشی تو دے سکتی ہیں لیکن روحانیت آپ کو صرف اللہ کے راستے میں ہی ملے گی۔ اس لیے ہمیں اپنے جینے کا انداز بدلنا ہوگا۔ مشینوں کے ساتھ رہتے ہوئے خود کو مشین بننے سے بچانا ہوگا۔ محبت اور اخلاص سے بھرپور دلوں کو کھوجنا ہوگا۔ کیونکہ الجھن بھری زندگی میں سکون کا ایک لمحہ بھی کسی نعمت سے کم نہیں۔ ہم کسی کا درد نہیں بانٹ سکتے تو ہمیں کسی کو درد دینے سے بھی بچنا ہوگا، نئے تجربات اور نئے چیلنجوں کا سامنا کرنا ہوگا۔ اپنے کمفرٹ زون سے باہر نکلنا ہوگا۔ حال میں خوش رہنا ہوگا اور دوسروں کی مدد کرنا ہوگی۔ کیونکہ زندگی کا اصل مقصد دوسروں کےلیے جینا ہے۔ حقیقی مقصد حیات ان لوگوں کا ہے جو خود کو پہچان کر خود کو انسانیت کےلیے وقف کردیتے ہیں۔
اپنے مقصد حیات پر نظر کیجیے۔ اب فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ آپ زندگی جی رہے ہیں یا صرف گزار رہے ہیں؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔