- اسلام آباد میں ڈی جی کسٹمز کا موبائل چھین لیا گیا
- بلوچ نوجوان بالاچ کے قتل کا مقدمہ درج
- 190 ملین پاؤنڈ کیس: پرویز خٹک، زبیدہ جلال اور ندیم افضل چن نیب کے گواہ بن گئے
- کراچی میں پارہ 14.5 ڈگری ریکارڈ، خنکی برقرار رہنے کا امکان
- نوشہرہ میں بارات کی گاڑی پر فائرنگ سے دو افراد جاں بحق
- چلاس میں بس پر فائرنگ، بچوں اور شوہر کو بچانے والی خاتون علاج کیلئے کراچی منتقل
- سارا انعام قتل کیس کا فیصلہ محفوظ، مقتولہ کے والدہ عدالت میں رُو دیے
- کیا ہمارے بچے دو خاندانوں شریف اور زرداری کے غلام رہیں گے؟ سراج الحق
- پاکستان جونیئر ہاکی ورلڈ کپ کے کوارٹر فائنل میں پہنچ گیا
- کراچی: ماحولیاتی تحفظ کیلئے اماراتی قونصلیٹ میں ماہانہ 10 ہزار پلاسٹک بوتلوں کا استعمال بند
- ایشین بیس بال چیمپئن شپ؛ ہانگ کانگ نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد پاکستان کو ہرادیا
- بلے کے نشان کے بغیر الیکشن ہوئے تو مزید کشیدگی پھیلے گی، تحریک انصاف
- کراچی میں لاپتہ ہونے والے 16 سالہ ٹک ٹاکر کی ’تشدد زدہ‘ لاش برآمد
- امریکا میں انتہائی نایاب سفید مگرمچھ کی پیدائش
- میٹا کا فیس بک صارفین کے تحفظ کیلیے نیا فیچر متعارف کرانے کا فیصلہ
- وزن میں کمی اور ذیابیطس کی ادویات آنتوں کے کینسر کیخلاف بھی معاون
- نواز شریف کو چوتھی بار آکر بھی اپنے لانے والوں سے ہی لڑنا ہے، بلاول
- نواز شریف کی سیاست کو ختم کہنے والوں کی اپنی سیاست ختم ہوگئی، مریم نواز
- ابرار احمد پہلے ٹیسٹ سے باہر، ساجد خان کو آسٹریلیا بھیجنے کا فیصلہ
- عسکری ٹاور جلاؤ گھیراؤ کیس میں اسد عمر کی عبوری ضمانت خارج
کیا پاکستانی معیشت کا مشکل دور گزر گیا؟

نگران حکومت کے موثر اقدامات سے نئی حکومت کو مدد ملے گی، ڈاکٹر منظور احمد (فوٹو: فائل )
اسلام آباد: ابھی یہ بات یقین سے کہنا شاید قبل از وقت ہوگا کہ پاکستانی معیشت نے بدترین مشکلات کا سامنا کرلیا ہے اور اس کے لیے متعدد اشاریے موجود ہیں۔
اس وقت عالمی مالیاتی فنڈ کی جانب سے درآمدات پر عائد پابندیوں کو نرم کرنے اور شرح مبادلہ کو مارکیٹ پر چھوڑ دینے جیسے مطالبات پر یقیناً کچھ تحفظات ہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مزید گرسکتی ہے تاہم 5 ستمبر کو تاریخی گراوٹ یعنی ایک ڈالر 335 روپے کے مساوی ہوا اور اس کے بعد تاہم اس میں استحکام نظر آرہا ہے اور جس وقت نگراں حکومت برسر اقدار آئی اس وقت ایک ڈالر کی قدر 292 روپے کے مساوی تھی۔
زرمبادلہ کے ذخائر 13 ارب ڈالر کی سطح پر موجود ہیں جن میں 5 ارب 50 کروڑ ڈالر تجارتی بینکوں کی ملکیت میں ھیں جبکہ افراط زر کی شرح میں کمی نظر آتی ہے اور اس وقت یہ 27 اعشاریہ 4 فیصد پر ہے۔
یہ بھی پڑھیں: الیکشن سے پاکستانی معیشت سنبھل سکتی ہے، مہنگائی 25 فیصد ہوجائے گی، اے ڈی بی
جیسے نگران وفاقی وزرا اپنے عہدوں کا چارج سنبھالتے چلے جائیں گے انھیں انتہائی حوصلہ شکن مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا، اسی لیے وفاقی وزیر برائے نج کاری نے بجا طور پر اس امر کی جانب توجہ مبذول کرائی کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز اور پاکستان اسٹیل ملز مسلسل اور مستقل بنیادوں پر ملکی خزانے کے لیے نقصان کا باعث بن رہے ہیں اور اس کا کوئی حل نظر نہیں آتا۔
اگر پی آئی اے کی بات کریں جو اب بھی فعال ہے، اسے اس وقت 13 ارب روپے ماہانہ نقصانات کا سامنا ہے جبکہ پاکستان اسٹیل ملز جو 2015 سے عملًا بند پڑی ہے تاہم اس کے 3ہزار سے زائد ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کا سلسلہ جاری ہے۔
وفاقی وزیر برائے توانائی کو اگست کے دوران بجلی کے بلوں میں ہوشربا اضافے کے باعث عوامی غیض و غضب کا سامنا ہے- موجودہ نگراں وفاقی وزیر برائے توانائی 2019 میں پاور سیکٹر کے حوالے سے کی گئی ایک انکوائری کمیٹی کی سربراہی بھی کرچکے ہیں لہذا انہیں اس شعبے کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے درکار اقدامات سے بخوبی آگاہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: معیشت بحالی مشن، غیرملکی سرمایہ کاروں کیلیے آسان ویزا سہولت متعارف
جہاں بجلی اور گیس کی چوری کے لیے قابل ستائش اقدامات اٹھائے گئے ہیں وہیں ضروری ہے کہ اس انکوائری کمیتی کی رپورٹ میں پیش کی گئی سفارشات پر بھی عمل درآمد کرتے ہوئے انھیں نافذ کیا جائے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ انکوائری کمیشن نے تجویز دی تھی کہ وزارت توانائی کو کسی ایسے فرد کے سپرد کیا جائے تو اس شعبے میں مہارت کا حامل ہو تاہم حکومت اس کے برعکس مخالف سمت میں جاتی نظر آتی ہے اور اس نے بیوروکریٹس کو متعدد پاور کمپنیوں کے سربراہ کے طور پر تعینات کردیا ہے۔
وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو نگراں حکومت کی توجہ ان وعدوں پر مرکوز ہے جن کے تحت اگلے تین سے چار سال کے دوران ملک میں 30 سے 50 ارب ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری لائی جائے گی۔ پاکستان کو امداد کے بجائے برآمدات کے نتیجے میں ترقی حاصل کرنے کیلیے دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح محصولات میں اضافہ اور تجارتی پالیسی میں اصلاحات کرنا ہوں گی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔