واہ کیا جُود و کرم ہے شہہ بطحاؐ تیرا ۔۔۔۔۔
نبی کریمؐ تمام لوگوں میں سب سے بڑھ کر سخی تھے اور رمضان المبارک میں تو بہت ہی سخاوت فرماتے تھے
حضور ﷺ کا حلم و بردباری اور باوجود قدرت کے عفو و کرم اور ناگوار امور پر آپ ﷺ کے صبر فرمانے کے بیان میں، ان دونوں القاب میں باہم فرق ہے۔
کیوں کہ ''حلم'' ایک ایسی حالت کا نام ہے جو اسباب محرکہ یعنی برانگیختہ کرنے والے اسباب کی موجودی میں ثابت و برقرار رہے، اور ''تحمل'' یعنی بردباری ایسی حالت کا نام ہے جو مصائب و آلام کے وقت اپنی جان کو روک لے اور ان کو برداشت کرے اور اسی کے ہم معنی و مطلب ''صبر'' ہے، اور ''عفو'' اس حالت کو کہتے ہیں جو (بدلہ لینے کے وقت) بدلہ کو ترک کردے یعنی معاف کردے، یہ اوصاف ہیں کہ اﷲتعالیٰ نے ان کے ساتھ رسول کریم ﷺ کو متصب کیا۔
اﷲ تعالیٰ کے فرمان کا مفہوم: ''اے محبوب (ﷺ)! معاف کرنا اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو۔'' (سورہ الاعراف) مروی ہے کہ جب یہ آیت حضور نبی کریم ﷺ پر نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے جبریل علیہ السلام سے اس کا مطلب دریافت فرمایا۔ جبریلؑ نے عرض کیا: میں اﷲتعالیٰ سے پوچھ کر عرض کروں گا۔ چناں چہ وہ گئے اور آئے، پھر عرض کیا، مفہوم: اے محمد ﷺ! آپؐ کو اﷲ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ آپؐ اس سے ملیں جو آپؐ کو چھوڑتا ہے اور اس کو عطا فرمائیں جو آپؐ کو محروم رکھتا ہے اور اس کو معاف فرما دیں جو آپؐ پر ظلم کرتا ہے اور یہ ارشاد فرمایا، مفہوم: ''توتم صبر کرو جیسے ہمت والے رسولوں نے صبر کیا۔'' (الاحقاف)
اور فرمایا: ''اور چاہیے کہ معاف کریں اور درگزر کریں۔'' (النور)
ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے: ''اور بے شک جس نے صبر کیا اور بخش دیا تو یہ ضرور ہمت کے کام ہیں۔'' (الشوریٰ)
حضور اکرم ﷺ کا یہ حال ہے کہ کثرت ایذا کے باوجود آپ ﷺ کا صبر ہی بڑھتا اور نافرمانوں کی زیادتیوں پر آپ ﷺ کا حلم ہی زیادہ ہوتا رہتا۔
حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے بالاسناد مروی ہے کہ آپؓ فرماتی ہے کہ جب کبھی حضور ﷺ کو دو باتوں میں سے کسی ایک بات پر اختیار دیا جاتا تو ان میں سے آسان کو پسند فرماتے جب تک گناہ نہ ہو، مگر گناہ کی بات ہوتی تو اس سے لوگوں کی نسبت بہت دور رہتے، آپ ﷺ نے اپنے لیے کبھی انتقام نہ لیا۔ سوائے اس کے کہ وہ حدود الٰہی کی بے حرمتی کرے تب آپ ﷺ اﷲ کی حدود کے لیے بدلہ لیتے۔ (صحیح بخاری )
غزوہ احد میں جب آپ ﷺ کے سامنے کے دندان مبارک شہید ہوئے اور آپ ﷺ کا چہرہ ٔ انور لہولہان ہوگیا۔ یہ بات صحابہ کرامؓ پر سخت گراں گزری۔ سب نے عرض کیا کہ حضور ﷺ ان پر بددعا فرمائیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا: میں لعن کرنے والا نہیں بھیجا گیا لیکن مجھ کو اﷲ کی طرف بلانے والا اور رحمت فرمانے والا بھیجا ہے، اے خدا! میری قوم کو ہدایت دے، وہ مجھ کو نہیں جانتے۔
حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ ﷺ! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں۔ حضرت نو ح علیہ السلام نے اپنی قوم کے لیے یوں دعا کی: ''اے میرے رب! کافروں میں زمین پر کوئی بسنے والا نہ چھوڑ۔'' (الجن)
اگر آپ ﷺ بھی اسی طرح ہم پر بددعا فرماتے تو ہم آخر تک ہلاک ہوجاتے کیوں کہ آپ ﷺ کی کمر دہری کی گئی اور آپ ﷺ کا چہرہ انور زخمی کیا گیا اور آپ ﷺ کے اگلے چاروں دانت شہید کیے گئے۔ باوجود اس کے آپ ﷺ نے کلمۂ خیر کے سوا بددعا سے انکار ہی فرمایا اور ارشاد فرمایا: اے خدا! میری قوم کو معاف فرمادے، یہ ناسمجھ ہیں۔
قاضی ابوالفضل (عیاض) رحمۃُ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ اس ارشاد پر غور کرو کہ اس میں کس قدر فضیل، درجات، احسان، حسن خلق، کرم نفس، غایت صبر اور حلم جمع ہیں۔ کیوں کہ حضور ﷺ نے صرف ان سے سکوت پر ہی اکتفا نہیں کیا بل کہ معاف بھی فرما دیا۔ پھر شفقت و محبت فرماتے ہوئے ان کے لیے دعا اور سفارش بھی فرمائی۔
پس فرمایا: اے خدا! ان کو بخش دے یا فرمایا کہ ان کو ہدایت دے، پھر اس شفقت و رحمت کا سبب بھی بیان فرما دیا کہ لِقَوْمِی کہ یہ میری قوم ہے۔ پھر ان کی عذرخواہی کے طور پران کی جہالت کی وجہ میں فرمایا فَاِنَّھُمْ لَایَعْلَمُوْنَیہ ناسمجھ ہیں۔
جود و کرم اور سخاوت
جود و کرم اور سخاوت میں بھی حضور ﷺ کا کوئی برابر نہ تھا اور نہ کوئی ان میں آپ ﷺ کا معارض جو بھی آپ کو پہچانتا تھا وہ تعریف کرتا تھا۔
جابر بن عبداﷲ رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے بالاسناد مروی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ سے جب کبھی کوئی سوال کرتا تو آپ ''لا'' یعنی نہیں کبھی نہ فرماتے تھے۔ (صحیح بخاری )
حضرت انسؓ اور سہل بن سعدؓ سے بھی ایسا ہی منقول ہے۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ تمام لوگوں میں سب سے بڑھ کر سخی تھے اور رمضان المبارک میں تو بہت ہی سخاوت فرماتے تھے اور جب بھی جبریل علیہ السلام حاضر بارگاہ ہوتے تو آپ تیز ہوا سے زیادہ بھلائی میں سخاوت فرماتے۔ (صحیح بخاری)
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ سے ایک شخص نے سوال کیا تو آپؐ نے دو پہاڑوں کے درمیان کی برابر بکریاں عنایت فرما دیں۔ جب وہ اپنی قوم میں گیا۔ اس نے کہا: مسلمان ہوجاؤ بے شک! محمد ﷺ اتنا دیتے ہیں کہ کبھی فاقہ کا خوف رہتا ہی نہیں۔ (صحیح مسلم)
بہت لوگوں کو آپ ﷺ نے سو اونٹ تک دیے، صفوان کو آپ نے سو دیے پھر سو دیے۔ (صحیح مسلم) یہ اخلاق تو آپؐ کی بعثت سے پہلے تھے، آپ ْﷺ کو ورقہ بن نوفل نے کہا: آپ ﷺ سب دیتے ہیں اور معدوم یعنی اخروی بھلائی کماتے ہیں۔(صحیح بخاری)
آپؐ نے ہوازن کو ان کے قیدی لوٹا دیے، ان کی تعداد چھے ہزار تھی۔ (صحیح بخاری )
آپ ﷺ نے حضرت عباسؓ کو اتنا سونا دیا کہ وہ اس کو اُٹھانے کی طاقت نہ رکھتے تھے۔ (صحیح بخاری) آپؐ کی خدمت میں نوے ہزار درہم آئے، آپؐ اس کو بورے میں رکھ کر کھڑے ہوگئے اور تقسیم کرنا شروع کر دیا، آپ ﷺ نے کسی سائل کو نہ لوٹایا یہاں تک کہ سب کو تقسیم فرما دیے۔ (مناہل الصفاء للسیوطی) اس وقت ایک سائل نے حاضر ہوکر سوال کیا۔ آپؐ نے فرمایا: اب میرے پاس کچھ نہیں، لیکن تم میرے نام پر خرید لو جب میرے پاس آجائیں گے میں ادا کردوں گا۔
انصار میں سے ایک شخص نے کہا: یا رسول اﷲ ﷺ! آپ خرچ کیجیے، عرش کے مالک اﷲ تعالیٰ سے کمی کا خوف نہ کیجیے۔ حضور ﷺ مسکرا دیے اور خوشی کے آثار آپ ﷺ کے چہرۂ انور پر نمودار ہوگئے اور فرمایا: مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے، اس کو ترمذیؒ نے نقل کیا ہے۔
معوذ بن عفرائؓ سے مروی ہے کہ میں حضور ﷺ کی بارگاہ میں ایک طباق کھجور اور ککڑی لایا تو آپؐ نے لَپ بھر کے زیور اور سونا مرحمت فرمایا۔ (سنن ترمذی)
حضور ﷺ کل کے لیے کبھی کوئی چیز جمع کرکے نہ رکھتے تھے ۔ (سنن ترمذی) غرض یہ کہ حضور ﷺ کے جود و کرم کے واقعات بہ کثرت ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے حضور ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر سوال کیا تو اس کو آپ نے نصف وسق یعنی تیس صاع عطا فرمائے، ایک اور شخص نے آکر تقاضا کیا، آپؐ نے اس کوایک وسق یعنی ساٹھ صاع دیے اور فرمایا: نصف تیرے قرض میں اور نصف تم کو بخشش میں۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں اپنے نبی مکرم ﷺ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین