جی ڈی اے جے یو آئی اور ایم کیو ایم کا نگراں وزیراعلیٰ سندھ پر عدم اعتماد کا اظہار
گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس، جے یو آئی اور ایم کیو ایم نے سندھ میں مشترکہ سیاسی جدوجہد شروع کرنے کا بھی اعلان کردیا
گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس، ایم کیوایم پاکستان اور جمیعت علمائے اسلام ( ف) نے سندھ میں مشترکہ سیاسی جدوجہد شروع کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے نگراں وزیر اعلیٰ جسٹس (ر) مقبول باقر پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا۔
منگل کو فنکشنل ہاؤس کلفٹن میں ڈاکٹر صفدر عباسی، سردار عبدالرحیم،ڈاکٹر فاروق ستار، علامہ راشد محمود سومرو نے پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نگراں وزیراعلی ہاؤس پیپلز سیکرٹریٹ بنا ہوا ہے، شفاف الیکشن کےلیے سندھ میں سسٹم توڑنے، الیکشن کمشنر کو ہٹانےاور افسران کےبین الصوبائی تبادلے بہت ضروری ہے۔
سیاسی رہنماؤں نے کہا کہ وسیع تر اتحاد کے لئے نواز لیگ اور قوم پرست جماعتوں سے بات کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ تینوں جماعتوں نے خود کو سندھ میں پیپلزپارٹی کا متبادل قرار دیتے ہوئے شفاف انتخابات کا مطالبہ کیا جبکہ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما نے شفاف الیکشن کو یقینی بنانے کے لئے سندھ بھر میں بلدیاتی کونسلز معطل کرنے کا مطالبہ کیا جبکہ تینوں جماعتوں نے اکتوبر میں امن مارچ کی حمایت کا بھی اعلان کیا۔
اس موقع پر رعنا انصار نقوی، خواجہ اظہار الحسن، عرفان اللہ مروت، حسنین مرزا، عبدالرزاق راہموں ، شبیر احمد قائم خانی، علامہ عبدالکریم عابد،جاوید حنیف، جگدیش آہوجانے، خواجہ نوید امین، سمیت دیگر بھی موجود تھے۔
جی ڈی اے کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر صفدر عباسی نے کہا کہ 15سال میں لوٹ مار میں حصہ لینے والے ابھی بھی وہیں بیٹھے ہیں اور پیپلزپارٹی کے ایجنڈا پر کام کررہے ہیں۔ اگر صورتحال تبدیل نہ ہوئی تو ان افسران کے نام لینے پر مجبور ہوں گے، افسران کے بین الصوبائی تبادلے کیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے سندھ میں پندرہ سال مکمل کیے تو سندھ کی عوام نے سکھ کا سانس لیا اور ان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ خدا خدا کرکے پندرہ برس بعد عوام دشمن، کرپٹ ترین اور نااہل حکومت کا خاتمہ ہوا،عوام کو یہ امید تھی کہ نگراں حکومت آئینی تقاضے پورے کرتے ہوئے غیر جانبدار رہے گی لیکن افسوس عبوری حکومت بشمول نگراں وزیراعلی کے پیپلزپارٹی کی بی ٹیم کی حیثیت میں کام کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ غور طلب بات یہ ہے کہ آئین پاکستان کے تحت یہ الیکشن کمیشن کا فرض ہے کہ صاف و شفاف الیکشن کو یقینی بنائے اور ایسے محرکات اور عمل کو روکے جو دھاندلی اور بدعنوانی کے ذریعے الیکشن پر اثر انداز ہوسکتے ہیں، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگران نکات کو درست نہ کیا گیا تویہ الیکشن پر اثر انداز ہو سکتے ہیں اور آئندہ الیکشن متنازعہ ہو جائینگے۔
صفدر عباسی نے کہا کہ ضرورت اس بات کی تھی کہ شفاف الیکشن کیلیے سینئر بیوروکریسی کے تبادلے و تقرریاں کی جائیں اور اُن کی جگہ غیر جانبدار افسران کو تعینات کیا جائے۔ تاہم افسران کو محض ایک جگہ سے دوسری جگہ پر تعینات کردیا گیا جو صرف ایک ڈھکوسلا ہے حتی کہ وزیراعلیٰ ہاؤس میں بھی سابق وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ کے دست راست افسران موجود ہیں ان افسران کو فوری ہٹایا جائے ورنہ انکے نام لینے پر مجبور ہونگے ان افسران میں میں ایسے بھی افسر ہیں جو سابق چیف منسٹر کے ہمراہ کرپشن کیس میں شریک ملزم اور پری بارگیننگ کرچکے ہیں-
انہوں نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ اگر شفاف الیکشن کروانے ہیں تو مندرجہ بالا افسران اور سابقہ حکومت سے منسلک اضلاع میں تعینات افسران کو فورا بین الصوبائی تبادلہ کرکے صاف شفاف اور غیر جانبدار افسران کو سندھ میں ذمہ داری سونپی جائے، ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ نئی مردم شماری کے تحت حلقہ بندیوں کے نتیجے میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں اگر کوئی ردو بدل ضروری ہے تو وہ فقط جی ڈی اے کے روایتی حلقوں/ اضلاع سانگھڑ اور خیرپور ہی میں کیوں؟ اور سندھ کے دیگر اضلاع میں ایسا کیوں ممکن نہیں ہوا؟ کیا الیکشن کمیشن کا دانستہ طور پر جی ڈی اے کی نشستوں کو کم کرنا قبل از انتخاب دھاندلی نہیں ہے ؟ ہم اس ردوبدل کو الیکشن کمیشن کا جانبدارانہ عمل سمجھتے ہوئے یکسر مسترد کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نگراں وزیراعلی سندھ کی جانبداری اور پیپلزپارٹی کی بی ٹیم کی حیثیت سے کام کرنے کا ثبوت یہ ہے کہ وہ ایک غیر جانبدار، اچھی شہرت کے حامل اور انتہائی قابل افسر نگراں صوبائی وزیر یونس ڈھاگہ سے محکمہ خزانہ جیسا اہم قلمدان چھین کر اپنے پاس رکھنا ہے۔ وزیراعلی سے پوچھتے ہیں کہ یونس ڈھاگہ کا قلمدان تبدیل کرنے کا کس نے حکم دیا؟ محکمہ خزانہ میں جو کچھ ہوا ہے اس کے لئے یونس ڈھاگہ جیسے افسر کی ضرورت تھی ۔
صفدر عباسی نے کہا کہ موجودہ صوبائی الیکشن کمشر کو فوری ہٹایا جائے ورنہ شفاف الیکشن ہونا ممکن نہیں کیونکہ صوبائی الیکشن کمشنر کی موجودگی میں سابقہ وزراء مشیران آج بھی حکومت سندھ کا پروٹوکول حاصل کیے ہوئے ہیں، ہمارا سوال ہے کہ کیا الیکشن کمیشن سو رہا ہے؟ حیرت اس بات پر ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ صوبائی الیکشن کمشنر اعجاز چوہان کو تبدیل کیا جائے لیکن الیکشن کمیشن نے اس مطالبہ کو کوئی بھی اہمیت نہیں دی۔
اُن کا کہنا تھا کہ سندھ میں عرصہ دراز سے رائج بدنام زمانہ سسٹم تاحال جاری ہے پیسے لیکر تبادلے و تقرریاں ہورہی ہے، 'سسٹم' ابھی بھی چل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ بھر میں مقامی حکومتیں الیکشن پر اثر انداز ہو سکتی ہیں ہم سمجھتے ہیں اب بھی الیکشن میں شفافیت کی خاطر مقامی حکومتوں کو تاوقتی کہ الیکشن معطل کیا جائے اگر شفاف الیکشن ہوتے ہیں تو دوبارہ بلدیاتی الیکشن کروانے پر غور کیا جائے۔
صفدر عباسی کا مزید کہنا تھا کہ سندھ کی نگراں حکومت صوبے میں عوام کو درپیش معاشی مشکلات، مہنگائی اور دیگر بنیادی ایشوز پر بھی قابو پانے میں یکسر ناکام نظر آرہی ہے، نگراں حکومت بتائے کہ مہنگائی کو کم کرنے کے لئے کونسے اقدام اٹھائے ہیں، غربت اور بے روزگاری کے خاتمے کے لئے کیا کیا ہے ؟نگراں سندھ حکومت اور الیکشن کمیشن اپنے آئینی تقاضے پورے کرنے میں ناکام رہے ہیں لہذا سندھ کے عوام الیکشن کمیشن اور عبوری سندھ حکومت کو پیپلزپارٹی کی بی ٹیم سمجھتے ہیں اور یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ اگر الیکشن کمیشن اور عبوری حکومت نے اپنا رویہ درست نہیں کیا تو عوامی رد عمل کے لئے تیار رہیں۔ انہوں نے کہا کواقعہ کی شفاف تحقیقات کے لئے عدالتی کمیشن بنایا جائے ۔
ڈاکٹر فاروق ستار
ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما اور ڈپٹی کنویئر ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ تین سیاسی فریقین ایک جگہ ساتھ بیٹھے ہیں۔تاثر دیاکہ سندھ کارڈ کو استعمال کرینگے۔سندھ پر بدترین کرپٹ ترین حکومت قائم رہی ہے جس کے خلاف اب عوام کھڑے ہونگے، پیپلزپارٹی کے پندرہ سالہ اقتدار کا آڈٹ کرینگے۔انہوں نے کہا کہ موجودہ وزیراعلیٰ ہاؤس پیپلز سیکرٹریٹ بناہوا ہے۔ وزیراعلی ہاؤس کے ماحول پر نگراں وزیراعلی کو نظر رکھنی چاہیے۔ پندرہ سالوں سے قیامت ہمارے سروں پر منڈلاتی رہی ہے۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ پندرہ سالوں میں پیپلزپارٹی ٹیکس لیتی رہی مگر کوئی بڑا منصوبہ نہیں بنایا، سرکلر ریلوے اور نہ کے فور کا منصوبہ بنا سکے۔تیس ہزار ارب روپے کا آڈٹ کرنا ہے، شفاف الیکشن کرانے ہیں تو لیول پلیئنگ فیلڈ قائم کرنی ہوگی۔ وزیراعلی بدل گیا مگر کرپشن کی علامت موجود ہے۔ ہم الیکشن کمیشن کے سامنے صورتحال رکھیں گے اور اگر یہ صورتحال رہی تو قبضہ مافیا کرپٹ مافیا قابض رہیگا۔
جمعیت علما اسلام کے رہنما علامہ راشد محمود سومرونے کہا کہ ہم نے سندھ میں تمام حلقوں کے نتائج کو پرکھا ہے، ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ دو ہزار اٹھارہ کے دھاندلی زدہ الیکشن کے نتائج کے باوجود اپوزیشن کا ووٹ سندھ کی سابقہ حکومت پیپلزپارٹی سے زیادہ ہے، جے یو آئی نے دیہی سندھ اور پھر کراچی میں ایک گرینڈ دعوت رکھی تمام سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کیے۔
انہوں نے کہا کہ جے یو آئی کی کوشش تھی کہ سندھ میں ایک گرینڈ الائنس بنایا جائے۔اسکے بعد ہم نے ایم کیوایم پاکستان کی قیادت کو قائل کیا۔ہم نے بتایا کہ سندھ کے عوام کی مشکلات پریشانیاں ایک جیسی ہیں، میں ایم کیوایم پاکستان کی قیادت کا شکر گزار ہوں انہوں نے ہمارا خیرمقدم کیا۔ہماری قوم پرست رہنماؤں سے بھی بات ہوئی ہے۔آج اصولی اتفاق ہوا ہے کہ سندھ کے عوام کو پیغام دے رہے ہیں کہ سندھ میں متبادل پلیٹ فارم موجود ہے۔اس پلیٹ فارم سے سابقہ قابض جماعت کا دھڑن تختہ کرینگے۔
انہوں نے کہا کہ ذیلی کمیٹیاں تشکیل دے دی گئی ہیں جو قوم پرست جماعتوں سے بھی بات کریں گی اور انہیں مشترکہ پلیٹ فارم میں شمولیت پر دعوت دیں گے۔ راشد سومر نے بھی الیکشن کمشنر سندھ کو فوری طور پر عہدے سے ہٹانے اور نئے افسر کی تعیناتی کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر اس بار مینڈیٹ چوری کیا گیا تو ہم تمام جماعتیں میدان میں اس وقت تک ہونگی جب تک انصاف نہیں دیا جائے۔ نگران وزیراعلی صاحب! آپ عوام کے نمائندے ہیں پیپلزپارٹی کے نہیں، مقبول باقر صاحب عوام کے غیض و غضب سے بچیں۔آپ ایک بہترین غیر متنازعہ جج رہے خدارا سی ایم ہاؤس میں بھی غیر جانبدار رہیں۔
راشد سومرو نے مزید کہا کہ آپ نیب زدہ لوگوں کے کہنے پر ٹرانسفر پوسٹنگز کرینگے؟ ہم سمجھتے ہیں کرپٹ افسران کے ہوتے ہوئے شفاف الیکشن نہیں ہوسکتے۔ سسٹم کو توڑیں ورنہ ایسا نہ ہو کہ عوام چیف منسٹر ہاؤس کے گھیراؤ پر مجبور ہوں، ہمیں کرپٹ افسران کے دفاتر کے گھیراؤ پر بھی مجبور نہ کیا جائے۔