اجمل دہلوی صحافت کا ستون
حوصلہ تو کوٹ کوٹ کر ان میں بھرا ہوا تھا۔ کبھی کسی کی دل آزاری نہیں کیا کرتے تھے
گزشتہ دنوں صحافت کے شہ سوار اجمل دہلوی اپنے چاہنے والوں کو چھوڑکر اپنے رب کی طرف لوٹ گئے۔ 1993 میں ایکسپریس کے ایڈیٹر طاہر نجمی مرحوم نے میری ان سے ملاقات کروائی، ان کا سرخ و سفید نورانی چہرہ ملنے والوں کو متاثر کرتا تھا، ان کے مزاج میں سنجیدگی اور مزاح کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔
ان کے تعلقات تمام پارٹیوں سے بہت اچھے تھے جن میں پی پی پی، ایم کیو ایم اورکراچی کی دیگر جماعتیں شامل ہیں مگر خودداری کا یہ عالم تھا کہ کبھی کسی سیاسی پارٹی سے مالی مراعات یا فائدہ نہیں اٹھایا، راقم روزنامہ امن کا شوبزنس ہیڈ، ادب کا صفحہ بھی کرتا تھا، اسٹاف کی بہت حمایت کرتے تھے۔
اجمل دہلوی کہا کرتے تھے کہ '' صحافی کی کوئی ذاتی حیثیت نہیں، اس کی پہچان اس کا اخبار ہوتا ہے'' اور میں ان کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں۔ اجمل دہلوی صحافت کی آن تھے، ان کا ایک ایک الفاظ کتاب کی مانند ہوتا تھا۔ اجمل دہلوی 14 اگست 1936 کو دہلی میں پیدا ہوئے، امن میں ان کے کالم ''جمعہ خان'' نے بہت شہرت پائی، ان کا اخبار کبھی بھی کسی سیاسی پارٹی کے ساتھ نہیں رہا، جس سیاسی پارٹی نے مشکلات کا سامنا کیا اس کا انہوں نے ساتھ دیا۔
پی پی پی اور ایم کیو ایم نے جب مشکلات کے دن دیکھے تو اجمل دہلوی نے ان کی حوصلہ افزائی کی ،گھر سے آفس آتے اور اپنے کمرے میں بیٹھ کر کام کرتے مگر اس عام سے کمرے میں بڑے بڑے وزیر، مشیر چکر لگایا کرتے تھے۔ پاکستان کے سابق صدر جنرل ضیا الحق پر بھی کھل کر تنقید کردیا کرتے تھے مگر ان کا قلم ہمیشہ اصلاح اور بہتری کیلئے لکھا کرتا تھا۔
ضیا الحق کو ان سے بہت شکایات تھیں مگر انہوں نے کبھی کسی کی ذات پر الفاظ کی کیچڑ نہیں اچھالی، اپنے قلم کو ہمیشہ نیکی اور اصولوں کے زیر سایہ رکھا۔ کبھی اخبار کو اپنی آمدنی بڑھانے کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ سیاسی پارٹیاں ان کا بہت احترام کیا کرتی تھیں، بڑی بڑی سیاسی شخصیات ان کی عزت و تکریم کے حوالے سے خوبصورت بیانات دیا کرتی تھیں، جس کے اخبارات گواہ ہیں۔
محترمہ بے نظیر بھٹو، سابق صدر آصف زرداری، حروں کے روحانی پیشوا پیر پگارا، سابق وزیر اعظم غلام جتوئی، سابق وزیر اعلیٰ سندھ ممتازعلی بھٹو، قائم علی شاہ، الطاف حسین، جنرل ضیا الحق مرحوم، سابق گورنر میر رسول بخش تالپور الغرض ہر سیاسی شخصیت نے انہیں خراج تحسین پیش کیا۔
اجمل دہلوی اصولوں کے پابند تھے، راقم نے ان کے اخبار میں کافی عرصے کام کیا، ہمیشہ بیٹوں کی طرح پیش آتے جیسے اپنے صاحبزادے سہیل سے پیش آیا کرتے تھے۔ سہیل کے انتقال پر بہت افسردہ تھے اور ویسے بھی اولاد تو سرمایہ ہوتی ہے۔ میں ان سے بیٹے کی تعزیت کرنے گیا تو بولے کہ م۔ش۔خ! رب کی امانت تھا اور رب کی طرف لوٹ گیا، رب اس کی مغفرت کرے۔
حوصلہ تو کوٹ کوٹ کر ان میں بھرا ہوا تھا۔ کبھی کسی کی دل آزاری نہیں کیا کرتے تھے۔ میں نے انہیں اپنی شادی کا کارڈ دیا اور کہا کہ'' آپ ضرور شریک ہوں تاکہ میری عزت و توقیر میں آپ کی وجہ سے اضافہ ہو'' وہ راقم کی شادی میں آئے تھے۔
قارئین کو بڑی حیرت ہوگی کہ وہ ہر ایک سے محبت کا ثبوت دیتے، میں لاہور جا رہا تھا تو ان سے کہا کہ '' محمد علی (علی بھائی) سے بھی ملنے جاؤں گا'' بہت خوش ہوئے اور کہا کہ '' علی کو میرا سلام کہہ دینا کہ اجمل نے تمہیں دعا میں یاد رکھا ہے'' جب میری علی بھائی سے ملاقات ہوئی تو میں نے انہیں اجمل دہلوی کا سلام کہا تو مسکرا کر بولے '' اجمل صاحب تو صحافت کا ہیرا ہیں ''
ایک دن مجھے اپنے کمرے میں بلایا اور کہا کہ '' ابھی چند دن پہلے ایک شادی میں گیا تھا وہاں اداکار کمال سے ملاقات ہوئی، بھئی تم ان کا ایک انٹرویو کرو اخبار کیلئے، اپنے وقت کا سپر ہٹ ہیرو تھا'' اداکار لہری سے بہت محبت کا ثبوت دیتے تھے، ان کیلئے بھی کئی مرتبہ امن میں لکھا۔ شوبزنس کے حوالے سے ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کی، آرٹس کونسل کے حوالے سے یاور مہدی سے بہت محبت کرتے تھے۔ یاور مہدی اکثر ان سے ملنے آتے، تمام اداروں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔
سینئر صحافیوں سے ہمیشہ محبت کا ثبوت دیتے۔ اسد جعفری بہت بیمار تھے، انہوں نے مجھے بلا کر کہا کہ یہ لفافہ اسد جعفری کو دے دینا کہ اجمل دہلوی کی طرف سے قبول کریں۔ اسد جعفری اپنے وقت کے شوبزنس صحافت کے بڑے صحافیوں میں شمار ہوتے تھے اور راقم کے استاد بھی تھے۔ مدیر نگار الیاس رشیدی سے ان کے بہت اچھے تعلقات تھے، اجمل صاحب کی اجازت سے میں نگار میں کالم ''کراچی کے لیل و نہار'' لکھا کرتا تھا۔ '' نگار'' ایک فلمی ہفت روزہ ہے۔
اکثر جمعرات کے دن الیاس رشیدی، اجمل صاحب کو نگار اخبار بھجوایا کرتے تھے کہ یار اجمل بھائی کو دے دینا۔ اسد جعفری مرحوم بھی ان سے ملنے آیا کرتے تھے۔ اجمل دہلوی، الیاس رشیدی، اسد جعفری نے ہمیشہ راقم سے محبت کا ثبوت دیا۔اجمل صاحب کا اخبار ایک مستند اخبار تھا اور انہوں نے مجھے صحافت میں چلنا سکھایا، 11 سال میں ان کے اخبار سے وابستہ رہا، ان سے ملاقات کا سہرا طاہر نجمی کے سر جاتا ہے۔
اجمل صاحب کے کہنے پر میں نے معروف شاعرہ پروین شاکرکا انٹرویو کیا تو انہوں نے بتایا کہ اجمل دہلوی سے کئی ملاقاتیں ہوئی ہیں اور انہوں نے ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کی، میری شاعری کو اپنے اخبار میں نمایاں کیا، ان کے بہت احسانات ہیں، ان سے اسلام آباد میں اکثر ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ وہ ایم کیو ایم کے سینیٹر تھے۔ جب بھی اسلام آباد آتے تو میں ان سے ضرور ملا کرتی تھی۔ وہ اپنی مثال آپ تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے انتقال سے صحافت میں ایک کمی ہمیشہ محسوس ہو گی۔
مجھے جب ایک دوست نے فون کرکے بتایا کہ اجمل دہلوی صاحب کا انتقال ہوگیا ہے تو محسوس ہوا کہ ہم صحافت میں یتیم ہوتے جا رہے ہیں، ان کے جنازے میں کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ زندگی میں ان کے چہرے پر نور رہتا تھا، بعد انتقال بھی ان کا چہرہ نور سے لبریز تھا، راقم سمیت نہ جانے کتنے صحافیوں کو انہوں نے صحافت میں چلنا سکھایا۔ رب ان کی مغفرت کرے۔ (آمین)