پاکستان کی معیشت کا جائزہ لیں تو ہر دور میں ہی معیشت تباہی کی جانب گامزن نظر آتی ہے۔ پاکستان کا تجارتی خسارہ بھی بڑھتا ہی جارہا ہے اور ڈالر کو بھی کنٹرول کرنا ناممکن ہوتا جارہا ہے۔ اگر اس صورتحال کا جائزہ لیں تو ایک ہی وجہ سامنے آتی ہے اور وہ ہے پاکستانیوں کا میڈ اِن پاکستان مصنوعات کے بجائے غیر ملکی مصنوعات کو اہمیت دینا۔
دنیا بھر میں جن ممالک نے بھی ترقی کی، انہوں نے اپنی تیار کردہ مقامی مصنوعات کو غیر ملکی مصنوعات پر فوقیت دی۔ معاشیات کا سادہ سا قانون ہے کسی بھی ملک کی معیشت کے مستحکم ہونے کےلیے ضروری ہے کہ اس ملک کی ایکسپورٹ یعنی برآمدات کا ہجم زیادہ جبکہ درآمدات یعنی امپورٹ کا ہجم کم ہو۔ اس فارمولے کو آسان زبان میں سمجھیں تو یوں کہا جائے گا کہ ملک اپنی پروڈکٹس زیادہ فروخت کرے جبکہ دوسرے ممالک سے خریداری کم کرے۔
گزشتہ دنوں اہل فلسطین سے اظہار یکجہتی کے لیے سوشل میڈیا پر غیر ملکی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم کا آغاز ہوا تو کئی لوگ اس کے حق اور مخالفت میں سامنے آگئے۔ سوشل میڈیا پر صارفین کے ایک طبقے کا کہنا تھا کہ بائیکاٹ ممکن ہی نہیں، کیوں کہ ہر ایک شے تو ہم غیر ملکی استعمال کررہے ہیں۔ کیا یہ درست ہے؟ اگر اس بات کا جائزہ لیا جائےتو ایسا نہیں ہے۔ پاکستان کے مقامی تاجر اور کمپنیاں جہاں روزمرہ کی ضروریات کی مصنوعات بنا رہے ہیں وہیں پاکستان میں اب موبائل اور دیگر مصنوعات بھی مقامی سطح پر تیار ہورہی ہیں۔ مقامی تاجروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بننے والی تمام پروڈکٹس بہتر معیار کی ہیں لیکن لوگ غیر ملکی پروڈکٹس کی جانب صرف مضبوط مارکیٹنگ کی وجہ سے مائل ہورہے ہیں جبکہ پاکستانی تاجروں کے پاس مارکیٹنگ کا فقدان ہے۔ مقامی تاجر مارکیٹنگ پر بھاری رقم خرچ نہیں کرپاتا۔
کیا پاکستانی پروڈکٹس کے استعمال سے کچھ فائدہ ہوگا؟ تو اس کا جواب ہاں ہے اور ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ دنوں جب جزوی طور پر غیر ملکی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا گیا تو معیشت مستحکم ہونے لگی۔ روپے کی قدر میں بھی معمولی بہتری آئی۔ یہ وقت سب کچھ سیاستدانوں پر ڈالنے کے بجائے اپنا کردار ادا کرنے کا ہے۔ ہر پاکستانی کو اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہوئے ملکی معیشت کا سہارا بننا ہوگا تاکہ ڈالر کی قدر میں کمی اور روپے کی قدر میں اضافہ ہو۔ اور ایسا اسی وقت ممکن ہے جب پاکستان کی ایکسپورٹ زیادہ اور امپورٹ کم ہوگی۔
میڈ اِن پاکستان مصنوعات کے استعمال میں ہی اب ہماری اور ہمارے عزیز وطن کی بقا ہے۔ عوام کو اس اہم مسئلے کی اہمیت اور حساسیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ بہترین وقت ہے کہ ہم روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والی درآمدی اشیا کو نظرانداز کردیں، کیونکہ درآمدی اشیاء کی خریداری افراط زر میں اپنا کردار ادا کرتی ہے اور ان اشیا کی جگہ ہماری توجہ کا مرکز پاکستان میں بنی مصنوعات ہونی چاہئیں۔
پاکستانی مصنوعات کے متعلق یہ پروپیگنڈا بھی کیا گیا ہے کہ یہ مصنوعات استعمال کے معیار کے مطابق نہیں۔ اگر ماضی میں جھانکا جائے تو 80 کی دہائی میں ملک میں روزمرہ کے استعمال کی بیشتر مصنوعات جیسے صابن، سرف، شیمپو، مشروبات، دودھ، ٹوتھ پیسٹ اور کپڑے وغیرہ پاکستان میں بننے والے ہی استعمال ہوتے تھے اور ان کے معیار پر کسی کو کوئی اعتراض نہ تھا۔ ان مصنوعات کو صرت ان کی کمزور مارکیٹنگ اور بین الاقوامی مصنوعات کی برانڈنگ لے ڈوبی۔ زندگی میں استعمال ہونے والی تقریباً ہر چیز ہی پاکستان میں بن رہی ہے۔ ایک لمحے کو یہ تصور بھی کرلیں کہ ان کا معیار غیرملکی مصنوعات کے مقابلے میں کچھ کم ہے یا پھر یوں کہہ لیں کہ انیس بیس کا فرق ہے، تو بھی یہ وقت قربانی کا ہے۔ اس وقت ہمیں اپنے ملک کا سہارا بننا ہوگا اور معیشت کو مستحکم کرنے کےلیے ان ہی مصنوعات کو اپنانا ہوگا۔ روزمرہ کے استعمال کی اشیا کے ساتھ ساتھ الیکٹرانکس کا سامان، تیار گاڑیاں، اور موبائل وغیر کی خریداری میں بھی پاکستانی مصنوعات کو فوقیت دینا ہم سب کی ذمے داری یے۔ یاد رکھیے! جہاں ان مصنوعات کے استعمال سے ملکی معیشت مستحکم ہوگی، وہیں ملک میں بننے والی مصنوعات کے استعمال سے ان اشیا کی مانگ میں اضافہ ہوگا اور ملک میں کارخانوں کی تعداد بڑھے گی۔ ایسے میں پاکستانیوں کےلیے روزگار کے مواقعوں میں بھی اضافہ ہوگا۔
عوام کے ساتھ ساتھ اب حکومت کو بھی اس اہم مسئلے پر توجہ دینا ہوگی۔ کھانے پینے کی اشیا، الیکٹرانک اشیا، خشک دودھ، سرجیکل آلات، گاڑیاں وغیر سب جب پاکستان میں بن رہے ہیں تو کیوں غیرملکی مصنوعات کو درآمد کیا جارہا ہے؟ درآمد ہونے والی بیشتر اشیا صرف ملک کے اشرافیہ کے شوق پورے کرنے کےلیے ملک میں آرہی ہیں اور خمیازہ ہر شہری کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ لہٰذا اب سنجیدگی سے اس فیصلے پر عمل کرنا ہوگا کہ سب سے پہلے میڈ اِن پاکستان۔ اس سلسلے میں میڈیا کو بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا جبکہ پاکستان میں بننے والی اشیا کے معیار کو بہتر بنانے کےلیے متعلقہ اداروں کو بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔ یہ وقت بھی ہاتھ سے چلا گیا اور میڈ اِن پاکستان کا کلچر عام نہ ہوا تو ہمارے ہاتھ کچھ نہ رہے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔