اجتماعی پاگل پن

 پاکستان میں ہجوم کے ہاتھوں ہلاکتوں کی تاریخ


Mahnaz Rehman April 14, 2024
پاکستان میں ہجوم کے ہاتھوں ہلاکتوں کی تاریخ ۔ فوٹو : فائل

انسانی تہذیب اکیسویں صدی میں داخل ہوچکی ہے، جینیاتی سائنس، کمپیوٹر سائنس اور دیگر شعبوں میں حیرت انگیز ترقی ہوئی ہے لیکن سماجی رویوں کے حوالے سے آج بھی ایسے واقعات دیکھنے میں آتے ہیں کہ دور جہالت کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔

ہجوم کے ہاتھوں ہلاکتوں کا شمار بھی ایسے ہی واقعات میں ہوتا ہے۔ ہندوستان میں اس کے لیے ایک صاحب نے ''بھیڑ ہتھیا'' کی اصطلاح وضع کی ہے۔ مودی حکومت کے عہد میں ایسے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ تاریخی طور پر یہ واقعات دنیا بھر میں پیش آتے رہے ہیں۔

امریکا کے لا کالجز کے نصاب میں 1906۔1907 کے ایک مقدمے کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے۔ جب ایک سفید فام لڑکی کے ریپ کے الزام میں گرفتار تھانے میں بند سیاہ فام ملزم کو تھانے کے باہر جمع ہو جانے والے ہجوم نے تھانے میں گھس کے مار دیا تھا۔ افریقی ممالک میں چھو ٹے موٹے چوروں کو بھی پتھر مارے جاتے ہیں اور ڈاکوؤں کو مار مار کر ہلاک کر دیا جاتا ہے، کیوںکہ بہت سے افریقی ممالک میں عوام کو پولیس پر بھروسا نہیں ہے۔

2016 میں ایک جرمن رپورٹر کینیا کے ایک ساحلی علاقے کی رپورٹ بنا کر جا رہا تھا کہ اچانک ایک راہ گیر سامنے آگیا، اس نے گاڑی موڑ کر اسے بچانے کی کوشش کی لیکن پھر بھی اس کے پیر پر چوٹ آ گئی اور ایک دم ہجوم اکٹھا ہوگیا۔

اسے گھسیٹ کر گاڑی سے باہر نکالا گیا اور مار پیٹ شروع کردی۔ اس کا سارا سامان لوٹ لیا گیا اور اس سے پہلے کہ اسے جان سے مار دیا جاتا، ایک پولیس کار وہاں سے گزری اور یوں اس کی جان بچ گئی۔ کینیا کے دارالحکومت ممباسا اور آس پاس کے علاقوں میں قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کے واقعات عام ہیں۔

ماورائے عدالت ہلاکتوں کے واقعات دنیا بھر میں رونما ہوتے ہیں۔ یہ عوام کے غم و غصہ ، فرسٹریشن اور پولیس اور نظام انصاف پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔ کبھی جھوٹا الزام لگا کر اور کبھی نسلی تعصب کی وجہ سے بھی لوگوں کو سرعام مار دیا جاتا ہے۔ 2015 میں بنگلادیش میں ایک تیرہ سالہ بچے کو مارمار کر ہلاک کردیا گیا، اس پر سائیکل چرانے کا الزام تھا۔

فروری 2017 میں افغانستان کے شہر واما میں تھانے میں بند پسند کی شادی کے لیے گھر سے بھاگنے والے نوعمر جوڑے کو مسلح ہجوم نے تھانے میں گھس کر مار دیا۔ 2017 کی الی نوائے یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق امریکا کے جنوب میں گذشتہ دو دہائیوں میں ماورائے قانون تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کی وجوہات اقتصادی اور ثقافتی بھی ہیں۔ کچھ ماہرین سماجیات ان مقامی واقعات کو عالمی سیاق و سباق میں بھی دیکھتے ہیں۔

مغرب میں ایشیا مخالف تشدد کی تاریخ بڑی خون ریز ہے۔2021۔ میں امریکی تاریخ کی سب سے بڑی خوں ریزی کی 150 ویں سال گرہ منائی گئی۔ یہ واقعہ 24 اکتوبر 1871 کو لاس اینجلس میں پیش آیا تھا، جب 500 لوگوں کا مشتعل ہجوم شہر کے چینی آبادی والے علاقے میں داخل ہوا، کچھ کو گولیاں ماریں، کچھ پر چاقو سے وار کیے اور اور عارضی پھانسی گھاٹ بنا کر کچھ کو پھانسی دے دی گئی۔ رات گئے تک لاس اینجلس کی گلیوں میں 19 لاشیں بکھری ہوئی تھیں نسل کی بنا پر نفرت صرف فریقی امریکیوں تک محدود نہیں تھی بلکہ چینی تارکین وطن بھی اس کا نشانہ بنتے تھے۔

انیسویں صدی میں امریکا میں ایشیائی باشندوں کے خلاف نفرت کی لہر چل رہی تھی اور تشدد کے واقعات عام تھے۔ اس زمانے میں اس طرح کے واقعات امریکا میں اتنے عام تھے کہ لوگ سمجھتے تھے کہ یہ ایک امریکی جرم ہے۔ اس کے لیے ''لنچنگ'' Lynching کی اصطلاح امریکا میں ہی وضع کی گئی تھی۔ لیکن یہ ایک ایسا جرم ہے جو دنیا بھر میں ہوتا رہا ہے اور آج بھی ہوتا ہے۔

پاکستان میں لوگوں کو قانون کو ہاتھ میں لینے اور عدالتوں میں ملزم کو پیش کرنے کی بجائے ہجوم کی صورت میں اسے جان سے مار دینے کے واقعات کافی بڑی میں ہوتے رہے ہیں۔ Foreign affairs insights and review کی تحقیق کے مطابق پاکستان میں مذہب کے نام پر لوگوں پر تشدد کرنا ایک عام سی بات ہے۔ گو کہ توہین مذہب کے قانون کے تحت ابھی تک کسی کو پھانسی نہیں ہوئی ہے لیکن 1990 سے 2023 کے دوران ستر70 سے زیادہ افراد توہین مذہب کے الزام میں ہجوم کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔

سب سے زیادہ ہائی پروفائل کیس سری لنکا کے شہری پری یانتھا کمارا کا ہے جو سیالکوٹ کی ایک گارمنٹ فیکٹری میں مینجر تھا اور 3 دسمبر 2021 کو اس پر توہین مذہب کا الزام لگا کر مار دیا گیا اور پھر سڑک پر اس کی لاش کو آگ لگا دی گئی۔ اس واقعے کی بدولت دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی بحران پیدا ہو گیا اور دنیا بھر میں غم و غصہ کا اظہار کیا گیا تھا۔ چناںچہ بڑے پیمانے پر تحقیقات کے نتیجے میں 89 لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور بالآخر ان میں سے چھے کو موت کی سزا سنائی گئی۔ اس سے پہلے 13 اپریل 2017 کو مشعال خان کا واقعہ پیش آیا تھا۔

مشعال مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں شعبۂ صحافت کا طالب علم تھا۔ اسے طلبہ کے ایک گروہ نے وحشیانہ تشدد کرکے قتل کردیا تھا۔ یہ واقعہ بھی اپنی ظالمانہ نوعیت کی وجہ سے دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنا۔ مشعال اپنے ترقی پسند نظریات کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔ اس کیس میں 61 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ان میں سے ایک کو سزائے موت، سات کو عمرقید اور پچیس کو چار سال قید کی سزا سنائی گئی جب کہ 26 کو چھوڑ دیا گیا۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نومبر 2014 میں لاہور کے قریب کوٹ رادھا کشن میں ایک مسیحی جوڑے کو ایک ہجوم نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔

اس واقعے نے پاکستانیوں اور باقی دنیا کو ہلا کے رکھ دیا۔ ایک قابل مذمت اور دل دہلا دینے والا واقعہ ہونے کے باوجود پاکستان میں یہ کوئی حیران کن واقعہ نہیں تھا۔ مارا جانے والا جوڑا شمع اور شہزاد تین بچوں کے والدین تھے اور شمع کو چار مہینے کا حمل تھا۔ بعد میں ہجوم نے ان کی لاشوں کو اینٹوں کے بھٹے میں پھینک کر جلا دیا تھا۔

دونوں میاں بیوی اسی بھٹے پر بانڈڈ لیبر کے طور پر کام کرتے تھے۔ پاکستان اور بنگلادیش لوگوں کے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے اور ہجوم کے تشدد کی وجہ سے بدنام ہیں۔ پاکستان میں کرسچن، ہندو اور دیگر اقلیتیں اپنے پڑوسیوں سے خوف زدہ رہتی ہیں، کیوںکہ توہین مذہب کے الزام میں عدالت نہیں تو ہجوم ضرور انہیں موت کی سزا دے سکتا ہے۔

سعودی عرب میں سیکڑوں لوگوں کی موجودگی میں مجرم کا سر تن سے جدا کیا جاتا ہے۔ ایران میں سرعام پھانسی دی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں پھانسی کی سزا سب سے زیادہ چین میں اور اس کے بعد ایران اور سعودی عرب میں دی جاتی ہے، جب کہ ضیاء الحق کے دور میں سیاسی کارکنوں کو سرعام اور صحافیوں کو جیل میں کوڑے لگائے گئے۔



اس طرح کی سزائیں پورے معاشرے کو تشدد پر آمادہ کرتی ہیں۔ NUST کے پی ایچ ڈی اسکالر خورشید علی سنگے نے ہجوم کے ہاتھوں قتل پر تحقیق کے لیے 2014 سے 2017 تک کے انگریزی اخبارات کا جائزہ لیا تو ہجوم کے ہاتھوں قتل کے 22 واقعات سامنے آئے۔ پنجاب میں سات، اربن سندھ، کراچی اور حیدرآباد میں 11، دیہی سندھ میں صفر، کے پی کے میں تین اور بلوچستان میں ایک واقعہ پیش آیا۔

اس میں زخمی ہونے والے یا پولیس کی بروقت مدد سے بچ جانے والے شامل نہیں ہیں۔ ان کی تحقیق کے مطابق ہجوم کے ہاتھوں قتل تین صورتوں میں ہوتا ہے یا تو کوئی چور ی کرکے یا پرس یا کوئی اور قیمتی چیز چھین کر بھاگنے والا یا اغواکار ہجوم کے ہتھے چڑھ جاتا ہے یا ہجوم کسی شخص کے بارے میں توہین مذہب کا الزام سن کر مشتعل ہوکر اسے مار ڈالتا ہے یا جنسی زیادتی کے الزام پر کسی کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

پہلی وجہ کی بنا پر اس عرصے میں 15 لوگوں کو ہلاک کیا گیا۔ مذہبی وجوہات کی بنا پر 5 کیسز سامنے آئے، جب کہ صنفی اور جنسی حوالے سے دو کیسز سامنے آئے۔ پنجاب میں مذہبی بنیادوں پر مارے جانے کے سب سے زیادہ واقعات کرسچن کمیونٹی اور اس کے بعد قادیانیوں کے ساتھ پیش آئے۔ بعض مرتبہ مسلمانوں پر بھی توہین مذہب کا الزام لگا کر مار دیا جاتا ہے۔ اربن سندھ میں چوری یا موٹر سائیکل وغیرہ چھین کر بھاگنے والوں کو مار دیا جاتا ہے۔

بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف ایمسٹرڈیم نیدرلینڈ کے ایم آصف، ڈی وینک اور پیٹر میسینی کی تحقیق کے مطابق مشعال خان اور کوٹ رادھا کشن کے شمع اور شہزاد جن کے کیسز کا اوپر ذکر ہو چکا ہے، کے علاوہ مارچ 2015 میں یوحنا باد میں کرسچن چرچز پر بم حملوں کے الزام میں ہجوم نے بابر نعمان، اور حافظ نعیم کو مار کے جلا دیا۔ جولائی 2012 میں ضلع بہاولپور کے چانی گوٹ ٹاؤن میں غلام عباس کو قرآن پاک کی بے حرمتی کے الزام میں ہجوم نے جلا دیا۔

اگست 2010 میں سیالکوٹ میں دو بھائیوں مغیث اور منیب کو ہجوم نے ڈکیتی کے الزام میں مار ڈالا۔ اپریل 2017 میں چترال کی شاہی مسجد میں نماز جمعہ کے دوران ایک شخص پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا لیکن امام نے اسے ہجوم سے بچا کر پولیس کے حوالے کر دیا۔ مارچ 2013 میں لاہور میں بادامی باغ میں ایک کرسچن ساون مسیح پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا۔ اسے بھی پولیس نے بچا لیا لیکن مشتعل ہجوم نے کرسچن کمیونٹی اور وہاں کے رہائشیوں پر حملے کیے۔

رائٹر کے مبشر بخاری کے مطابق فروری 2023 میں ننکانہ صاحب میں محمد وارث نامی ایک نوجوان پر ہجوم نے قرآن مجید کی بے حرمتی کے الزام میں حملہ کردیا، لیکن پولیس نے اسے بچا کر تھانے میں بند کردیا مگر ہجوم نے تھانے پر حملہ کر دیا اور اسے باہر لا کر مارنے کے بعد اس کی لاش کو جلانے کی کوشش کی۔

جب تک پولیس کی مزید نفری وہاں پہنچ گئی اور ہجوم لاش کو جلا نہیں پایا۔ 6 مئی 2023 کو ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی کے مطابق پاکستان کے شمال مغربی حصے میں ایک مشتعل ہجوم نے ایک مقامی مولوی پر ایک سیاسی ریلی میں توہین مذہب کے الزام میں حملہ کر دیا۔ اور اسے جان سے مار دیا۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق 2014 میں ایک مشتعل ہجوم نے گوجرانوالہ میں احمدیوں کے گھروں پر حملہ کر دیا۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ جھگڑے کی ابتدا کرکٹ کے کھیل سے ہوئی لیکن جھگڑا بڑھا تو ایک نوعمر احمدی لڑکے پر توہین مذہب کا الزام لگا دیا گیا اور سیکڑوں کے ہجوم نے احمدیوں کے ایک درجن سے زیادہ گھروں کو آگ لگا دی۔ تین بچیاں اور ان کی دادی جل کر مر گئیں۔

توہین مذہب کے الزام می ہجوم کے ہاتھوں مارے جانے کے معاملے میں صرف ایک ملک پاکستان سے آگے ہے اور وہ ہے نائیجیریا۔ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے قانونی اور پالیسی اقدامات کرنے ہوں گے۔ ایسے الزامات کی موثر اور شفاف طریقے سے تحقیقات کی جائے اور جھوٹا الزام لگانے والے اور ملزم کو جان سے مار دینے والوں کو قانون کے مطابق سخت سزائیں دی جائیں۔

ہجوم کے ہاتھوں قتل کے خلاف قوانین
ہجوم کے ہاتھوں ہلاکتوں کے خلاف پہلا قانون امریکا میں 1918 میں بنا۔ کانگرس میں یہ بل ری پبلکن پارٹی کے لیونیڈائس ڈائر نے متعارف کروایا تھا۔ وہ ایک ترقی پسند شخص تھا۔ وہ سفید فام تھا مگر جس ضلع سے منتخب ہوا تھا وہاں افریقی امریکیوں کی اکثریت تھی۔

1955 میں میسسپی میں ایک چودہ سالہ بچے کی ہجوم کے ہاتھوں ہلاکت کے 65 سال بعد ایسی ہلاکتوں کے خلاف فیڈرل بل 2020 میں بنا۔ اس بچے کا نام ایمٹ ٹل تھا۔ چناںچہ اس قانون کا نام بھی اس بچے کے نام پر رکھا گیا۔ وفاقی قانون کے تحت Lynching کو ہیٹ کرائم یا نفرت پر مبنی جرم قرار دیا گیا ہے۔ اس قانون کی شکل میں ٹل اور اس جیسے چار ہزار متاثرین کو بعد از مرگ انصاف دلانے کی کوشش کی گئی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں