رحمتِ عالم ﷺ کا عفو عام

’’پس تمہیں چاہیے کہ لوگوں کو معاف کیا کرو اور ان سے در گزر کیا کرو۔‘‘


’’پس تمہیں چاہیے کہ لوگوں کو معاف کیا کرو اور ان سے در گزر کیا کرو۔‘‘ فوٹو : فائل

حضور سیدِ عالم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی اس دنیائے رنگ و بُو میں آمد کا تذکرہ آپؐ کے بے شمار روشن پہلوؤں میں سے ایک انتہائی خاص پہلو ''عفو و کرم'' پر کرتے ہیں کہ جس کی وجہ سے آپؐ کا مقام و مرتبہ سب سے جداگانہ اور منفرد ہے۔ یقیناً آپؐ کی ذاتِ گرامی صورت میں اجمل اور سیرت میں اکمل ہے۔

عربی زبان میں عفو کے معنی چھوڑ دینا، کے ہیں یعنی قصور کرنے والے کو سزا نہ دیتے ہوئے اسے معاف کردینا عفو کہلاتا ہے۔ خداوندِ قدوس کے اسمائے پاک میں سے ایک ''العفو'' بھی ہے یعنی معاف کردینے والا۔ معاف کردینا اﷲ رب العزت کی ایک خاص صفت ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اس بارے ارشاد فرمایا، مفہوم:

''پس تمہیں چاہیے کہ لوگوں کو معاف کیا کرو اور ان سے در گزر کیا کرو۔''

حضور اقدس ﷺ کی سیرتِ طیبہ ہمارے لیے ایک بہترین نمونہ ہے، پروردگارِ عالم کی پاک ذات نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا، مفہوم:

''تمہارے لیے نبی کریم (صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم) کی زندگی مبارک میں بہترین نمونہ ہے۔''

رحمتِ عالم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمانِ مقدس کا مفہوم:

''مجھے اﷲ تعالیٰ کی راہ میں اس قدر ڈرایا گیا کہ کوئی (دوسرا انسان) اس قدر نہیں ڈرایا گیا، اور مجھے اس قدر ایذا پہنچائی گئی کہ کسی (دوسرے انسان) کو اس قدر ایذا نہیں پہنچائی گئی۔''

اعلانِ نبوت سے لے کر فتح مکہ تک رحمتِ دو عالم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ مقدس پر مصائب کے اس قدر پہاڑ توڑے گئے کہ تاریخ انسانی جس کی مثال دینے سے قاصر ہے۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک روز میں نے رسولِ عربی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم سے پوچھا: ''یارسول اﷲ ﷺ! کیا احد کے سے دن بھی سے زیادہ سخت اور پریشان کن دن آیا ہے؟'' رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ''ہاں! وہ یوم العقبہ ہے، جب میں ابن عبدیالیل کے پاس گیا۔

میں نے اسے توحید کی دعوت و تعلیم دی، لیکن اس نے میری بات کو رد کردیا۔ میں غم زدہ وہاں سے چل پڑا۔ قرن اشعالب کے مقام پر مجھے اپنی تکلیف میں کچھ افاقہ محسوس ہوا۔ میں نے سر اُٹھایا تو بادل کا ایک ٹکڑا مجھ پر سایہ کیے ہوئے تھا اس میں جبرائیل امینؑ نے مجھے پکار کر کہا: بے شک! اﷲ تعالیٰ نے آپؐ کی قوم کی گفت گو (جو انہوں نے آپؐ کے ساتھ کی) سن لی اور جو (ایذا رسانی کا) سلوک انہوں نے (آپؐ کے ساتھ) کیا وہ بھی دیکھ لیا۔

اب خداوندِ قدوس نے پہاڑوں پر متعین فرشتے ملک الجبال کو بھیجا ہے (وہ حاضر ہے) آپؐ اپنی قوم کو جو سزا دینا چاہیں، اس کا انہیں حکم دیں۔ (اتنے میں) ملک الجبال نے مجھے پکارا اور سلام کر کے کہا: اے محمد ﷺ! بے شک اﷲ تعالیٰ نے آپؐ کی قوم کی باتیں سن لیں۔

میں ملک الجبال ہوں۔ اﷲ تعالیٰ نے مجھے آپؐ کی خدمت میں بھیجا ہے کہ آپؐ جو حکم مجھے دیں، میں اس کو بجا لاؤں۔ آپؐ حکم دیں تو میں ان دو پہاڑوں کے بیچ میں ان سب کو پیس ڈالوں۔ لیکن میں نے (جواب میں) کہا: (نہیں ایسا نہیں کرنا) مجھے امید ہے کہ شاید ان کی آئندہ نسلوں میں سے کوئی ایسا ہو جو اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔''

آپ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے صبر و تحمل سے اپنے بدترین دشمنوں کے ساتھ شرافت و حسنِ سلوک، عفو و درگزر اور رحمت و شفقت کا وہ سلوک روا رکھا جو چشمِ فلک نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ حسنِ سلوک کے یہ فرحت آگیں مناظر بے مثل و بے نظیر تھے۔

آپؐ پر لوگوں نے پتھر برسائے، مگر آپؐ نے انہیں دعاؤں سے نوازا۔ بڑھیا نے آپؐ پر گندگی پھینکی، مگر آپؐ نے اس کی تیمار داری فرمائی۔ حاتم طائی کی بیٹی کے لیے آپؐ نے اپنی چادر بچھا دی ۔

فتح مکہ کے واقعہ کو ہی لے لیجیے کہ جب آپؐ فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے اور مفتوحین کے ساتھ کس قدر محبت شفقت اور معافی کا معاملہ فرمایا کہ جب مہاجرین مکہ دس ہزار لشکر جرار لے کر لشکر کفر و شرک پر چڑھائی کرتے ہیں اور فرطِ مسرت میں ڈوبے ہوئے اس عظیم اسلامی لشکر سے آواز آتی ہے کہ آج بدلے کا دن ہے اور خوب بدلہ لیں گے، آج ہم سمیعہؓ کی آہوں اور صہیبؓ کی سسکیوں کا بدلہ لیں گے۔

آج ہم حضرت بلال حبشیؓ کی چیخوں کا بھی بدلہ لیں گے۔ آج کوئی نہیں بچے گا۔ ہر کوئی اپنے انجام کو پہنچے گا۔ مگر ہمارے کریم آقا ﷺ نے سب پر نگاہِ رحمت ڈالتے ہوئے ارشاد فرمایا: ''بولو! تم لوگوں کو کچھ معلوم ہے، آج میں (محمد ﷺ) تم لوگوں سے کیا سلوک کرنے والا ہوں؟''

یہ سوال سن کر سب مجرم کانپ اُٹھے اور اُن پہ لرزہ طاری ہوگیا، کیوں کہ ماضی قریب میں آپؐ پر اپنے ہاتھوں اور زبان سے کیے ہوئے ظلم و ستم ایک ایک کرکے سب یاد آرہے تھے۔ سب کے سب بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں سر جھکا کر یک زبان ہو کر بولے:

یارسول اﷲ ﷺ! آپؐ کریم بھائی اور کریم باپ کے بیٹے ہیں۔ یہ جواب سُن کر رحمتِ عالم ﷺ نے اپنے دل نشین اور کریمانہ لہجے میں ارشاد فرمایا: ''آج میں وہ کہتا ہوں، جو میرے بھائی حضرت یوسف علیہ اسلام نے کہا تھا کہ آج کے دن تم سے کوئی مواخذہ نہیں۔''

کریم آقا ﷺ نے عفو عام کا اعلان فرما دیا، معافی کا اعلان سنتے ہی مجرموں کی آنکھیں فرطِ جذبات سے اشک بار ہو گئیں اور زبان پر کلمۂ طیبہ جاری ہوگیا۔ ان معافی پانے والوں میں کیسے کیسے لوگ تھے ذرا تاریخ کے جھروکوں سے جھانک کر دیکھیے۔

رحمتِ دو عالم ﷺ کا فرمانِ مقدس کا مفہوم: ''میرے ربِ قدوس نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ جو کوئی مجھ پر ظلم کرے میں اس کو قدرت انتقام رکھنے کے باوجود معاف کردوں۔'' (مشکوٰۃ شریف)

اﷲ عز و جل نے آپ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کو جملہ خصوصیات کے ساتھ تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر اس دنیا میں مبعوث فرمایا تھا۔ آج کا دور فتنہ و فساد امتِ مسلمہ سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہر طرح کی خرافات سے بچتے ہوئے کامل اتباع سنّت اختیار کی جائے کہ یہی پروانۂ نجات اور آپ ﷺ سے سچی محبّت کا عملی ثبوت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں