پاکستان تحریک انصاف نے جس دن اپنے پارٹی انتخابات کرائے تھے اسی دن سے یہ بات زبان زدِ عام تھی کہ ان انتخابات کو قانونی طریقے سے سرانجام نہیں دیا گیا اور ان کو کسی بھی عدالت میں ثابت کرنا مشکل ہوگا۔ اور وہی ہوا کہ الیکشن کمیشن نے پارٹی انتخابات کو قانونی تقاضے پورے کیے بغیر منعقد کرانے پر تحریک انصاف کو انتخابی نشان سے محروم کردیا۔
تحریک انصاف نے اس حوالے سے پہلے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا مگر پھر وہاں سے اپیل واپس لیے بغیر پارٹی نے پشاور ہائیکورٹ سے رابطہ کیا اور اپنے حق میں فیصلہ حاصل کرلیا۔ سپریم کورٹ میں اس کیس کی سماعت کو براہ راست یوٹیوب پر جاری کیا گیا۔ جس کو ملک بھر کے تمام نیوز چینلز نے براہ راست نشر کیا۔ اور رات گئے فیصلے میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے تحریک انصاف کے انتخابی نشان کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھا۔
پاکستان تحریک انصاف کو ان کا انتخابی نشان ''بلا'' نہ دیے جانے کی وجہ سے ایک بحث جاری ہے۔ اس بحث میں بعض لوگ عدالت کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں، موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار سے ملا رہے ہیں، تو بعض لوگ اس فیصلے کی تعریف میں زمین و آسمان کی قلابے ملا رہے ہیں۔ پہلے سے تقسیم معاشرے میں ہر فرد اپنی انتہائی جارحانہ پوزیشن لیے کھڑا ہے۔ مگر سپریم کورٹ کی جانب سے تحریک انصاف سے انتخابی نشان واپس لینے کے فیصلے کے بہت دور اثر نتائج برآمد ہوں گے۔
پاکستان تحریک انصاف اپنی مخصوص نشتوں سے محروم ہوگئی ہے، کیونکہ اراکین آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اب پارٹی کی مرکزی انتخابی مہم چلانے کے بجائے انفرادی انتخابی مہم چلانا ہوگی۔ ہر امیدوار کو الگ اشتہار دینا ہوگا، کیونکہ ہر ایک کا انتخابی نشان الگ الگ ہوگا۔
پاکستان تحریک انصاف سے بلے کا نشان لیے جانے کا معاملہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے۔ اس سے قبل بھی 28 اپریل 2017 کو اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے انٹراپارٹی الیکشن نہ کرانے پر انتخابی نشان واپس لے لیا ہے۔ اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر سردار رضا خان نے تمام صوبائی الیکشن کمشنرز کو اس حوالے سے ایک مکتوب بھی روانہ کیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے پر عملدرآمد کراتے ہوئے پنجاب کے ضلع چکوال میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں امیداوار کو بلے کا انتخابی نشان الاٹ کرنے سے روک دیا تھا۔ جس کے بعد تحریک انصاف نے لاہور ہائیکورٹ کے راولپنڈی بنچ سے عارضی ریلیف حاصل کیا تھا۔
مگر کیا تحریک انصاف کا انتخابی نشان ہمیشہ سے بلا ہی تھا؟ ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ پی ٹی آئی کے قیام کے بعد کئی سال تک پی ٹی آئی کا انتخابی نشان بلا نہیں بلکہ چراغ تھا۔ پاکستان تحریک انصاف کے دستور میں انٹر پارٹی الیکشن کے حوالے سے ایک جامع طریقہ کار دیا گیا ہے، جس کی تعریف چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے بھی انتخابی نشان کے حوالے سے مقدمہ سنتے ہوئے کی۔ مگر پارٹی اپنے ہی منشور کے مطابق انتخابات کرانے میں ناکام رہی ہے۔
انتخابی نشان کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے بعض ایسے اقدامات بھی نظر آئے جو کہ حیران کن اور پریشان کن بھی تھے۔
اس وقت تحریک انصاف کی طرح ایم کیو ایم بھی عتاب کا شکار ہے۔ مگر ایک وقت میں یہ جماعت بھی منظور نظر یا نور نظر تھی۔ نوے کی دہائی میں ایم کیو ایم بطور جماعت الیکشن کمیشن میں رجسٹر نہیں تھی۔ مگر اس کے باوجود اس کے تمام امیداواروں کو پتنگ کا انتخابی نشان الاٹ کیا جاتا تھا۔ ایسا ہی 2018 کے انتخابات میں ہوا جس میں مسلم لیگ ن کو چھوڑنے والوں اور آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے والوں کو جیپ کا نشان الاٹ کروایا گیا۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کسی سیاسی جماعت کو اس کے انتخابی نشان سے محروم کردیا گیا ہو؟ نہیں، ایسا نہیں ہے! یہ عمل پاکستان میں دو بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی ہوچکا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کے وقت اس کا انتخابی نشان تلوار تھا۔ اسی تلوار کو پیپلز پارٹی نے حضرت علی کی تلوار الذوالفقار سے تشبیہ دے کر مذہبی کارڈ بھی کھیلا کیونکہ پیپلز پارٹی کے بانی کا نام بھی اسی تلوار کی نسبت سے ذوالفقار علی بھٹو تھا۔ مگر ملک میں جب ایک طویل مارشل لا کے بعد جمہوریت بحال ہوئی تو اس وقت کے الیکشن کمیشن نے پیپلزپارٹی کو رجسٹریشن تو دی مگر اس سے تلوار یعنی ذوالفقار کا نشان واپس لے لیا۔ بلکہ انتخابی نشانوں کی جو فہرست جاری کی اس میں تلوار کا نشان موجود ہی نہ تھا۔ اس وقت بھی پیپلز پارٹی نے تلوار کا نشان نہ ملنے پر بہت شوروغوغا کیا تھا۔ مگر بعد ازاں انتخابی سیاست کو جاری رکھنے کےلیے اس نے تلوار کی جگہ تیر کے نشان پر اتفاق کرلیا۔ اس وقت دو پیپلز پارٹیز موجود ہیں، ایک کے سربراہ آصف علی زرداری ہیں جوکہ پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کی سربراہی کرتے ہیں اور دوسری جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ہے، جس کی سربراہی بلاول بھٹو زراداری کے پاس ہے۔ پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کا انتخابی نشان تیر ہی ہے۔ جبکہ پیپلز پارٹی کو سال 2018 میں 41 سال بعد تلوار کا نشان بھی الاٹ کردیا گیا ہے۔ مگر انتخابات میں حصہ صرف اور صرف پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین ہی لیتی ہے۔
اسی طرح پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرنے کےلیے اسلامی جمہوری اتحاد بنا جس میں نو جماعتوں نے اتحاد کیا تھا۔ اس کو انتخابی نشان سائیکل دیا گیا۔ بعد ازاں جب یہ اتحاد ختم ہوگیا تو سائیکل کا نشان مسلم لیگ نواز نے اپنے نام لکھوا لیا۔ مگر جب مسلم لیگ ن پر زوال آیا اور نواز شریف کی حکومت کو برطرف کرکے مارشل لا لگ گیا تو پرویز مشرف نے مسلم لیگ قائداعظم کو سائیکل کا نشان الاٹ کروا دیا۔ اور مسلم لیگ ن جس نے تقریباً چار انتخابات سائیکل کے نشان پر لڑے تھے وہ اپنے نشان سے محروم ہوگئی اور اس نے شیر کا نشان اپنا لیا۔ اب اس جماعت کے پاس شیر کا نشان ہے۔
کیا تحریک انصاف ہی وہ سیاسی جماعت ہے جس کو انتخابی نشان سے محروم کیا گیا ہے؟ نہیں ایسا بھی نہیں ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی اور پرویز مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ سمیت متعدد سیاسی جماعتوں کو ان کے انتخابی نشان سے محروم کیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ سیاسی جماعتیں انتخابی قوانین پر عملدرآمد کرانے میں ناکام رہی ہیں۔
جمہوری معاشروں میں ہر چیز کےلیے تحریری قانون درکار نہیں ہوتا بلکہ قانون کے علاوہ روایات کو بھی جمہوری عمل کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ مگر ہمیں پے درپے مارشل لا اور ہائبرڈ نظام اور سیاسی جماعتوں میں ناپید جمہوریت کی وجہ سے ایسے قوانین بنانے پڑے ہیں جس سے سیاسی جماعتوں کو اپنے اندر بھی جمہوریت لانا پڑے۔ سیاسی جماعتوں کا قانون پر عملدرآمد اس لیے ضروری ہے کہ ان کے منتخب امیدواروں نے ایوانوں میں بیٹھ کر قانون سازی کرنا ہے۔ مگر جب ایک سیاسی جماعت اپنی قانونی اہلیت کو ہی ثابت نہیں کر پارہی ہے اور اس کو انتخاب لڑنے کی اجازت دے دی جائے تو کس طرح ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی کو قائم کرسکے گی؟ اگر سیاسی جماعتوں نے اپنے حوالے سے وضع کردہ قوانین پر عمل نہیں کرنا ہے تو پھر ان قوانین کو پہلے ختم کیا جائے پھر سپریم کورٹ پر تنقید کی جائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔