کتوں کی لڑائی ہوئی۔ ان میں سے ایک کتے نے دوسرے کا کان اکھاڑ دیا۔ یہ دیکھ کر کتوں کے مالکان آپس میں لڑنا شروع ہوگئے اور لڑائی گالم گلوچ سے ہاتھا پائی تک پہنچ گئی اور انجام اس کا یہ ہوا کہ ایک دوسرے پر فائرنگ کردی۔ کتوں سے شروع ہونے والی اس لڑائی نے انسانوں کو ہی حیوان بنادیا اور اس کے نتیجے میں 2 لوگ مارے گئے اور 4 زخمی ہوئے۔ اور وجہ کیا تھی عدم برداشت۔
صرف یہی نہیں، اس جیسے واقعات ہم روز سنتے ہیں۔ محلے میں کھیلتے ہوئے بچے آپس میں لڑے، بچوں کی لڑائی میں خواتین ایک دوسرے سے لڑائی کرتی ہوئی باہر نکلیں اور سارے محلے کو اکٹھا کرلیا۔ بات بڑھتے بڑھتے حد سے گزر گئی۔ یہ لوگ اقدار سے اس قدر نیچے گرجاتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ بچے پھر باہر کھیلتے ہوئے ایک ہوجاتے اور والدین ایسی دراڑ کھینچ لیتے کہ جو کبھی نہیں بھرتی۔ وجہ بس ایک عدم برداشت۔ اگر سوچا جائے تو بچوں کی کھیل کود کے دوران لڑائی ایک عام سی بات ہے لیکن والدین کا اس طرح بے قابو ہوجانا عام بات نہیں۔
کسی بھی شے کو برداشت کرنے کی کمی کو عدم برداشت کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ہم کسی بات کو بنا سمجھے، تحمل اور حوصلے سے نہیں سنیں گے اور آپے سے باہر ہوجائیں گے تو سمجھ جائیں کہ ہم میں برداشت کی کمی ہے۔ درحقیقت رواداری، صبر و تحمل اور بردباری کی قسم ہے جو آج کل ناپید ہوگئی ہے۔ یہ منفی رویہ دور حاضر کے ہر انسان میں پایا جاتا ہے اور دیمک کی طرح انسان کے عقل و شعور کو ختم کررہا ہے۔
اس کی بہت سی وجوہ ہیں جن سے پورا معاشرہ متاثر ہے۔ صرف نوجوان یا غربت کی چکی میں پسا ہوا انسان ہی نہیں بلکہ ہماری سیاسی جماعتیں بھی عدم برداشت کا شکار ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتوں کو ہی دیکھ لیجیے، جلسے جلوسوں کی آڑ میں وہ ایک دوسرے پر کس قدر کیچڑ اچھالتی ہیں۔ اسمبلیوں میں بھی لڑائی جھگڑے کی سیاست کا راج ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی، معاشرے میں اس قدر یہ وبا پھیل چکی ہے کہ دفاتر، محفلوں، چوک چوراہوں، غرض ہر جگہ پارٹی بازی شروع ہوچکی ہے۔ اگر ایک پارٹی کا بندہ دوسری پارٹی کے خلاف کوئی بات کردے تو وہ آپے سے باہر ہوجاتا ہے۔
ہمارے پیارے نبی حضرت محمدؐ نے ہمیں پیار، محبت، بردباری کی تعلیمات دی ہیں، مگر افسوس ہمارا معاشرہ اس سب سے محروم ہے۔ ایک عورت جب ان پر کوڑا پھینکتی تھی تو آپؐ نے ایک بار بھی اس کےلیے غلط الفاظ استعمال نہیں کیے۔ آپؐ پر پتھر برسائے گئے تب بھی آپ نے صبرو تحمل کا مظاہرہ کیا۔
ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کی سب سے بڑی وجہ ہی اپنی اقدار اور مذہب سے دوری ہے۔ ایک اچھا معاشرہ، ایک اچھی قوم اپنی اقدار اپنے رویے سے پہچانی جاتی ہیں اور ہم ہر جگہ اپنی بدتہذیبی اور بدلحاظی سے جانے جاتے ہیں۔
خودپسندی، حسد، جلد بازی، دوسروں کی تحقیر کرنا سمیت لاتعداد امراض ہیں، جو عدمِ برداشت کی جڑ ہیں۔ میں ان کو مرض ہی کہوں گی کیونکہ عدم برداشت ایک بیماری ہے جس نے ہمیں اندر سے کھوکھلا کردیا ہے۔
ہمارے اندر ایک دوسرے سے مقابلہ بازی اس حد تک پیدا ہوجاتی ہے کہ ہم دوسروں کو نیچا دکھانے کےلیے کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، والدین ہی اپنی اولاد میں فرق کرتے ہیں، دونوں بچوں کی قابلیت جانے بنا مقابلے کی فضا کو عزت بخشی جاتی ہے۔ اس طرح بچے ذہنی بیمار ہوجاتے ہیں اور عدم برداشت کا شکار ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ روز بروز بڑھتی مہنگائی بھی عدمِ برداشت کا باعث بنتی ہے۔ جب ماں باپ مل کر دن رات کام کرکے اپنے بچوں کو سنہرا مستقبل تو دور دو وقت کا کھانا بھی نہ دے پائیں، دن رات بھٹوں پر کام کرکے ان کو غلامی سے نجات نہ دے پائیں تو پھر عدم برداشت اس گھر کا راستہ دیکھ ہی لیتی ہے۔ والدین اپنی بچیوں کی شادی نہ کر پائیں، کسی کی خوشی غمی میں شریک تک نہ ہوپائیں تو پھر وہ انسان آہستہ آہستہ اپنی برداشت کھو دیتا ہے۔ ایک ہی ملک میں رہنے کے باوجود طبقات کی تقسیم، ایک کے آگے درجنوں قسم کے کھانے اور اسی کے گھر کام کرنے والے کے بچے بھوک سے بلک رہے ہوں۔ ایک کےلیے قانون ہے اور دوسرے کو دھتکار دیا جائے۔ ایک ڈاکٹر کے پاس جائے تو اسے اٹھ کر ویلکم کیا جائے جبکہ دوسرا لائن میں لگ کر انتظار کی سولی پر لٹک رہا ہو۔ اس سب صورتحال سے انسان میں بے چینی اور نفرت ہی جنم لیتی ہے اور نتیجہ نکلتا ہے عدم برداشت۔
اسلامی تعلیمات ہیں کہ دین میں اپنے سے بہتر اور دنیا کے مقابلے میں اپنے سے کمتر لوگوں کو دیکھو، تاکہ اپنے پاس موجود نعمتوں کی قدر ہو۔ مگر یہاں تو الٹی ہی گنگا بہہ رہی ہے۔ ہر کوئی اپنی موجودہ حالت سے غیر مطمئن اور دوسروں کی نعمتوں پر نظر رکھے ہوئے ہے اور اس کے حصول کےلیے ہر جائز و ناجائز کام کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ اور جب اتنا کچھ کرنے کے باوجود بھی کامیاب نہیں ہوپاتا تو اپنا آپا کھو کر عدم برداشت کا شکار ہوجاتا ہے۔
اس معاملے پر میری ایک ماہر نفسیات سے بات ہوئی تو میری حیران رہ گئی کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں عدم برداشت کے شکار مریضوں کی تعداد اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ اس پر ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی طلاق اور خلع کی شرح، بڑھتا ہوا کرائم ریٹ، بڑھتی ہوئی خودکشیاں، سب کی سب عدم برداشت کی وجہ سے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔