غزہ  کے پونے چھ لاکھ فلسطینیوں سے قحط محض ایک قدم دور ہے اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کے امدادی گروپوں کو غزہ میں رسد پہنچانے میں بڑھتی ہوئی رکاوٹوں کا سامنا ہے، عالمی ادارہ


ویب ڈیسک February 28, 2024
فوٹو؛ فائل

اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں تک امداد پہنچانے میں رکاوٹ بن رہا ہے جس کی وجہ سے غزہ میں پونے چھ لاکھ افراد قحط کا شکار ہونے سے بس ایک قدم دور ہیں۔

عرب میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق اقوام متحدہ کی جانب سے یہ تنبیہ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب گذشتہ روز، غزہ میں خوراک کے حصول کے لیے جمع فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج کی فائرنگ کی ویڈیو فوٹیجز وائرل ہوئی ہیں۔

یہ واضح نہیں کہ ان نہتے فلسطینی شہریوں پر اسرائیلی فوج کی فائرنگ میں کتنے افراد شہید اور زخمی ہوئے تاہم اقوام متحدہ کے حکام نے کہا ہے کہ اسرائیل بڑے ' منظم ' انداز میں امداد کو فلسطینی باشندوں تک پہنچنے سے روک رہا ہے۔

اقوام متحدہ کی انسانی امداد کی ایجنسی ( او سی ایچ اے ) کے ڈپٹی چیف نے غزہ میں فوڈ سیکیورٹی پر ہونے والے سلامتی کونسل کے اجلاس کو بتایا کہ فروری کے اختتام پرغزہ میں پانچ لاکھ 76 ہزار افراد قحط کا شکار ہونے سے محض ایک قدم کے فاصلے پر ہیں۔

اقوام متحدہ کی ایجنسی کے مطابق شمالی غزہ میں دو سال سے کم عمر ہر6 میں سے ایک بچہ خوراک کی شدید کمی کا شکار ہے، اور اگر اس سلسلے میں کچھ نہ کیا گیا تو پھر غزہ میں وسیع پیمانے پر قحط پڑ جانے کا خطرہ ہے جس کے نتیجے میں جنگ کا نشانہ بننے والے ( فلسطینی باشندوں) کی تعداد مزید بڑھ جائے گی۔

عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے امدادی گروپوں کوغزہ میں رسد پہنچانے میں بڑھتی ہوئی رکاوٹوں کا سامنا ہے، ان رکاوٹ میں سڑکوں کی بندش، باہر جانے اور گفت وشنید کرنے پر پابندی، غیرضروری طور پر طویل پروسیجر، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اور زمین پر بکھرا ہوا ' زندہ' گولہ بارود شامل ہے۔

اس کے علاوہ امدادی قافلوں کو بھی اسرائیلی فوج کی جانب سے گولہ باری کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس کی وجہ سے ضرورتمند لوگوں تک امداد پہنچانا ممکن نہیں رہتا، اسرائیل فوج کی جانب سے امدادی کارکنان کو ہراساں بھی کیا جاتا ہے۔

او سی ایچ اے کے مطابق اس نوع کی رکاوٹیں کھڑی کرکے ا سرائیل نے غزہ تک امداد کی ترسیل تقریباً ناممکن بنادی ہے۔

واضح رہے کہ غزہ پر اسرائیلی حملے پانچویں مہینے میں داخل ہوچکے ہیں، ان حملوں میں کم از کم 29878 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں سے بیشتر بچے اور عورتیں ہیں۔

 

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں