مجھے آج تک دادو سندھ کی وہ ماں یاد ہے جس کی عمر بمشکل پندرہ سولہ سال ہوگی۔ اس کا بیٹا اس کی گود میں بے قراری سے رو رہا تھا۔ ماں سے بیٹا سنبھالا جارہا تھا نہ ہی خود اپنا آپ۔ گلابی روایتی لباس میں وہ بچی سمجھ نہیں پارہی تھی کہ وہ کیسے اپنے چند ماہ کے بچےکو چپ کرائے۔
آنگن میں ایک طرف ایک بین الاقوامی ڈونر اپنے پروجیکٹ کے بارے میں بتارہا تھا کہ کیسے اس خاندان کو مشین لگا کر دی گئی ہے، جس کے بعد سے اس گھرانے کے معاشی حالات بہتر ہوتے جائیں گے۔ میرے ہاتھ میں کیمرہ تھا، تصاویر لیتے ہوئے میں خواتین کے حصے کی طرف آگئی۔ لیکن مجھے بچے کی رونے کی آواز نے اپنی طرف متوجہ کرلیا۔
ماں کے مطابق بچہ بھوک کی وجہ سے بلبلا رہا تھا۔ میں سمجھی یہ بچی اپنے بچے کو دودھ پلانا چاہتی ہے اور شاید میری وجہ سے شرما رہی ہے۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے میں دوسری طرف منہ کرلیتی ہوں اسے دودھ پلا لو۔ لیکن ماں کے آنکھوں میں آنسو تھے کہ چھاتی میں دودھ ہی نہیں بچہ کو کیا پلائے۔ میں نے پوچھا کسی ڈاکٹر یا مڈوائف کو بتایا؟ اس نے کہا کہ ڈاکٹر یا اس طرح کا کوئی تصور نہیں، بچہ بھی گھر پر ہی ہوا تھا۔ جب کھانے کو ہی کچھ نہیں تو دودھ کیسے اترے گا۔
مجھے جب چائلڈ میرج پر کچھ لکھنے کا خیال آتا ہے تو مجھے دو بچیاں لازمی یاد آجاتی ہیں، ایک کم سن ماں جو اپنے بیٹے کو ہنستے ہوئے اچھال رہی تھی کیونکہ وہ تین بہنوں کے بعد اس دنیا میں آیا تھا۔ دوسری وہ ماں جو بچے کی بھوک سے بےقرار تھی۔ ان کو دیکھ کر پہلا خیال یہ ہی آیا تھا کہ ہم بچیوں کو مائیں کیوں بنا دیتے ہیں؟
ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان جنوبی ایشیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں کم عمری کی شادیاں عام ہیں۔ یونیسیف کے ڈیٹا کے مطابق کم عمری کی شادیاں سب سے زیادہ بنگلہ دیش میں 51 فیصد، جبکہ سب سے کم مالدیپ میں 2 فیصد ہیں۔ افغانستان میں 28 اور انڈیا 27 فیصد کے ساتھ ہے۔ لیکن پاکستان میں یہ نمبر 18 فیصد ہے۔
یونیسیف کا ڈیٹا یہ بھی کہتا ہے کہ پاکستان میں 15 سال سے کم عمر بچوں بچیوں کی شادیاں کردی جاتی ہیں، جس کی شرح لڑکوں میں 2 فیصد جبکہ لڑکیوں میں یہ تناسب 3.6 فیصد تک چلا جاتا ہے۔ اسی طرح 18 سال سے کم عمر بچیاں 18.3 فیصد اور 4.7 کم عمر لڑکوں کا نکاح پڑھا دیا جاتا ہے۔ یہ سب اعداد و شمار یہاں لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ اندازہ ہوسکے ہمارے ہاں کم عمری کی شادیاں کس کم سنی میں کردی جاتی ہیں۔
یونیسیف کے ڈیٹا کے مطابق اچھی بات یہ ہے کہ سندھ میں 2014 اور 2019 کے کم سنی کی شادی کے اعداد و شمار میں واضح فرق ہے۔ سب سے بڑا فرق ٹندو محمد خان میں آیا ہے، جہاں نمبر 48 سے گر کر 14 پر پہنچ گیا ہے۔ اس کے بعد لاڑکانہ جہاں یہ تعداد 37 سے گر کر 21 تک پہنچ گئی۔ اعداد وشمار سے یہ رجحان بھی معلوم ہوا کہ کچھ جگہوں پر صرف چند نمبروں کا فرق آیا ہے، جیسے کراچی ایسٹ میں نمبر 22 سے گر کر 21 پر چلا گیا اور ڈسٹرک سینٹرل میں کم سنی کی شادی 14 سے کم ہوکر 13 ریکارڈ کی گئی۔ اسی طرح جیکب آباد اور سانگھڑ میں بھی ایک نمبر کا فرق آیا ہے۔
کبھی ہم نے سوچا کہ پاکستان میں چائلڈ میرج کی سب سے بڑی وجہ کیا ہے۔ آئیے بنیادی باتوں کا جائزہ لیتے ہیں کہ وہ کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے ہمارے ہاں چائلڈ میرج یا کم سنی کی شادی رائج ہے۔ تعلیم کی کمی، معاشی صورت حال اور بیٹی کو ایک بوجھ سمجھنے کی سوچ نے اس مسئلے کو بڑا بنا دیا ہے۔ لیکن اگر لازمی تعلیم کو رائج کردیا جائے تو یقیناً دیگر عوامل بھی بہتر ہوں گے۔
محکمہ شماریات کی آخری مردم شماری 2020 کے مطابق پاکستان میں 1،115،687 شادی شدہ بچیاں تھیں، جبکہ لڑکوں میں یہ تعداد 301،741 ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 5254 کم عمر لڑکوں اور 21،654 لڑکیوں کے نکاح پڑھا دیے گئے تھے۔ اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آج یہ صورت حال کس سمت میں جا چکی ہوگی۔ یعنی کووڈ، سیلاب اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے جو معاشی بحران آیا، جس میں والدین کو پہلا خیال یہ آیا ہوگا کہ وہ اپنی کم سن بچیوں کی شادی کرکے اپنے اپنے کندھوں کا بوجھ اتار پھینکیں۔
جہاں تک میرا مشاہدہ ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم کی کمی ہے۔ جس کا اثر پاکستان کے ہر خاندان پر پڑتا ہے۔ چاہے اس کی رہائش کسی شہر میں ہے یا پھر وہ کسی گاؤں کا رہائشی ہے۔ ہم نے چائلڈ میرج کی روک تھام کےلیے بہتر قانون سازی کی ہے لیکن ہم اپنی بچیوں کو بنیادی تعلیم نہیں دے پاتے۔ آئین کے آرٹیکل 25 A کی رو سے ہر پاکستانی بچے کو 16 سال تک مفت بنیادی تعلیم مہیا کرنا حکومت پاکستان کی ذمے داری ہے۔
بنیادی تعلیم کا حق تو ہر پاکستانی کو 2010 میں دے دیا گیا تھا لیکن حکومت نے اپنی ذمے داری احسن طریقے سے ادا نہیں کی۔ شہریوں تک تعلیم پہنچانے کی لگن کا احوال تو محکمہ شماریات مردم شماری 2020 کی رپورٹ بتادیتی ہے کہ صرف 69.1 لڑکے جبکہ 53.44 لڑکیاں اسکول جاتی ہیں، جبکہ 17.84 لڑکے اور 15.38 لڑکیاں پرائمری سے آگے نہیں پڑھ سکے۔ سوچیے 2020 میں بھی ہماری آبادی کا صرف 2.35 لڑکے اور 2 فیصد لڑکیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ہر والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے پڑھیں اور اعلیٰ مقام حاصل کریں، لیکن اعداد و شمار تو کوئی اور ہی کہانی سنا رہے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے کہ ہم تعلیم پر ایسی توجہ نہیں دیتے جیسی دینی چاہیے۔ پہلی اور سادہ وجہ تو حکومت کا متعین کردہ تعلیم کا بجٹ 3.55 ہے، جو حکومت کی تعلیم کی طرف سنجیدگی کی نشاندہی کررہا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ نوجوانوں کی تعداد ہمارے پاس دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اگر ہمارے بچے تعلیم سے بہرہ مند ہوجائیں گے تو وہ جس شعبہ زندگی میں بھی ہوں، بہتر سوچ اور عمل سے اپنی زندگیوں کو آگے بڑھائیں گے۔ سوچ سمجھ کر فیصلے کریں گے۔ کیونکہ سوچ اور خیالات میں تبدیلی ایک دم نہیں آتی۔ ہم اگر چاہتے ہیں کہ ہمارے ہاں سے کم عمر مزدور اور کم سنی کی شادیوں جیسے معاشرتی اور سماجی مسائل ختم ہوں تو ہمیں بہتر قانون سازی کے ساتھ مسلسل ان پہلوؤں پر بات کرنا ہوگی۔
اگر آپ کے بچے، خاص کر بچیاں بنیادی تعلیم یعنی میٹرک یا انٹر کرلیتی ہیں تو ان کی پوری زندگی بہتر کی جاسکتی ہے۔ وہ نا صرف بہتر مائیں بنیں گی بلکہ بچوں کی بہتر پرورش بھی کرسکیں گی۔ تعلیم سے معاشرے میں صرف کم سنی کی شادی ہی نہیں روکی جاسکتی بلکہ سوچ اور خیالات بہتر سمت میں ڈالے جاسکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔