سخن آرائیاں
شعراء و ادباء کی حاضرجوابی، فقرے بازی، بذلہ سنجی، برجستہ گوئی اور خوش کلامی کے واقعات
اردو مزاح کی شگفتگی، تابندگی اور تازگی کو دوبالا کرنے اور باکمال بنانے میں فکاہیہ ادب سے وابستہ قلم کاروں کا کردار قابل تحسین بھی ہے اور نا قابل فراموش بھی، جنہوں نے نظم و نثر ہر دو اصناف ایسے مزاح پارے تخلیق کیے جو اپنی مثال آپ ہیں۔
اردو کے طنزیہ و مزاحیہ ادب کا ایک بڑا حصہ پر مزاح تخلیقی نگارشات کے علاوہ مختلف مواقع پر شعراء و ادباء کے مابین ہونے والی ان خوش گفتاریوں، جملہ بازیوں پر مبنی ہے، جو اپنی انفرادیت کی بنا پر آج تک مقبول ہیں۔
ادباء و شعراء کی انہیں حاضر جوابیوں، برجستہ گویوں پر مشتمل مضامین کا قسط وار سلسلہ ''سخن آرائیاں'' کے عنوان سے اس موقر میگزین میں شائع ہو کر قارئین سے دادِقبولیت حاصل کر چکا ہے۔
مذکورہ اشاعتی مضامین کے جواب میں صاحبانِ ذوق کی جانب سے حاصل ہونے والے حوصلہ افزاء ردِعمل اور ان کی دل چسپی کے پیشِ نظر ''بعد از تحقیق ِبسیار'' چند مزید سخن آرائیاں پیش ِخدمت ہیں۔ اس امید کے ساتھ:
گر قبول افتد زہے عز و شرف
مرزا غالب ؔکو جوا کھیلنے کے جرم میں سزا ہوگئی، لیکن ان کو جیل میں کوئی تکلیف نہیں ہوئی، جیلر اور سارا اسٹاف ان کا خیال رکھتے تھے۔
جب چھوٹ کر آئے تو مفتی صدرالدین آزردہ ؔنے دعوت کی۔ دورانِ گفتگو پوچھا کہ جیل میں کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی؟ غالب بولے ویسے تو کوئی تکلیف نہیں تھی مگر ہر روز چار پانچ کوڑے ضرور پڑتے تھے۔
سب نے تعجب سے پوچھا ''کوڑے'' غالب ؔبولے: ''جی ہاں! جیل کے اندر سپاہیوں میں ایک شاعر بھی تھے جو بے بحر اشعار کی چار پانچ غزلیں مجھے سنا کر داد چاہتے تھے۔ مجبوراً سننی پڑتی تھیں۔ بس وہ کوڑے جیسی سزا تھی۔
معروف استاد شاعر مضطر ؔخیرآبادی ٹونک میں دیوانی عدالت کے ناظم تھے۔ اپنی شاعرانہ طبیعت کے باعث انہوں نے بعض منظوم فیصلے بھی تحریر کیے۔ دیوانی عدالت میں اپنی ملازمت کی رعایت سے ان کا ایک شعر ہے:
؎نہ گیا کار گزاری میں بھی وحشت کا خیال!!
جس عدالت کا میں ناظم ہوں وہ دیوانی ہے
ایک مرتبہ نواب رام پور کی محفل میں لفظ سانس کی تذکیر و تانیث سے متعلق بحث چھڑ گئی، داغ ؔدہلوی شریک محفل تھے۔ بحث کے طول پکڑنے پر بالآخر نواب صا حب نے داغ ؔسے پوچھا،''آپ کیا فرماتے ہیں؟'' جس پر داغ ؔنے کہا،''حضور! میرا فیصلہ تو یہ ہے کہ مونث کا سانس مونث اور مذکر کا سانس سمجھا جائے۔''
اردو شاعری کے اولین دور کے شاعر خواجہ ابراہیم غنی ؔکا ابتدائی تخلص''مفلس'' تھا۔ ایک دن ریاست سچین کے نواب ابراہیم خان یاقوتؔ، جو فن شاعری کے دل دادہ تھے، نے خواجہ سے فرمایا کہ آپ کا تخلص'' مفلس '' بے جا ہے،''غنی'' تخلص اختیار کرلیں۔ اس تجویز پر خواجہ صاحب نے برجستہ کہا:
؎کب تک رکھے گا مفلس اے چرخِ بدگہر تو
اقوتؔ خاں نے مجھ کو اب تو غنی ؔکیا ہے
استاد شاعر جلیلؔ مانک پوری کی رسائی دکن میں جب دربارِآصفیہ تک ہوئی اور وہ نظام دکن کے شعر و سخن کے استاد مقرر ہوئے تو بطور شکریہ اپنے جذبات کا اظہار درج ذیل شعر کے ذریعے کیا:
؎رہے جو شہ کی نظروں میں ترقی اس کو لازم ہے
ملے قطرہ جو دریا سے وہ دریا ہو ہی جاتا ہے
لکھنؤ کے شاعر بحر ؔلکھنوی کے کسی بات پر اپنے زمانے کے معروف ناول نگار عبدالحلیم شرر ؔسے تعلقات بگڑ گئے، جس پر بحر لکھنوی نے عبدالحلیم کے تخلص شرر ؔپر چوٹ کرتے ہوئے درج ذیل ہجویہ شعر لکھا:
؎فلک نے ہم کو دکھایا یہ سردوگرمِِ جہاں!
کہ آئے قطرے کی صورت گئے ''شرر'' کی طرح
مولانا ابوالکلام آزاد ؔکا اخبار الہلال 1923ء میں ضمانت ضبط ہونے پر انگریز حکومت کی جانب سے بند کردیا گیا، جس کی مذمت میں اکبرؔ الہ آبادی نے اس طرح شاعرانہ احتجاج کیا:
؎مغرب کی برق ٹوٹ پڑی اس غریب پر
دورِفلک''ہلال'' کو لایا ''صلیب'' پر
استاد قمرؔ جلالوی کی ہم عصر شاعرہ وحیدہ نسیم ؔنے قمرؔ صاحب سے کہا،''استادی تو یہ ہے کہ آپ ایک ہی شعر پڑھیں اور مشاعرہ لوٹ لیں۔'' بات سن کر استاد مسکرائے۔ کچھ ہی روز بعد ایک مشاعرے میں دونوں موجود تھے۔ وحیدہ نسیم اگلی صف میں بیٹھی تھیں۔ قمرؔ صاحب کی باری آئی تو استاد مائیک پر آئے اور بولے،''مطلع سماعت فرمائیے'':
؎پچھتا رہا ہوں نبض دکھا کر حکیم کو
مصرع پر واہ واہ ہوئی، استاد نے پہلا مصرع مکرر پڑھا اور تالیوں کی گونج میں شعر مکمل کردیا:۔
؎نسخے میں لکھ دیا ہے وحیدہ نسیم کو
محفل میں تادیر دادوتحسین کا شور بلند رہا اور یوں ایک ہی شعر میں مشاعرہ لوٹ لیا گیا۔
ایک روز کسی محفل میں کانگریس کے حمایتی، نام ور عالم دین حافظ محمد ابراہیم کا سامنا مولانا ظفر علی خان سے ہوگیا۔ مولانا ظفر علی خان نے حافظ صاحب کو دیکھتے ہی بر جستہ کہا:
؎نغمۂ توحید اب کس کی زباں پر آئے گا؟
جب خود ابراہیم بندے ماترم گانے لگے
سبطِ حسن جیل میں قید تھے۔ ابھی ان کو قید ہوئے چند روز ہی گزرے تھے کہ دیگر قیدیوں میں ایک قیدی اپنی بارک سے ان کو ملنے آتا تو بار بار جیل سے رہائی کی بابت حکومتی فیصلے کا تذکرہ کرتا رہتا کہ جلد حکومت نئے قیدیوں کو رہا کر دے گی۔ جب وہ صاحب چلے تو سبط حسن نے اپنے ایک ساتھی سے متعلقہ قیدی کے بارے میں میں پوچھا کہ یہ صاحب کون تھے؟ ان کے ساتھی نے جواب دیا ''یہ محکمۂ
تسلیات عامہ کے ڈائریکٹر ہیں۔''
ڈاکٹر لکشمی دت آگرہ کی ضلع کانگریس کمیٹی کے صدر تھے۔ ان کے ملنے والوں میں پنڈت فتح چند نام کے ایک صاحب تھے جو شاعری کا اچھا ذوق رکھتے تھے۔ ایک دن ڈاکٹر صاحب نے ان سے''گلستانِ سعدی'' کی تعریف کی۔ فتح چند نے کچھ دیر سنا اور ذرا سے توقف کے بعد بولے:
؎ گل و بلبل کا کہیں ذکر نہ سعدی نے کیا!
چھوڑ دیں خاص جو باتیں تھیں گلستاں کے لیے
محشرؔ لکھنوی نے انجمنِ معیاروادب قائم کی اور معیار کے نام سے ایک ادبی ماہ نامہ بھی جاری کیا، جس کی تعریف میں ظریف ؔلکھنوی نے لکھا:
؎معیار کہہ رہا ہے کہ نکلوں گا روزِحشر!
ہاتھوں میں اپنے دامنِ محشر ؔلیے ہوئے
احسان داؔنش شروع شروع میں اپنا نام احسان بن دانش لکھا کرتے تھے۔ اسی نام کے ساتھ جب انہوں نے اپنا تعارف قاضی احسان احمد شجاع سے کروایا تو قاضی صاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا،''ہوں تو میں بھی احسان، مگر بن دانش نہیں۔'' اس کے بعد احسان بن دانش، احسان دانش ہوگئے۔
آزادی ہند سے قبل برطانوی پارلیمنٹ کے اراکین پر مشتمل انگریزوں کا ایک وفد ہندوستان کی سیاسی قیادت سے ہندوستان کی آزادی کے موضوع پر گفتگو کرنے لاہور آیا۔ وفد کے طرزعمل سے معلوم ہوتا تھا کہ انگریز سردست ہندوستان کو آزاد نہیں کرنا چاہتے۔ اس صورت حال کی عکاسی کرتے ہوئے روزنامہ شہباز کے ایڈیٹر مرتضٰی احمد خان میکش ؔنے اپنے اخبار کا اداریہ لکھا، جس کا آغاز اپنے درج ذیل شعر سے کیا:
؎پوچھنے آتے ہیں ہر روز اسیروں کے مزاج
یہ نہیں کہتے کہ جاؤ!! تمہیں آزاد کیا
بدایوں کے ایک شاعر تھے علی حاتمؔ، جو کہ طنزیہ رباعیات وقطعات کہتے تھے۔ بدایوں سے دور شیخوپورہ نام کا ایک گاؤں تھا جہاں کے بہت سے روساء کو انگریز حکومت کی جانب سے خان بہادر کے خطابات سے نوازا گیا۔ علی حاتمؔ نے جو یہ صورت حال دیکھی تو یہ شعر کہا:
؎بھرمار گر یونہی خطابوں کی رہی
شیخوپورہ ''خان پور'' ہوجائے گا
پنڈت ہری چند اختر ؔکا شعر ہے:
بس اتنی بات کی خاطر ترا محشر بپا ہو گا
ملے گی شیخ کو جنت، ہمیں دوزخ عطا ہو گا
کسی نے یہ شعر مشفق خواجہ کو سنا کے کہا، ''دیکھیے پنڈت صاحب نے دوزخ کو مذکر باندھا ہے! کیا یہ ٹھیک ہے؟'' خواجہ صاحب نے ہنستے ہوئے فرمایا،''ہر دو صورت میں اس سے پناہ مانگنی چاہیے۔'' پھر کچھ توقف کے بعد بولے،''مونث ہے، کیوںکہ لوگ اس کے عذاب سے واقف ہونے کے باوجود بھی اس کے حصول میں لگے ہوئے ہیں۔''
جونؔ ایلیا نے ایک ملاقات میں مشتاق احمد یوسفی سے کہا،''مرشد! فقیری کا یہ عالم ہوگیا ہے کہ کُرتے بائیس ہیں اور پاجامہ ایک ہی بچا ہے'' جس پر یوسفی صاحب نے بر جستہ کہا،''حضرت! اس سے بھی نجات پالیں تاکہ کسی ایک طرف سے تو یک سوئی حاصل ہو۔''
ایک زمانے میں قتیلؔ شفائی کو معروف غزل گائیکہ اقبال بانو سے عشق ہوگیا۔ مبتلائے عشق ہونے کے بعد قتیل ؔنے خو کو معاشی و سماجی طور پر برباد کرلیا۔ جلد ہی تلخ حقائق کی ٹھوکر کھانے کے بعد سنبھل گئے، مگر پھر بھی ایک آدھ ادھوری ملاقات کے بعد اپنا موزوں کیا ہوا یہ شعر گنگنانے لگتے تھے:
؎ بھیج رہی ہے اب تک مجھ کو چاہت کے پیغام
سانولی سی اک عورت جس کا مردوں جیسا نام
رقص کی ایک محفل میں جوشؔ ملیح آبادی اور فراق دؔونوں شریک تھے۔ محفل میں پہلے کتھک ناچ دکھایا گیا، بعدازآں تانڈوناچ پیش کیا گیا جو کسی زمانے ہندوؤں کے شیو دیوتاکا ناچ سمجھا جاتا تھا۔ اس پر فراق ؔنے جوش ؔکو مخاطب کرتے ہوئے کہا،''وہ میری شاعری تھی، اور یہ آپ کی شاعری ہے۔''
دلی کے ایک مے کدے میں ادباء کے مابین یہ بحث چھڑ گئی کہ شیفتہؔ ؔمیرؔ کے زمانے میں تھے یا کہ غالبؔ کے۔ میرا ؔجی کو منصف ٹھہرایا گیا۔ میرا ؔجی نے جھومتے جھومتے ایسی دلیل پیش کی کہ سب مے کش قائل ہوگئے۔ میرا ؔجی دو مصرعوں میں بحث سمیٹتے ہوئے بولے:
؎ ''شیفتہ'' کے تمہی استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا
مرے کالج سیالکوٹ میں ایک انگریز پروفیسر نے مولوی میر حسن سے کہا،''آپ کا خدا بہت سست معلوم ہوتا ہے جو آپ پانچ مرتبہ اذان دے کر اسے جگاتے ہیں۔ جواباً مولوی صاحب نے فرمایا،''آپ کا خدا ہمارے خدا سے پینتیس گنا زیادہ سست لگتا ہے کیوںکہ ہفتہ بھر گھنٹے بجا بجا کے اسے جگاتے رہتے ہیں اور وہ پھر بھی نہیں جاگتا۔''
پنڈت ہری چند اختر ؔکے نام میں بڑی مناسبت ہے۔ ہری چند اختر ؔیعنی ''سبز چاند تارا۔'' ایک دن صبح پنڈت صاحب دفتر انقلاب وارد ہوئے اور سالکؔ کو مخاطب کرکے کہنے لگے،''مولانا! اٹھیے، سلامی دیجیے، پرچم اسلام آپ کے سامنے ہے۔''
جگرؔ مرادآبادی نے اپنی محبوب بیوی کو اپنے پیرومرشد جناب اصغرؔ گونڈوی کی خاطر طلاق دے کر ان کا نکاح اصغرؔ صاحب سے پڑھوا دیا۔ اور پھر اصغر ؔصاحب کے انتقال کے بعد اسی خاتون سے دوبارہ نکاح پڑھوا لیا۔ اُسی زمانے میں ان کی یہ غزل بھی زبانِ زدِ خاص و عام تھی:
؎گلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز
کانٹوں سے بھی نباہ کیے جا رہا ہوں میں
جس پر میرٹھ کے ایک مزاحیہ شاعر بوم ؔہاپوڑی نے لکھا:
؎عورت پرست ہوں نہیں دوشیزہ ہی عزیز
بیوہ سے بھی نکاح کیے جا رہا ہوں میں
لکھنؤ میں منعقدہ ایک مشاعرے کی صدارت کانگریس کے مشہور لیڈر سیتا رام کررہے تھے۔ مشاعرے میں شریک مزاحیہ شاعر ظریف لکھنوؔی نے اپنی باری آنے پر صاحب صدر سے اجازت لے کر یہ پہلا شعر پڑھا:
؎نر ہے یا مادہ، عجب ترکیب ہے اس نام کی
کچھ حقیقت ہی نہیں کھلتی ہے سیتا رام کی
مشفق خواجہ بیان کرتے ہیں کہ عندلیب ؔشادانی ایک مرتبہ کراچی یونیورسٹی پی ایچ ڈی کی طلباء کے زبانی امتحان کے سلسلے میں تشریف لے گئے۔ یونیورسٹی کی ایک طالبہ ثروت یاسمین نے ان سے آٹوگراف کی فرمائش کی تو انہوں نے طالبہ کے نام کی رعایت سے درج ذیل شعر اس کی کاپی پر تحریر کیا:
؎بس کہ ہر پنکھڑی ہے اک دینار
بڑی ثروت ہے یاسمیں ہونا
ایک مرتبہ شوکت ؔتھانوی اور سیمابؔ اکبر آبادی کے مابین ناگوار قلمی بحث چھڑگئی۔ بات زیادہ بڑھی تو سیماب نے اپنی ادارت میں نکلنے والے اخبار میں شوکت تھانوی، جو ایک ادبی پرچے ''ہمدم'' میں ''باتونی'' کے نام سے ادبی کالم لکھا کرتے تھے، کے نام منظوم پیغام لکھ کر شائع کیا:
؎ ادب باقی ہے اور نہ استعداد باقی ہے
فقط طاغوتیوں کی فکرِمادر زاد باقی ہے
کوئی ہمدم کے باتونی سے جاکر صرف یہ کہہ دے
کہ شیطاں مرگیا اس کی مگر اولاد باقی ہے
کچھ دنوں کے بعد ادبی پرچے ''پیمانہ'' میں سیمابؔ اکبرآبادی کی ایک غزل چھپی جس کا مقطع کچھ یوں تھا:
؎سیمابؔ حقیقت میں فطرت کا تمسخر ہے
جذبات کی اک بجلی پروانے میں رکھ دینا
اس غزل پر شوکتؔ تھانوی نے تنقید کی اور آخر میں یہ ایک فقرہ لکھ کر اپنے نام لکھے گئے منظوم پیغام کا جواب دے دیا۔ شوکتؔ تھانوی نے لکھا،''چوںکہ مقطع میں مولانا نے خود کو فطرت کا تمسخر قرار دے دیا ہے لہٰذا اب میں ان سے متعلق کچھ نہیں کہوں گا۔''
اردو حروف تہجی میں حرف ڑ سے کوئی لفظ شروع نہیں ہوتا۔ اسی پس منظر میں اردو کے معروف شاعر ناصرؔ کاظمی نے ایک شعر لکھا جس میں حرف ڑ کی اس بے فائدہ حیثیت کو کمال خوب صورتی سے بیان کیا ہے۔
'ڑ' حرف بدنصیب ہے ناصرؔ مری طرح
اب تک کسی بھی لفظ کے آگے نہ لگ سکا