عظیم حوصلوں سے سرشار فلسطینی نہ تھکے ہیں نہ جھکے ہیں
دنیا کے57اسلامی ممالک کی بے رخی اور خاموشی کے باوجود انہوں نے بے یقینی اور مایوسی کو گلے نہیں لگایا
غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں جو کچھ ہو رہا ہے وہ پہلی بار نہیں ہوا۔ فلسطینیوں کی شہادتوں اور بے گھر ہونے کی کہانی آج کی نہیں بہت پرانی ہے، فلسطینی پچھلے 75 برسوں میں اسرائیلی ریاست کے وحشیانہ مظالم جھلنے پر مجبور ہیں۔
7 اکتوبر سے شروع ہونے والی جنگ میں اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 17 ہزار تک پہنچ گئی ہے، اس جنگ میںتقریباً 6 ہزار بچے اور5 ہزار خواتین بھی شہید ہوئی ہیں جبکہ 60 ہزار سے زیادہ زخمی ہیں۔ حماس کے حریت پسندوں نے اسرائیل کے جنگی جنون اور بربریت کا جس بے خوفی، جرأت مندی اور بہادری سے مقابلہ کیا ہے، تاریخ میں ایسی مثال ملنا مشکل ہے۔
ایک طرف فلسطین آگ و خون میں نہا رہا ہے اور دوسری طرف عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی نے انسانیت کو شرمندہ کر دیا ہے۔ لگ ایسا رہا ہے کہ غزہ کو ہر طرف سے جانوروں اور درندوں نے گھیر رکھا ہے۔ انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں، نام نہاد تہذیب یافتہ ممالک کا گھنائونا چہرہ ایک بار پھر بے نقاب ہو گیا ہے۔
اسرائیل نے جنگ کے تمام اصولوں اور عالمی قوانین کو پیروں تلے کچلتے ہوئے معصوم اور بے گناہ شہریوں کا نشانہ بنایا، اسرائیل اپنے دفاع کی آڑ میں غزہ پر مسلسل وحشیانہ کارروائیاں کر رہا ہے۔ بے گناہ اور معصوم شہریوں کے قتل پر مغربی ممالک اسرائیل کے جنگی جرائم پر خاموش ہیں۔
غزہ پر اسرائیل کی اندھا دھند بمباری سے بستیاں اور خاندان تباہ ہوچکے ہیں، جنگ کے نام پر رہائشی محلوں کو نیست و نابود کر دیا گیا ہے، ہسپتالوں، اسکولوں، گرجاگھروں، مساجد، طبی عملے، صحافیوں اور اقوام متحدہ کے امدادی کارکنوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
اسرائیلی بربریت اور انسانیت سوز مظالم کا اندازہ اس بات بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سفاک اسرائیلی فوج نے ہسپتال اورمیڈیکل کمپلیکس کے انتہائی نگہداشت یونٹ، سرجری کی عمارت اور میٹرنٹی وارڈ پر حملے کر کے وہاں موجود مریضوں کو بھی نشانہ بنایا۔
24لاکھ آبادی رکھنے والا دنیا کا گنجان ترین علاقہ غزہ، اسرائیل کے فضائی اور زمینی حملوں کے باعث ملبے کا ڈھیر بن گیا ہے، اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ غزہ ہزاروں بے گناہ افراد کے قبرستان میں تبدیل ہو چکا ہے۔
فلسطینیوں کے قتل عام اور نسل کشی پر عالمی برادری جہاں بے حسی اور بے شرمی کا مظاہرہ کر رہی ہے اوراقوام متحدہ اپنی بے بسی کا ماتم کر رہی ہے، وہیں مسلم ممالک اور ان کے لیڈرز کا رویہ انتہائی افسوس ناک ہے۔ مسلم اقوام اور لیڈر شپ خاموش تماشائی، امت مسلمہ بے بسی اور بے حسی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔
دنیا میں مسلم اکثریت والے 57 ممالک ہیں، دنیا بھر میں مسلم آبادی کے لحاظ سے 62 فیصد یعنی تقریباً 1 بلین مسلمان ایشیا میں رہائش پذیر ہیں جبکہ دنیا بھر میں مسلمانوں کی آبادی 2 ارب سے تجاوز کر گئی ہے جو دنیا کی مجموعی آبادی کا 25 فیصد ہے۔ عیسائیت کے بعد اسلام دنیا کا دوسرا بڑا مذہب ہے۔
اس وقت دنیا کا 33فیصد رقبہ مسلمانوں کے زیر اقتدار ہے جبکہ دنیا میں ایک کروڑ 44لاکھ 35 ہزار نو سو یہودی ہیں۔ 2014ء میں اسرائیل کی کل آبادی81 لاکھ 46 ہزار تھی، ان میں یہودی 61 لاکھ 11 ہزار ہیں۔
او آئی سی مسلم ممالک کی بین الاقوامی تنظیم ہے جس میں مشرق وسطیٰ، شمالی، مغربی اور جنوبی افریقا، وسط ایشیا، یورپ، جنوب مشرقی ایشیا اور برصغیر اور جنوبی امریکا کے 57 مسلم اکثریتی ممالک شامل ہیں۔
مسلم ممالک پٹرولیم جیسی نعمت سے بھی مالا مال ہیں، اس وقت صنعتی ترقی کا سارا انحصار پٹرول پر ہے، دنیا میں اس وقت تیل پیدا کرنے والے 11بڑے ممالک میں سے دس مسلم ممالک ہیں۔ جن میں عرب ممالک سرفہرست ہیں، سعودی عرب کے بعد تیل اور پٹرول کے ذخیرہ میں عراق اور پھر ایران اور دیگر مسلم ممالک کا نام آتا ہے۔
یہ تمام وسائل رکھنے والے مسلم ممالک بھی فلسطین کے خلاف جاری اسرائیل کی بربریت اور انسانیت سوز مظالم کے خلا ف کوئی فیصلہ کرنے میں ناکام ہیں۔ 57 اسلامی ممالک مل کر بھی اسرائیلی فوج کو دہشت گرد قرار دینے، سفارتی تعلقات منقطع کرنے اور اسرائیل کو تیل کی فراہمی روک کا بھی فیصلہ بھی نہ کرسکے۔
اسرائیل کی جانب سے حماس کے ساتھ قیدیوں کا تبادلہ اور عارضی جنگ بندی کا معاہدہ یقیناً ان کی فتح ہے جبکہ اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کو اس کی شکست کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔
اسرائیلی کابینہ کے وزیر داخلہ کا یہ بیان ان کی شکست کا ثبوت ہے جس میں اس نے غزہ کے خلاف جنگ روکنے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ بندی اسرائیل کی نابودی کے مترادف ہے۔ انہوں نے حماس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے اور عارضی جنگ بندی کو اسرائیل کے لیے تاریخی شکست قرار دیا ہے۔
غزہ کی پٹی میں 47 روزہ جنگ کے بعد عارضی جنگ بندی کے نتیجے میں دونوں طرف سے قیدیوں کو رہا بھی کیا گیا۔ عالمی دنیا میں اس جنگ بندی کو مثبت انداز میں دیکھا گیا، اس کے باوجود طاقت کے نشے میں چور اسرائیل نے ایک بار پھر امن معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غزہ پر حملے شروع کر دیے ہیں، فلسطینیوں کو شہید کیا جارہا ہے۔
جنگ بندی کے باوجود اسرائیل کے غزہ پر حملوں پر مسلم ممالک کی بے حسی اور مغربی ممالک کی خاموشی نے فلسطینیوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ یہ جنگ انہوں نے خود جیتنی ہے۔
فلسطین میں مستقل امن اس وقت ہی قائم ہوگا جب تک فلسطین کی آزادی اور خودمختاری کا حال تلاش نہیں کر لیا جاتا۔ اپنی آزاد ریاست کے قیام تک فلسطین اپنی جنگ لڑتے رہیں گے۔ حماس نے اپنے پیاروں کے خون سے آزادی کی جو شمع روشن کی ہے اس نے دنیا کی سیاست کے رخ کو ہی تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔
چند ماہ پہلے تک عرب ممالک اسرائیل سے سفارتی تعلقات اور کاروباری رابطے بڑھانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے، لیکن حماس کی بروقت کارروائی نے دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے، اسرائیل کے چہرے کو بے نقاب کیا ہے ، یہی اس کی کامیابی ہے۔
حماس کے حریت پسندوں کی یہ بھی بڑی کامیابی ہے کہ خطے میں سب سے بڑی فوجی طاقت اور نا قابل تسخیرکا دعویٰ کرنے والی صیہونی ریاست اسرائیل کا حماس کے چند سو جانبازوں کو ہاتھوں ذلیل و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ حماس کے ہاتھوں14 سو سے زیادہ اسرائیلیوں کی موت کے بعد اسرائیل اور ان کی حمایت کرنے والے اتحادیوں کے لیے یہ عبرت ناک شکست ہے۔
اسرائیل فلسطین کی سرزمین پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے فلسطینیوں کے خلاف مسلسل امتیازی سلوک کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ اسرائیلی حکومت فلسطینیوں پر طاقت اور ریاستی ظلم و جبر کی مدد سے اپنے تسلط کو برقرار رکھنا چاہتی ہے۔
اس مقصد کے لیے وہ مشرقی یروشلم سمیت مقبوضہ علاقے میں مقیم فلسطینیوں کے خلاف مظالم کا ارتکاب کر رہی ہے۔ اسرائیل اور مقبوضہ علاقے میں، اسرائیلی حکام یہودی آبادیوں کے لیے زیادہ سے زیادہ اراضی حاصل کرنے اور زیادہ تر فلسطینیوں کو گنجان آباد مراکز تک محدود کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
عظیم حوصلوں سے سرشار فلسطینی، نہ تھکے ہیں، نہ جھکے ہیں۔ ہر طرح کے ظلم و بربریت کے باوجود ان کے عزم و حوصلے چٹانوں کی طرح مضبوط ہیں۔ اپنے جگر گوشوں کے لاشے اٹھانے کے باوجود ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ ایٹمی قوت، دنیا کی بڑی فوجی پاور، درندگی و بربریت کے باوجود صیہونی طاقت ان کے حوصلہ کو زیر نہیں کرسکی۔
دنیا کے57اسلامی ممالک کی بے رخی اور خاموشی کے باوجود انہوں نے بے یقینی اور مایوسی کو گلے نہیں لگایا، معصوم بچوں اورخواتین کی لاشیں اٹھائیں۔ اللہ اکبرکی فضائیں بلند کرتے ہوئے اپنی آزادی کے لیے ایک ایسی طاقت سے ٹکرا گئے جس کی پشت پناہی امریکہ اور یورپ کر رہا ہے۔