روزگار کیلیے کراچی آنیوالی فیملی کا ایک سالہ بچہ اغوا
محمد راشد کے 3 بچے تھے، 2 کا انتقال ہوگیا، تیسرا اغوا کرلیا گیا، پولیس ایک ہفتے بعد بھی سراغ لگانے میں ناکام
روزگار کی غرض سے کراچی آنے والے خاندان کا ایک سالہ بچہ کراچی سے اغوا ہوئے ایک ہفتہ ہوگیا، جسے پولیس بازیاب کرانے میں تاحال ناکام ہے۔
ڈیفنس تھانے کی حدود مکان نمبر 7 گلی نمبر 23 قیوم آباد بی ایریا سے ملزمان 20 نومبر 2023 کو ایک سالہ بچے حسین کو اغوا کر کے لے گئے تھے ، جس کے بعد 21 نومبر کو مغوی کے والد محمد راشد ولد عاشق حسین نے ڈیفنس تھانے میں رپورٹ درج کرائی ۔
پولیس کو اپنے بیان میں محمد راشد نے بتایا کہ 20 نومبر کو تقریباً ڈیڑھ بجے جب میں گھر آیا تو مجھے گھر والوں نے بتایا کہ حسین کی کزن 5 سالہ رابعہ دختر محمد اکرم جو ایک سالہ حسین کو اٹھا کر گھر کے باہر گلی میں کھیل رہی تھی تو رابعہ نے بتایا کہ تقریباً ایک بجے کے درمیان ایک رکشہ پر سوار ایک آدمی آیا اور مجھ سے بچہ چھین کر فرار ہوگیا ۔
مغوی بچے کے والد کے مطابق اب تک اپنے طور پر کافی تلاش اور معلومات کے باوجود کچھ پتا نہیں چلا۔ بچی رابعہ نے بتایا کہ رکشے والے کے ساتھ ایک عورت بھی تھی جنہوں نے مجھ سے بچہ چھینا ۔
ڈیفنس تھانے کے ڈیوٹی افسر اے ایس آئی شاہد احمد نے بیان قلمبند کرنے کے بعد بجرم دفعہ 364/34 کے تحت مقدمہ الزام نمبر 688/2023 درج کر کے مقدمے کی تفتیش ڈیفنس تھانے شعبہ انویسٹی گیشن کے حوالے کر دی ۔پولیس کے ضابطے کے مطابق اغوا کی تفتیش اینٹی وائلنٹ کرائم سیل کو ٹرانسفر ہو جاتی ہے تاہم مغوی حسین کی تفتیش تاحال ڈیفنس تھانے کے شعبہ تفتیش کے پاس ہے ، جو کہ حیرت انگیز بات ہے ۔
مغوی بچے کے والد محمد راشد نے ایکسپریس کو بتایا کہ میرے 3 بچے تھے جس میں سے 2 کا انتقال ہوگیا اور تیسرا اغوا کر لیا گیا ۔ وہ روزانہ تھانے جاتے ہیں کچھ دیر بیٹھ کر واپس آجاتے ہیں ۔پولیس والے نہ اب تک کچھ نہیں کر سکے۔
مغوی حسین کی دادی کلثوم نے ایکسپریس کو بتایا کہ ان کے 4 بیٹے اور ایک بیٹی ہے ۔ سخت مہنگائی کے باعث گھریلو پریشانیاں بڑھنے لگیں، جس کے باعث وہ اپنے 2 بیٹوں کے ہمراہ آبائی علاقے بہاولپور سے کراچی منتقل ہوئیں، محمد راشد کباڑی کا کام کرتا ہے۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ ، گورنر ، آئی جی سندھ اور دیگر اعلیٰ حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ میرے پوتے کو بازیاب کرانے کے لیے احکامات جاری کیے جائیں تاکہ میں اپنے بچوں کے ہمراہ واپس آپنے آبائی علاقے چلی جاؤں ۔