منتخب کلام ثروت حسین
ان کی شاعری میں جذبے، احساس، فکراور فن کا ایسا سادہ اورفطری انضمام ہے کہ دل بے اختیار ہل من مزید کا نعرہ بلند کرتا ہے
محمد فیصل نے ثروت حسین کا منتخب کلام مرتب کیا ہے۔ ثروت حسین وہ شاعر ہیں جن کو موجودہ شعری منظر نامے میں ایک اونچا اور منفرد مقام حاصل ہے۔
انھوں نے عام ڈگر سے ہٹ کر مگر غزل کے مروجہ لوازمات سے بھر پور شاعری کی، غزلوں اور نظموں کے ساتھ ساتھ انھوں نے پنجابی اور سندھی زبان کے الفاظ کو اپنی شاعری میں ایسے سمویا کہ اردو زبان کا دامن مزید وسیع ہوگیا۔ ان کی شاعری کا مجموعی منظر نامہ ایک وجدانی کیفیت سے لبریز ہے۔
ڈاکٹر انعام الحق جاوید کہتے ہیں کہ بلاشبہ ثروت ان شعراء میں سے ہیں جن کی شاعری ایک الگ پہچان رکھتی ہے۔ ثروت حسین کے کلام سے انتخاب مرتب کرنے والے محمد فیصل اپنے پیش لفظ میں لکھتے ہیں ۔ شاعری آوازوں کا ایک جنگل ہے۔ بیشتر آوازیں تقلیدی اور ایک جیسی ہیں۔ بعض بظاہر نئی ، بعض انوکھی اور بعض محض کھردری ہیں۔ بہت کم آوازیں ایسی ہیں جو اپنے اندر نیا اور انوکھاپن، معنویت اور تاثیر رکھتی ہیں۔ ثروت حسین کی شاعری انھی معدودے چند آوازوں میں سے ہے جو منفرد، مختلف ، معتبر اور توانا ہے۔
'' ثروت حسین اپنے ہم عصروں میں ایک نادر'' اسلوب کے حامل ہیں۔ ان کی شاعری میں جذبے، احساس، فکر اور فن کا ایسا سادہ اور فطری انضمام ہے کہ دل بے اختیار ہل من مزید کا نعرہ بلند کرتا ہے۔ ثروت حسین نے اپنے مشاہدے کی ندرت اور موضوعات کے تنوع کے آمیزے سے ایک ایسی فکری فضا قائم کر دی ہے جو اپنے اندر ایک عجیب سی دلکشی رکھتی ہے، یہی دلکشی ثروت کی شاعری کی انفرادیت کی مظہر ہے اور انھیں دوسرے شعراء سے ممتاز بناتی ہے۔
ان کی غزلوں کی آنچ اور نظموں کی فکری فضا میں ایک شعری غنائیت مضمر ہے جو انھیں آج بھی ایک اہم شاعر تسلیم کروانے پر مجبورکرتی ہے اپنے اسلوب اور جداگانہ طرز سے لوگوں کو چونکا دینے والے ثروت نے مختصر مگر بامعنی زندگی گزاری اور ایک فسوں آمیز تاثر چھوڑگئے۔''
ثروت حسین بہترین غزل گو شاعر تھے لاجواب نظم لکھتے تھے۔ نثری نظم کو انھوں نے ایک نئے آہنگ اور انداز سے نوازا ۔ انھوں نے وائیوں، کافیوں اور بیت اورکئی دوسری مقامی زبانوں کی اصناف سخن کو اردو شاعری کا حصہ بنایا۔ ثروت حسین نے حکایتیں اور افسانے بھی لکھے۔
اسد محمد خان لکھتے ہیں کہ ثروت حسین کو پاکستان اور اس کی زبانوں سے محبت تھی۔ مثلاً انھوں نے پنجابی میں کافیاں اور سندھی میں وائیاں لکھیں۔ میرا خیال ہے کہ اگر ان کو صوبہ سرحد جانے کا اتفاق ہوتا تو وہ پشتو ضرور سیکھتے وہ شاعری صرف اس لیے کرتے تھے کہ وہ اس کو گانا چاہتے تھے جیسے بلبل کیوں بولتی ہے، چڑیاں کیوں چہچہاتی ہیں۔ وہ شاعری اس لیے کرتے تھے کہ وہ شاعر تھے اور بہت اچھے شاعر۔
سہیل احمد خان لکھتے ہیں'' ثروت حسین کا تعلق اس شعری دائرے سے ہے جہاں چھوٹی چھوٹی تصویریں کسی وضاحتی طوالت کے بغیر اپنے اندر احساساتی اشاریت کو سمیٹ لیتی ہیں۔ ایسی شاعری کی تفہیم کے لیے شاعر کی مخصوص زبان، اس کے رویہ کی وحدت اور اس کی تمثالوں کے جھرمٹ کی بدلتی رنگا رنگ کیفیتوں کو دھیان میں رکھنا پڑتا ہے۔''
شاعر اور نقاد قمر جمیل لکھتے ہیں۔ ''ہمارا آج کا شاعر ثروت حسین بھی اپنے فطری احساسات اور تجربوں سے اپنی روح کے دکھ لکھ لکھ کر اپنی روح پر فتح پاتا ہے وہ اپنے خوب صورت لفظ وجدانی طور پر منتخب کرتا ہے اس کے نغمے آنسوؤں سے نہیں اس کی روح سے جنم لیتے ہیں۔ اس کے ہاں وجود کے ہزاروں دروازے ہیں اور ہر دروازے میں آنکھیں۔''
اب کچھ غزلوں کے اشعار۔
یک بہ یک کیسے بدلنے لگے منظر دیکھو
اک ذرا گرمئی رفتار آجانے سے
وہی محفل ہے مگر ہوگئی کیسی بے رنگ
بیچ میں حرف دل آزار کے آجانے سے
کہاں رکتی ہے میری مہک پھولوں کی
راستے میں کسی دیوار کے آجانے سے
......
دشت لے جائے کہ گھر لے جائے
تیری آواز جدھر لے جائے
......
آنکھوں میں دمک اٹھی ہے تصویر دربام
یہ کون گیا میرے برابر سے نکل کر
......
روشن ہے مری عمر کے تاریک چمن میں
اس کنج ملاقات میں جو وقت گزارا
بھرجائیں گے جب زخم تو آؤں گا دوبارا
میں ہارگیا جنگ مگر دل نہیں ہارا
......
حکم آوارگی بجا لایا
راہر رو تھا صدائے پالایا
برگ بے اختیار تھا میں بھی
ایک سمندر مجھے بہا لایا
دامن دل میں اورکیا لاتا
آگ تھی، آگ ہی لگا لایا
......
خوابوں کی وہ رت گزرگئی کیا
یہ رات بھی بے ثمر گئی کیا
ہمراہ چلی تھی کوئی خوشبو
رستے میں کہیں ٹھہرگئی کیا
......
آدھا پیڑ خزاں کی زد میں جس پر پھول نہ پات
آدھے سیارے پر سورج، آدھے پر برسات
اچھی فصل ہوئی ہے اب کے، مالک کا احسان
اس آنگن میں آؤ ساتھی مل کر کوٹیں دھان
......
سنو کہ برف پگھلنے کی صبح آ پہنچی
خبر شمال کی بادِ شمال دیتی ہے
بہار اب بھی گزرتی ہے اس چمن سے مگر
ہمیں تو وعدۂ فردا پہ ٹال دیتی ہے
چہرہ تھا کوئی جس نے پریشان رکھا مجھے
لمحہ تھا کوئی جس کے لیے در بدر گیا
کس طرح سے کٹے کی سفر کی سیاہ رات
ثروت اسی خیال میں دل بھی گزرگیا
......
کھلتا نہیں بھید روشنی کا
جلتا ہے کہیں قریب کچھ
نظروں کو اٹھاؤ مجھ کو دیکھو
تم بھی تو کہو اے ہم نشیں کچھ