محرم اور صفر کے بعد ربیع الاول خاص شادیوں کا سیزن بن جاتا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر کہیں نہ کہیں جانا ضروری ہوتا ہے۔ بہت خوبصورت لباس اور خوبصورت گفتگو کرنے والے لوگ کھانے پر یوں ٹوٹتے ہیں جیسے صدیوں کے بھوکے ہوں۔ تھالیاں بھی آج کل بڑی بڑی ہیں، پورا بھرنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ بے اعتباری ہے بعد میں کچھ حاصل نہیں ہوپائے گا۔
کسی بھی چھوٹے یا بڑے ہوٹل کے بوفے میں چلے جائیے، وہاں بھی ایسی ہی سوچ کارفرما ہے۔ اتنا کھانا ڈالتے ہیں کہ آنکھیں سیر ہوسکیں۔ آنکھوں کےلیے ڈالا گیا کھانا اگر زبان کو اچھا نہیں لگتا تو کسی اور ڈش کےلیے روانہ ہوجاتے ہیں۔ پھر معدہ بھی آخر کوئی حد رکھتا ہے۔ زبان کو اچھے لگے ہوئے کھانے کےلیے ضروری نہیں کہ معدے میں جگہ بھی باقی ہو۔ آنکھوں کی ہوس اور پیسے پورے کرنے کے چکر میں تھالیوں میں ڈالے گئے کھانے کا انجام آخرکار ضیاع نکلتا ہے۔
گھروں میں بھی بچے اور بڑے اپنی اپنی پسند اور طبع کے مطابق کھانا کھاتے اور بچاتے ہیں۔ پہلے پہل ماؤں کو فکر ہوتی تھی کھانا ضائع نہ ہو، اس چکر میں روکنے اور منع کرنے کے باوجود خراب کھانا بھی کھا جایا کرتی تھیں۔ بچے ہوئے کھانے کو اردگرد یا محلے میں کسی کو ضرور تلاش کرکے دے آیا کرتی تھیں، جس سے نہ صرف کھانا ضائع ہونے سے بچ جاتا تھا بلکہ تعلق داری بھی قائم رہتی تھی۔ پلیٹ یا تھالی صاف کرنا سنتِ نبی کی وجہ سے باعث ثواب تھا۔ اب دیکھا گیا ہے کہ پلیٹ کو صاف کرنے والے کو تنقیدی ںظر سے دیکھا جاتا ہے کہ اسے کبھی کھانا نہیں ملا یا اس کی بھوک ابھی بھی باقی ہے۔
کبھی اپنے بڑوں سے پوچھ کر دیکھیے کیا جتنا کھانا آج گھروں میں بنتا ہے تیس، چالیس سال پہلے بھی اتنی ہی مقدار میں بنتا تھا؟ کیا جتنی ناقدری رزق کی آج ہے پہلے بھی اتنی ہی تھی؟ بالکل نہیں! بلکہ آج ہمارے اردگرد بسیار خوری کی بنیاد پر پیداشدہ بیماریاں عام ہیں۔ موٹاپے، ذیابیطس اور فشار خون کے مسائل نے ہمیں جکڑ رکھا ہے۔ نہ صرف ہم خود موٹے تازے ہیں بلکہ ہمارے اردگرد بچے ہوئے اور ضائع شدہ کھانے پر پلتے ہوئے صحت مند چوہے بھی ہر طرف دکھائی دیتے ہیں۔ جو چوہے یورپ میں تیس سال پہلے تھے وہ اب ہمارے اردگرد ہیں۔ کیوں؟ کیوں کہ ہم بھی وہ کھانا اسی طرح بچا اور ضائع کرکے چوہوں کو ڈال رہے ہیں جیسے وہ ڈالا کرتے تھے۔ اب چوہوں کے بارے میں تو کسی کو کوئی شک نہیں کہ بیماریوں اور جراثیم کا باربردار ہے اور ہر ممکنہ جگہ تک لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ہم سب پریشان ہیں کہ ان سے چھٹکارا کیسے ممکن ہو۔ آپ کو یہ بات عجیب لگ رہی ہے تو اپنے قریبی گروسری یا کریانہ اسٹور سے اس بابت ضرور سوال کیجیے، آپ کو علم ہوجائے گا کتنی تباہی پھیلی ہوئی ہے۔
ایک طرف یہ عالم ہے اور دوسری طرف اقوام متحدہ کے ادارہ برائے زراعت و خوراک کے مطابق پاکستان میں 2020 سے 2022 کے دوران اوسطاً چار کروڑ اٹھائیس لاکھ لوگ غذا کی کمی کا شکار رہے۔ 2022 میں ہمارے پانچ سال سے کم 34 فیصد بچے عدم بڑھوتری کا شکار رہے ہیں۔ 2019 کے اعداد و شمار کے مطابق ہماری اکتالیس فیصد مائیں خون کی کمی کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ اگر دنیا کی بات کی جائے تو 2022 میں قریباً 69 سے 78 کروڑ لوگوں کو بھوک کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا کی غذا کا 13 فیصد فروخت سے پہلے فصل کی کٹائی کے بعد سپلائی چین میں ہی ضائع ہوجاتا ہے اور مزید 17 فیصد گھروں، ہوٹلز اور ریٹیل کے دوران ضائع ہوجاتا ہے۔ اب یہ سب صرف غذا کا ضیاع نہیں بلکہ جب غذا ضائع ہوجاتی ہے تو اس کو پیدا کرنے کےلیے استعمال ہونے والے تمام وسائل بشمول پانی، زمین، توانائی، مزدوری اور لگایا گیا سرمایہ بھی ضائع ہوجاتے ہیں۔
ہر سال 29 ستمبر، خوراک کے نقصان اور ضیاع میں کمی کے بارے میں آگہی کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یعنی خوش آئند ہے کہ انسانوں کو کم از کم معلوم تو ہے کہ وہ کس سمت میں گامزن ہیں اور خواہش بھی رکھتے ہیں کہ خوراک کے ضیاع کو کم سے کم کیا جائے۔
پاکستان میں ہماری اکثریت مسلمان گھروں میں پیدا ہونے کے ناتے ایک طرف اس ہستی کا پیروکار ہونے کی دعویدار ہے جس کی تعلیمات میں نہر کنارے بھی پانی ضائع نہیں کیا جاسکتا، جس کی تعلیمات میں کھانا محتاجوں کی طرح کھانے کا حکم ہے، جس کی تعلیمات کے مطابق ایک اِک نعمت کا سوال کیا جائے گا، جس کی تعلیمات میں بھوکوں اور پیاسوں کو سیراب کرنا سب سے بڑی نیکیاں ہیں، جس کے اپنے گھر میں تین دن لگاتار کبھی چولہا نہیں جلا۔ اور دوسری طرف ہم کھانے کے ضیاع کو برائی ہی نہیں سمجھتے، بلکہ ایسے ضائع کرتے ہیں جیسے کوئی ثواب کا کام ہو۔
ہمارا ناپسند اور ضائع کیا گیا کھانا کسی بھوکے کے کام آسکتا تھا۔ آپ صرف کھانا ضائع نہیں کرتے بلکہ امید اور زندگی کا قتل بھی کرتے ہیں۔ جو آسانی اور غذا آج میری اور آپ کی دسترس میں ہے پاکستان اور دنیا میں بہت سے لوگ اس کا صرف خواب دیکھ سکتے ہیں۔ اپنی نعمتوں کی قدر کیجیے اور نہ صرف خود بلکہ اردگرد کے لوگوں کو بھی غذا کو بچانے اور بہتر طریقے سے استعمال کرنے کا مشورہ بھی ضرور دیجیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔