انتخابی مہم کا جوش اور احتیاط

انتخابی جلسوں کے دوران ورکرز کے جاں بحق یا زخمی ہونے کے حادثات سامنے آتے رہے ہیں


راجہ کامران February 02, 2024
انتخابی مہم کے دوران جوش و خروش میں ہوش کا دامن بھی لازمی تھامے رکھیے۔ (فوٹو: فائل)

ان دنوں الیکشن مہم اپنے پورے جوش و خروش سے جاری ہے۔ پاکستان میں آبادی کے اعدادوشمار کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ہر الیکشن میں نوجوان ووٹرز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق مجموعی ووٹرز میں سب سے زیادہ تعداد 18 سے 35 سال کے درمیان نوجوانوں کی ہے، جبکہ پہلی مرتبہ ووٹر بننے والوں کی بھی ایک بڑی تعداد اس مرتبہ قومی انتخابات میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرے گی۔


ماہرین کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعت یا امیدوار 18 سے 35 سال کی عمر کے ووٹ دینے والے کے فیصلے پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ اسی عمر کے ووٹر ملکی حالات، واقعات اور دیگر عوامل کی روشنی میں ووٹ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اور اسی عمر کے افراد انتخابی مہم میں جوش و خروش پیدا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اور انتخابی امیدوار زیادہ تر نوجوانوں کو پرکشش منشور، وعدوں، نعروں کے ذریعے اپنا ہمنوا اور ووٹر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی لیے نوجوانوں کو ووٹ کے حق کے ساتھ عملی سیاست میں قدم رکھنے کا موقع بھی مل رہا ہے۔ انتخابی جلسے جلوسوں اور ریلیوں میں نوجوانوں کی بڑی تعداد شامل ہورہی ہے، اس کے علاوہ نوجوان اپنے اپنے حمایتی امیدواروں کےلیے انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔


انتخابی مہم میں جوش و خروش کی وجہ سے انتخابات کے دوران حادثات ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ نوجوان انتخابی مہم کے دوران احتیاطی تدابیر کو اختیار کریں اور کسی بھی حادثے سے بچنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ ماضی میں سیاسی ورکرز کے انتخابی جلسوں کے دوران جاں بحق ہونے یا زخمی و معذور ہونے کے حادثات سامنے آتے رہے ہیں۔ ایسے میں ضروری ہے کہ نوجوان سیاسی ورکرز چند احتیاطی تدابیر کو اختیار کرکے خود کو کسی بھی ناگہانی سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔



ریلی اور جلوس میں احتیاط


سیاسی سرگرمی میں سب سے زیادہ حادثات اس وقت ہوتے ہیں جب کوئی سیاسی رہنما ریلی یا جلوس نکالتا ہے۔ ایسے میں نوجوان جوش میں ہوش گنوا دیتے ہیں۔ اور کبھی کبھی سیاسی رہنماؤں کی گاڑی کے اوپر چڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گاڑیوں کو اندر بیٹھ کر سفر کرنے کےلیے ڈیزائن کیا گیا ہوتا ہے، نہ کہ ان کی چھت کے اوپر یا اردگرد لٹک کر سفر کیا جائے۔ کسی بھی گاڑی کے اچانک بریک لگنے کی صورت میں سیاسی رہنما کی گاڑی سے لٹکے ہوئے جوان اکثر گر کر شدید رخمی ہوتے ہیں اور اس قسم کے حادثے انتخابی مہم کے دوران اکثر ہوتے ہیں۔ جبکہ انسانی جانوں کے ضیاع کے واقعات بھی رونما ہوچکے ہیں۔



اسی طرح ریلیوں میں سیاسی کارکنان بسوں یا دیگر گاڑیوں کی چھتوں پر سفر کرتے ہیں۔ اور جھنڈے ہاتھ میں لہراتے ہیں۔ اونچی گاڑیوں پر چڑھے ان سیاسی کارکنوں کے سڑکوں پر بنے فلائی اوور یا انڈر پاس کی چھتوں سے ٹکرانے کے واقعات بھی رونما ہوسکتے ہیں۔



بجلی اور ٹیلی فون کے کھمبوں پر جھنڈے لگانا


الیکشن کمیشن آف پاکستان کا ضابطہ اخلاق الیکشن مہم میں جھنڈے، بینرز، پوسٹرز لگانے سے متعلق تو جاری ہوتا ہے۔ مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ کراچی مین شارع فیصل پر اسٹریٹ لائٹ کےلیے لگائے گئے کھمبوں پر تقریباً ہر سیاسی جماعت کا جھنڈا لہرا رہا ہے اور ان جھنڈوں کو لگانے میں کوئی احتیاط بھی نہیں برتی گئی ہے۔ ان کھمبوں پر جھنڈے لگانا ہی سب سے بڑی بے احتیاطی ہے، جس میں حادثے کے امکانات بہت زیادہ ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح رہائشی علاقوں میں بجلی کے کھمبوں، اسٹریٹ لائٹ اور ٹیلی فون کے کھمبوں پر جھنڈے لگانے کا رواج بہت بڑھ گیا ہے۔ بجلی اور اسٹریٹ لائٹ کے کھمبوں پر جھنڈے اور بینرز لگانے والے فرد کی زندگی کو خطرہ لاحق رہتا ہے۔ کیونکہ اس فرد کو کسی بھی لمحے بجلی کا کرنٹ لگ سکتا ہے۔ کرنٹ لگنے کے علاوہ جو فرد پول پر چڑھ کر جھنڈا یا بینر باندھ رہا ہوتا ہے، اس کے پھسل کے گرنے کا بھی خدشہ رہتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ جھنڈے اور بینرز کےلیے بجلی یا ٹیلی فون کے کھمبوں کا استعمال نہ کیا جائے۔


اس کے علاوہ جو بینرز یا جھنڈے شارع اور سڑک پر باندھے جاتے ہیں، اس کی رسیاں ٹوٹ جاتی ہیں۔ اور یہ لٹکے ہوئے بینرز سڑک پر سفر کرنے والی گاڑیوں اور خصوصاً موٹر سائیکل سواروں کےلیے جان لیوا حادثے کا باعث بن سکتے ہیں۔ ہوا سے جھولتی بینر کی رسی کسی بھی موٹر سائیکل سوار کے گلے کا پھندا بن سکتی ہے، یا اس کی چوٹ ایک ہنٹر کی طرح شدید ضرب لگاسکتی ہے۔ اس لیے ایسے بینرز جو کہ پھٹ جائیں یا ان کی رسی ٹوٹ جائے ان کو احتیاط کے ساتھ اتار لینا انسانی جان کے تحفظ کےلیے اہم ہے۔



جلسے میں بجلی کا محفوظ استعمال


جیسے جیسے دن ڈھلتا ہے، انتخابات میں سیاسی سرگرمی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ سیاسی جماعتیں اور ان کے امیداوار رات کے وقت اپنی جلسہ گاہ کو روش کرکے انتخابی جلسے اور کارنر میٹنگز کرتے ہیں۔ ان جلسوں اور کارنر میٹنگز میں بعض اوقات بجلی میٹر کے بجائے براہ راست کنڈا مار کر چوری کی جاتی ہے۔ جس سے نہ صرف اس علاقے میں بجلی کا نظام متاثر ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے بلکہ کارنر میٹنگز میں بھی کسی بھی وقت بجلی کے لوڈ میں اتار چڑھاؤ، غیر معیاری اور کھلے کنکشن کی وجہ سے فنی خرابی پیدا ہونے، کسی فرد کو کرنٹ لگنے یا شارٹ سرکٹ کی وجہ سے آگ لگنے کے خدشات رہتے ہیں۔ اسی طرح بڑے جلسوں میں بھی جنریٹر یا کنڈے سے بجلی لی جاتی ہے، وہاں بھی اس قسم کے حادثات کے خدشات رہتے ہیں۔ ضروری ہے کہ سیاسی جلسوں اور کارنر میٹنگز میں بجلی کا محفوظ اور پائیدار استعمال کیا جائے تاکہ وہاں موجود سیاسی رہنما، سیاسی کارکن اور عوام کی جان و مال کو محفوظ بنایا جاسکے۔



آتش بازی اور ہوائی فائرنگ


آتش بازی اور ہوئی فائرنگ سے ہونے والے نقصانات کسی سے پوشیدہ نہیں۔ آتش بازی میں جلنے کے واقعات رونما ہوچکے ہیں، کبھی پنڈال کو آگ لگ جاتی ہے، تو کبھی اچانک آگ لگنے سے آتش بازی کا پورا سامان جل جاتا ہے۔ اور وہاں موجود افراد کو جلنے سے زخم بھی آتے ہیں اور لوگ جان سے بھی جاتے ہیں۔ آتش بازی سے آگ لگنے یا ہوائی فائرنگ سے لوگوں کے جاں بحق ہونے کے واقعات سب کے سامنے ہیں۔ نئے سال کی خوشی اور 14 اگست کی رات کو ہونے والی ہوئی فائرنگ ہر سال کتنی زندگیوں کو نگل جاتی ہے۔ سیاسی جلسوں میں بھی اور عام زندگی میں آتش بازی اور ہوائی فائرنگ سے گریز کرنا چاہیے۔



گھروں کی بیرونی دیواروں پر پوسٹر لگانا


ہر فرد کو اپنے گھر سے پیار ہوتا ہے اور وہ اپنے گھر کی بیرونی دیوار کو رنگ و روغن اور دیگر آرائش سے سجاتا ہے۔ مگر سیاسی کارکن بلا اجازت لوگوں کے گھروں کی دیواروں پر پوسٹر چسپاں کر جاتے ہیں، جس سے بیرونی دیوار کی سجاوٹ متاثر ہوتی ہے۔ بعض اوقات صاحب خانہ اس سیاسی جماعت سے اتفاق نہیں رکھتے، ایسے میں بلا اجازت پوسٹرز اور اسٹیکرز کو چسپاں کرنے سے لڑائی جھگڑے کا ماحول پیدا ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔ جبکہ جس کے گھر کی دیورا کی آرائش کو خراب کیا جاتا ہے، وہ اس سیاسی جماعت سے نالاں ہونے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔


سیاسی کارکنان کوشش کریں کہ جذبات میں حد سے نہ گزر جائیں اور سیاسی سرگرمی میں احتیاط کو نہ چھوڑیں تاکہ حادثات سے بچ سکیں۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔




اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔



تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں