ٹیکسٹائل اور رائس سیکٹر کے برآمد کنندگان کی جانب سے 1.5 ارب ڈالر کی برآمدی ترسیلات کی فروخت اور درآمدی شعبوں کی ڈیمانڈ گھٹنے سے پیر کو 19 ویں دن بھی ڈالر بیک فٹ پر رہا جس سے ڈالر کے انٹربینک اور اوپن ریٹ 287 روپے سے نیچے آگئے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق غیر قانونی تجارتی سرگرمیوں، ہنڈی میں ملوث امپورٹڈ کار ڈیلرز، سونے کے تاجروں سمیت دیگر مشکوک شعبوں کے خلاف تسلسل سے کریک ڈاؤن نے ڈالر کی بہ نسبت روپیہ تگڑا کیا یہی وجہ ہے کہ انٹربینک مارکیٹ میں کاروباری دورانیے کے دوران ڈالر کی قدر ایک موقع پر 1 روپے 18 پیسے کی کمی سے 286 روپے 55 پیسے پر بھی آگیا تھا لیکن وقفے وقفے سے درآمدی نوعیت کی ڈیمانڈ آنے سے کاروبار کے اختتام پر ڈالر کے انٹربینک ریٹ 97پیسے کی کمی سے 286روپے 76پیسے پر بند ہوئے۔
اسی طرح اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی قدر 1 روپے 50 پیسے کی کمی سے 286 روپے 50 پیسے کی سطح پر بند ہوئی، اس طرح سے یکم ستمبر سے اب تک ڈالر کے انٹربینک ریٹ میں مجموعی طور پر 18روپے 70پیسے کی کمی واقع ہوئی جبکہ اوپن ریٹ میں مجموعی طور پر 41روپے 50پیسے کی بڑی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ برآمدی شعبوں کی جانب سے بھاری مقدار میں ڈالر کی فروخت کے بعد اب ڈالر کی فروخت میں کمی نظر آرہی ہے لہذا زرمبادلہ کی مارکیٹوں میں سپلائی میں کمی سے ڈالر کی قدر میں ہونے والی بڑی نوعیت کی کمی کا تسلسل متاثر ہوسکتا ہے۔
عالمی ریسرچ ادرے ٹریس مارک پاکستان کا خیال ہے کہ انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر بتدریج نیچے آنے کے بعد 285 روپے کے ارد گرد رہ سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ درآمدی شعبوں کی جانب سے اگرچہ ڈیمانڈ انتہائی محدود ہے لیکن جوں جوں برآمدات بڑھیں گی مارکیٹ میں برآمدی ترسیلات زر کی سپلائی آتی رہے گی۔
واضح رہے کہ ملکی درآمدات 25 فیصد گھٹ گئی ہیں جبکہ برآمدات میں محدود پیمانے کا اضافہ ہورہا ہے جبکہ رواں ماہ بھی کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی کم رہنے کا امکان ہے جو روپے کو تگڑا کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔
دوسری جانب قانون نافذ کرنے والے اداروں، کسٹمز سمیت دیگر محکموں کی گوداموں میں ڈمپ اسمگل شدہ اشیاء کو ضبط کیے جانے، گھروں بازاروں اور خفیہ لاکرز میں ڈالر کے ذخائر نکالنے کے لیے کریک ڈاؤن سے عالمی سطح پر پاکستانی روپیہ بہترین کارکردگی ظاہر کرنے والی کرنسی بن گئی ہے، متعلقہ اداروں کے تابڑ توڑ کارروائیوں نے سٹے بازوں اور ذخیرہ اندوزوں کو اپنے غیرملکی کرنسیوں کے ذخائر فروخت کرنے پر مجبور کردیا ہے۔
اسی طرح اسٹیٹ بینک کی غیرقانونی سرگرمیوں میں مبینہ طور پر ملوث ایکس چینج کمپنیوں کی سخت مانیٹرنگ اور تادیبی کارروائیاں، فارن کرنسی اسمگلنگ، حوالہ ہنڈی کے مشکوک شعبوں کی نگرانی کے بعد انٹیلی جنس بیسڈ کارروائیوں اور گرفتاریوں سے ڈالر کے اسمگلروں کی نہ صرف کمر ٹوٹ گئی ہے بلکہ گرے مارکیٹ کی سرگرمیاں منجمد ہوگئی ہیں جس سے مارکیٹ میں ڈالر کی سپلائی بہتر ہوگئی ہے جو ڈالر کے مقابلے میں روپیہ کو تگڑا کررہا ہے۔
اسی طرح اوورسیز پاکستانیوں کی قانونی چینلز سے ترسیلات زر کی آمد بڑھتی جارہی ہے جبکہ ڈالر، پاؤنڈ اور یورو بانڈز پر ریٹ آف ریٹرن میں حالیہ اضافے سے اوورسیز پاکستانیوں کی روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں بھی انفلوز بڑھ گئے ہیں جو نہ صرف ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوسکے گا بلکہ افراط زر کی شرح پر قابو پانا ممکن ہوگا۔