میاں صاحب حکومت کیوں سنبھالیں گے
اس کے مخالفین کا خیال بھی یہی تھا کہ یہ موقع میاں نواز شریف اور ان کی جماعت کو ملنے والا ہے پھر یہ موقع کیوں نہ ملا
انتخابات بالآخر ہو گئے۔ اب نتیجہ سامنے ہے اور سوال یہ ہے کہ اس کے بعد کیا ہو گا؟ یہ سوال کئی سوالوں پر بھاری ہے، عمومی زبان میں ملین ڈالر سوال۔ اس سوال کی قدر وقیمت کئی وجہ سے بڑھ چکی ہے۔ ایک وجہ تو ظاہر ہے کہ اس لیے ہے کہ ان آزاد ارکان کی تعداد جن کی ملکیت کا دعویٰ پی ٹی آئی رکھتی ہے، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی پارلیمانی تعداد سے زیادہ ہے۔
انتخابات سے قبل مسلم لیگ ن ہی نہیں، اس کے مخالفین کا خیال بھی یہی تھا کہ یہ موقع میاں نواز شریف اور ان کی جماعت کو ملنے والا ہے پھر یہ موقع کیوں نہ ملا۔ اس کی وجوہات پر اظہار خیال ضروری ہے اور ان عوامل کا سمجھنا بھی کچھ اہم نہیں لیکن وقت نے ایک اور سوال کو اس سے بھی بڑھ کر اہمیت دے دی ہے۔
سوال یہ ہے کہ میاں نواز شریف نے 2013 ء میں جنھوں نے مولانا فضل الرحمان جیسے اتحادیوں کے ساتھ خیبر پختونخوا میں سہولت میسر ہونے کے باوجودایک اصول کی وجہ سے حکومت نہیں بنائی تھی اور زیادہ نشستیں رکھنے والی پی ٹی آئی کو پلیٹ میں رکھ کر یہ موقع فراہم کر دیا تھا، اس بار کیوں حکومت بنانے پر تیار ہو گئے۔ اس معاملے میں آصف علی زرداری اور ان کی جماعت بھی بہ ظاہر ان کی ہم خیال دکھائی دیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟
میاں صاحب ہوں یا زرداری صاحب، یہ دونوں قائدین جس جمہوری روایت پر یقین رکھتے ہیں، یہ فیصلہ اس سے مطابقت نہیں رکھتا۔ جمہوری ذہن رکھنے والے سیاسی کارکن اور اہل دانش بھی اسی انداز میں سوچتے ہیں۔ ان کا خیال بھی یہی ہے کہ مسلم لیگ ن ہو یا پیپلز پارٹی، ان دونوں کو حکومت نہیں بنانی چاہیے بلکہ جن لوگوں کی تعداد زیادہ ہے، ان ہی کو یہ حق دیا جائے۔ اصولی طور پر یہی بات درست ہے اور مسلم لیگ ن کے اندر بھی اہل الرائے اسی انداز میں سوچتے ہیں۔
سوچ کا ایک زاویہ یہ بھی ہے کہ آئندہ حکومت پھولوں کی سیج پر نہیں ہو گی۔ یہ حکومت گزشتہ 16 ماہ کی پی ڈی ایم کی حکومت سے بھی زیادہ مشکل ہوگی۔ اقتصادی اعتبار سے بھی اور سیاسی اعتبار سے بھی۔ سولہ ماہ کی حکومت کے دوران میں اقتصادی فیصلے تومشکل تھے ہی لیکن سیاسی مشکل یہ تھی کہ حلیف جماعتیں فوائد سمیٹنے میں تو پیش پیش ہوتیں لیکن مشکل فیصلوں کا بوجھ اٹھانے میں شریک نہ ہوتیں۔
یہ حقیقت اس زمانے میں بھی کسی نہ کسی طرح سے ظاہر ہو جاتی تھی لیکن حالیہ انتخابی مہم کے دوران تو زیادہ کھل کر سامنے آئی جب بلاول بھٹو زرداری نے مسلم لیگ ن اور اس کے قیادت پر بے رحمی کے ساتھ تنقید کی۔ کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ تنقید کے معاملے میں بانی پی ٹی آئی کے نقش قدم پر چل پڑے ہیں۔
حکومت کے حالیہ موقع سے فائدہ نہ اٹھانے کے حامی لیگیوں کا خیال ہے کہ اس بار بھی یہی ہو گا اور تمام مشکل فیصلوں کا وزن ان ہی کی جماعت کو اٹھانا پڑے گا۔ یوں آئندہ انتخابات میں بھی مسلم لیگ کو 2024 ء جیسے تلخ حقائق کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لہٰذا ان کی رائے یہ ہے کہ مرکز میں حکومت نہ بنائی جائے اور پنجاب میں حکومت بنا کر کارکردگی کا مظاہرہ کیا جائے۔
سیاسی اعتبار سے بہترین حکمت عملی یہی ہو سکتی ہے لیکن کیا میاں صاحب اور ان کی ٹیم ان حقائق سے آگاہ نہیں؟ ایک ایسے میاں صاحب جو کئی دہائیوں کے تلخ تجربات اور آزمائشوں کی بھٹی میں پک کر کندن بن چکے ہیں۔
یہی آمائشیں اور دہائیوں پر مشتمل تجربات ہی ہیں جن کی وجہ انھیں صرف پاکستان ہی کا نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کا سب سے زیادہ تجربہ کار اور زیرک سیاست دان تصور کیا جاتا ہے۔ ایک زیرک اور تجربہ کار سیاست دان ایسے فیصلے کے مفید اور ضرر رساں پہلوؤں سے آگاہ نہ ہو، اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اگر یہ اندازہ درست ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ میاں صاحب یہ کڑوا گھونٹ بھرنے پر تیار ہیں اور سولہ ماہ کی حکومت کی طرح اپنی جماعت کا بچا کھچا اثاثہ بھی قربان کر رہے ہیں؟
اس سوال کا ایک سادہ جواب تو یہی ہو سکتا ہے کہ برس ہا برس کی تلخیوں ، زیادتیوں اور ذاتی نوعیت کے صدمات کے بعد اب نسبتاً آسانی میں میسر آنے والی حکومت میں انھیں کشش دکھائی دیتی ہے لیکن یہ جواب کچھ ایسا درست نہیں۔ اس سوال کا جواب ہم پاکستان تحریک انصاف کے اس فیصلے میں تلاش کر سکتے ہیں جس کا تادم تحریر باضابطہ اعلان تو نہیں ہوا لیکن نہایت قابل اعتماد ذریعے کے مطابق یہ جماعت خیبر پختونخوا کے علاوہ کہیں اور حکومت بنانے کا ارادہ نہیں رکھتی ویسے یہاں بھی یہ حکومت بنتی دکھائی دیتی ہے اور نہ چلتی۔ایک بڑا ٔبحران منھ پھاڑے کھڑا ہے جس کی ابتداممکنہ طور پر گورنر راج سے ہو سکتی ہے۔
دکھانے کے لیے پی ٹی آئی پنجاب اور مرکز کی حکومت پر اپنا حق بھی جتاتی رہے گی اور بہ ظاہر نئے حلیف تلاش کرنے کی کوشش بھی کرے گی لیکن یہ ایک ایسی سیاسی سرگرمی ہوگی جو بیانیہ بنانے میں مدد گار ثابت ہو سکے۔ حکومت نہ لینے کی وجوہات دو ہیں۔ اول یہ کہ پی ٹی آئی پارلیمانی قوت کی کمی اور کچھ قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے ایسا کر نہیں سکے گی۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ نہ مشکل فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور نہ وہ پی ڈی ایم کی حکومت کی طرح سے مشکل فیصلوں کا بوجھ اٹھانا چاہتی ہے۔
اگرآزاد ارکان یعنی پی ٹی آئی بھی جن کی تعداد ظاہر ہے کہ زیادہ ہے، وہ بھی اگر حکومت بنانے کا ارادہ نہیں رکھتی تو اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے اپنے بانی کی افتاد طبع اور روایت کے مطابق اپنے مفاد اور سیاسی اثاثے سے زیادہ دل چسپی ہے۔ پاکستان کے مسائل کیا ہیں اور ان سے نمٹا کیسے جاسکتا ہے، یہ اس کا مسئلہ نہیں ہے۔
یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو اُس وقت بھی ثابت ہوئی جب 2018 ء میں بانی پی ٹی آئی نے اقتدار سنبھالا اور اب بھی ثابت ہو رہی ہے جب اس کا دعویٰ ہے کہ آزاد ہونے کے باوجود اس سے وابستہ منتخب ارکان کی تعداد اپنے سب سے بڑے حریف سے زیادہ ہے۔
جب کبھی ایسا ڈیڈ لاک پیدا ہو جائے تو اس سے نمٹنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ نئے انتخابات کا سوچاجائے لیکن پاکستان کی موجودہ صورت حال میں ایسا ممکن نہیں۔ ملک اس وقت جس اقتصادی بحران سے دوچار ہے، اس سے نمٹنے کا واحد طریقہ آئی ایم ایف کا پروگرام ہے۔
آئی ایم ایف کا وہی پروگرام جس میں بانی پی ٹی آئی اپنی حکومت کے زمانے میں چلے تو گئے تھے لیکن جیسے ہی ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی انھوں نے ملک کے فائدے اور نقصان پر توجہ دیے بغیر یہ معاہدہ توڑ کر تیکنیکی اعتبار سے پاکستان کو دیوالیہ کر دیا اور اپنے سیاسی سرمایے کو مضبوط بنا لیا۔
کیا قومی زندگی کے اس مرحلے پر جب ملک بڑی مشکل سے دیوالیہ ہونے کے خطرے سے بچ پایا ہے، ایک بار پھر اسے دیوالیہ پن کے خطرے سے دوچار کر دیا جائے؟ بانی پی ٹی آئی نے تو اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ کیا دوسرے بھی ایسا کر سکتے ہیں؟
مسلم لیگ ن ہو یا اس کے اتحادی ، ان کا ٹریک ریکارڈ یہی ہے وہ ایسا نہیں کر سکتے۔ پاکستان کے ساتھ محبت کا تقاضا انھیں اس راہ پر چلنے سے روکتا ہے لہٰذا تحریک عدم اعتماد کے بعد بھی انھوں اپنے سیاسی اثاثے کی قیمت پر ایسا کیا اور اب بھی وہ قربانی دینے پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔
پاکستان کے عوام ن لیگ اور اس کے اتحادیوں کے اس فیصلے کو کس انداز میں دیکھیں گے اور تاریخ اسے کن الفاظ میں یاد کرے گی؟ وہ اس پیچیدگی میں الجھنے کے بہ جائے ہر چہ بادا باد کہہ کر اس کھائی میں کودنے کو تیار دکھائی دیتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہر سیاسی گروہ کا اپنا ایک فلسفہ ہوتا ہے۔
بانی پی ٹی آئی کا فلسفہ کھیل کے زمانے سے لے کر سیاست کے میدان تک ایک ہی ہے کہ ' سب سے پہلے میں' جب کہ ان کے حریف مشرقی لوگ ہیں اور ان کی اقدار میں کچھ چیزیں اپنی ذات سے بڑھ کر بھی قیمتی ہوتی ہیں۔میاں صاحب یا ان کی جماعت اگر یہ حکومت سنبھالتی ہے تو اس کی وجہ یہ ہوگی۔