وہ بھی کیا دن تھے
جنک فوڈ نے تہذیب کو ملیا میٹ کر دیا ہے، سوشل میڈیا زندگیوں میں ایسے در آیا ہے کہ ادب آداب تہذیب سب خواب ہوئی
ہر انسان کی زندگی میں کچھ دن ایسے ضرور ہوتے ہیں جنھیں وہ کبھی نہیں بھولتا اور جب بھی وہ دن یاد آتے ہیں انسان اندر سے مسکراتا ہے، وہ بھی کیا دن تھے جب گھرکی دیواریں قلعہ نہیں بنی تھیں، گھر لوہے کے پنجرے نہ تھے۔
لوگ فیملی کے ساتھ فلم کا آخری شو دیکھنے جاتے تھے اور واپسی پر اس فلم پر بات بھی ہوتی تھی، فلم دیکھنے کا اپنا ایک نشہ ہوتا تھا، فلم کی ایڈوانس بکنگ ہوتی تھی تاکہ وقت پر جا کر سکون سے اپنی پسندیدہ فلم دیکھ سکیں۔
فلمیں بھی ایسی ہوتی تھیں جنھیں فیملی کے ساتھ دیکھا جا سکتا تھا۔ بعض فلموں کے لیے لوگ ویزا لے کر انڈیا جاتے تھے، پرانی فلموں کو آسانی سے بھلانا ممکن نہ تھا، یاد کیجیے بلیک اینڈ وائٹ فلم '' محل'' کا سحر آج تک قائم ہے۔
اسی طرح گنگا جمنا، پاکیزہ، دیوداس (نئی پرانی دونوں)، قسمت، انسان اور آدمی، انصاف اور قانون، تلاش، جادو، البیلا، نائلہ، زندگی یا طوفان، نور جہاں، داغ، بابل وغیرہ۔ آج بھی ان فلموں کے گانے لوگ ذوق وشوق سے سنتے ہیں۔
موسیقی، پرانی کتابیں اور پرانی فلمیں، ایک عجب تسکین دیتے ہیں، بعض اوقات خوشبوئیں بھی انسان کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتی ہیں۔ چلتے چلتے کوئی پرانا گیت کانوں میں پڑ جائے تو انسان کچھ دیر کے لیے ماضی میں کھو جاتا ہے، فلم کب دیکھی تھی، کون کون گیا تھا، فلم میں اداکار کون کون تھے، سب کچھ ایک دم یادوں کی قندیل میں جگمگانے لگتا ہے۔
نوسٹلجیا ایک عجیب کیفیت کا نام ہے، صاحب دل اور صاحب ذوق لوگ اس میں ضرور مبتلا ہوتے ہیں، اسی طرح کوئی مانوس خوشبو بھی آپ کو کسی اور دنیا میں پہنچا دیتی ہے۔
خوشبو کی خالی شیشیاں جب کپڑوں میں جذب ہو کر مہک اٹھتی ہیں تو ایک خوشگوار حیرت اور مانوس یادوں کا دروازہ کھل جاتا ہے۔
کیا دن تھے وہ بھی جب صرف ریڈیو اور گرامو فون ہوتا تھا، گراموفون پہ بجنے والا سیاہ ریکارڈ جسے ہماری دادی کالا توا کہتی تھیں کے بیچ میں سرخ رنگ کا گول دائرہ بنا ہوتا تھا، جس پر ایک کتا بنا ہوتا تھا اور ساتھ گراموفون کی تصویر۔ کہتے ہیں کہ ایچ۔ایم۔وی (H.M.V)یعنی ہزماسٹرز وائس والا کتا اس کمپنی کے مالک کا کتا تھا۔
ایک ایک ریکارڈ بجتا تھا، ہم نے تو گراموفون دیکھا اور پھر اس کے بعد ریڈیو گرام جس میں دس ریکارڈ اکٹھے لگا دیے جاتے تھے جو ایک ایک کرکے بجتے جاتے تھے۔
پھر ان دسوں ریکارڈوں کو پلٹ کر لگا دیا جاتا تھا، لیکن میرے والد کے پاس ایک بہت پرانا گراموفون بھی تھا جس میں لاؤڈ اسپیکر کی طرح اسپیکر لگا تھا، اس میں ریکارڈ لگانے کے بعد اس کے ہینڈل پر ایک سوئی لگائی جاتی تھی جو ریکارڈ بجاتی تھی۔
گراموفون پر میرے والد کملاجھریا، جوتھیکا رائے، کندن لال سہگل، سی ایچ آتما، زہرہ بائی انبالے والی، شمشاد بیگ، امیربائی کرناٹکی اور ماسٹر مدن کے گانے سنا کرتے تھے، وہ ستار اور وائلن بہت اچھا بجاتے تھے۔
1980 تک ان کا وائلن اور ستار ہم نے دیکھا، پھر وہ کہاں گیا پتا نہیں چلا۔ سیمنز (Siemens) کے ریکارڈ پلیئر پر ہم لتا، آشا، مہدی حسن، سدھا ملہوترہ، سہگل، ملکہ پکھراج اور بہت سارے گلوکاروں کے گیت سنا کرتے تھے۔
ریڈیو میں ایک چارم تھا، اسٹوڈیو نمبر9 کا انتظار رہتا تھا، جشن تمثیل میں غیر ملکی ادب پر مبنی ڈرامے سنوائے جاتے تھے۔ پھر ریڈیو کی کمرشل سروس شروع ہوگئی، دن بھر ریڈیو بجتا رہتا۔ دادی کی ڈانٹ پڑتی تو بند کردیتے۔ موسیقی کا شوق میری والدہ کو بھی تھا، انھیں نیم کلاسیکل گانے پسند تھے۔
وہ دن بھی کیا دن تھے جب بنا کا گیت مالا سنا جاتا تھا، ریڈیو سیلون سے امین سایانی بناکا گیت مالا پیش کیا کرتے تھے۔
ہمارے گھر میں شرط لگتی کہ ''پہلی پادھان'' پر اس دفعہ کون سا گیت ہوگا، عموماً میں جیت جاتی اور بھائی ہار جاتے۔ ریڈیو واحد تفریح کا ذریعہ تھا، لیکن اس میں اتنا چارم تھا کہ پروگراموں کا انتظار کیا جاتا اور خاص کر جب ہفتے کی رات اسٹوڈیو نمبر 9 اور اتوار کی صبح ساڑھے آٹھ بجے ''حامد میاں کے ہاں'' کا پروگرام آتے تو سب خاموش بیٹھ کر سنتے۔
جب ہماری دادی اور والدین اپنے زمانے کا ذکر کرتے کہ کتنا سستا زمانہ تھا، پائی بھی تھی، کوڑیاں بھی اور اشرفی بھی، جسے گنی (Ginni) کہا جاتا تھا، عام طور پر لوگ شادی بیاہ میں چاندی کے روپے دیتے تھے، صاحب حیثیت لوگ اشرفی دیتے تھے۔
میری والدہ کے پاس پانچ اشرفیاں تھیں جس پر کسی کی تصویر کھدی ہوئی تھی، ظاہر ہے کوئی انگریز ہوگا۔
ایک پیسے میں چار چیزیں آ جاتی تھیں، ہم سنتے اور حیران ہوتے تھے کہ کتنا سستا زمانہ تھا کہ مہینے بھر کا سودا صرف پانچ روپے میں آ جاتا تھا، دادی مہنگائی کو روتی تھیں، اب زندہ ہوتیں تو مہنگائی دیکھ کر صدمے سے مر جاتیں۔ ہماری عمر کے لوگوں نے تو روپے میں سولہ آنے دیکھے ہیں، محاورہ بھی ہے کہ '' تمہاری بات سولہ آنے درست ہے''۔ ایک آنے میں چار پیسے ہوتے تھے، چونی میں چار آنے، اٹھنی میں آٹھ آنے، دونی میں دو آنے پھر ایک پیسہ ہوتا تھا جس کے درمیان میں سوراخ ہوتا تھا۔ پھر ایک ادھنا ہوتا تھا جس میں دو پیسے ہوتے تھے۔
کتنا باوقعت تھا ہمارا روپیہ کہ ایک پیسے کی چیز بھی آجاتی تھی، ایک آنے کی بھی۔ سب سے بڑا نوٹ سو روپے کا تھا، پھر پانچ سوکا نوٹ آیا، اس کے بعد ایک ہزارکا اور اب پانچ ہزارکا۔ ہو سکتا ہے آیندہ دس ہزار کا بھی آجائے۔
کسی ملک کی معاشی حالت اور ساکھ کا اندازہ وہاں کی کرنسی سے ہوتا ہے۔ جتنے بڑے اماؤنٹ کا کرنسی نوٹ آئے گا معیشت اتنی ہی بے وقعت ہو جائے گی۔
وہ بھی کیا دن تھے جب ڈاکیہ ڈاک لاتا تھا، ڈاکیہ موجود تو اب بھی ہے اور پوسٹ آفس سے ڈاک بھی آتی ہے لیکن وہ چارم ختم ہو گیا، موبائل فون نے سارا چارم ختم کردیا، ایک پوسٹ کارڈ ہوا کرتا تھا جس کی قیمت ایک آنہ تھی۔ پھر جب اعشاری نظام متعارف ہوا تب بھی پوسٹ کارڈ بیس پیسے کا ہوتا تھا۔
اگر پوسٹ کارڈ کا کونہ پھٹا ہوا ہوتا تھا تو گھر والے سمجھ جاتے تھے کہ کوئی غم کی خبر ہے، کونہ کٹے پوسٹ کارڈ سے ایک دم جھٹکا نہیں لگتا تھا، پھر ایک پیلا لفافہ ہوتا تھا جس کی قیمت پہلے دو آنے ہوتی تھی پھر پچیس پیسے میں آتا تھا۔
اس پر مزید ٹکٹ لگانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی، لوگ ایک دوسرے کو خط لکھا کرتے تھے، خطوں کا اپنا رومانس ہوتا تھا، خاص کر بیرون ملک سے آنے والے خطوط، لوگ ایک ہی شہر میں بھی ایک دوسرے کو خط لکھا کرتے تھے۔
نوجوان نسل تو شاید خط سے واقف بھی نہیں ہوگی۔ نہ انھیں ڈاکیہ کا کردار معلوم ہوگا۔ وہ تو بائیکیا سے واقف ہیں یا کوریئر سے۔ سوشل میڈیا کا جنگل سب کچھ ہڑپ کر گیا۔
وہ بھی کیا دن تھے جب رات کے کھانے پر سب اکٹھے ہوا کرتے تھے، کھانے کی میز پر جو گھر میں سب سے بڑا ہوتا وہ پہلے اپنی پلیٹ میں کھانا نکالتا۔ ان کے بعد باقی لوگ نکالتے، آج یہ تہذیب گنے چنے گھروں میں باقی ہے، ورنہ جو جب آگیا اس نے کھانا کھا لیا، یا جس کو جب بھوک لگی اس نے کھانا مانگ لیا۔
جنک فوڈ نے تہذیب کو ملیا میٹ کر دیا ہے، سوشل میڈیا زندگیوں میں ایسے در آیا ہے کہ ادب آداب تہذیب سب خواب ہوئی۔ یونیورسٹی جائیے یا کالج جینز اور ٹی شرٹ میں لڑکیاں گروپ کی شکل میں بیٹھی برگر یا پیزا ہاتھ میں لیے بیٹھی ہوتی ہیں، سامنے کولڈ ڈرنک کی بوتلیں رکھی ہوتی ہیں۔
کسی کو اس سرزمین سے پیار نہیں، وہ لوگ مر گئے جنھوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دے کر یہ ملک حاصل کیا تھا، سب دھوکا ہے، سب کا دین ایمان پیسہ ہے، وہ بھی کیا دن تھے جب نوزائیدہ ملک سے محبت کرنے والے زندہ تھے، آدھا ملک ٹوٹ گیا جو بچا ہے اس کے درپے ہیں، دیکھیے نئی نسل کیا دیکھتی ہے۔