خواتین کی حیثیت بھی مرکزی ہے
صنف نازک کے حوالے سے فرسودہ تصورات اور دقیانوسی خیالات اب بھی غالب ہیں
کسی بھی قوم کی ترقی اور فلاح و بہبود میں خواتین کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ وہ اپنی صلاحیتوں کو منوانے کا ایک خاص ہنر رکھتی ہیں۔ ان کی مستقل مزاجی اور اپنے جذبے سے محبت ہی ان کے لیے کام یابی کا زینہ ثابت ہوتی ہے۔
وہ کائنات کی رعنائی سے مزین ایک خوب صورت تصویر کی طرح ہیں، ان کا چٹان جیسا حوصلہ اس کے ارادوں کی تکمیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ وہ ڈٹ جائے، تو اس کی بہادری کے تمغے اس کو عقیدت سے سلام کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔
خواتین ہر رنگ میں ان مول ہیں، بیٹی ہے تو رحمت، بیوی ہے تو ہم سفر، ماں ہے تو جنت کا منظر اور بہن کے روپ میں خوش بو کا دریچہ ہے۔
اگرچہ پاکستان میں خواتین کے مسائل کے حوالے سے خاطر خواہ بہتری ہوئی ہے اور بہت سے شعبوں میں عورتوں نے اپنا مقام مضبوط بنایا ہے۔ انھوں نے اپنی ذہانت کا لوہا منوا یا ہے، لیکن پاکستانی معاشرہ مردانہ بالادستی کے اصول وضوابط پرا ب بھی قائم ہے۔ خاص طور پر دیہی علاقوں میں خواتین ویسے ہی بے بس اور مجبور دکھائی دیتی ہیں، جیسے ماضی کے پس ماندہ دور میں ہوتی تھیں۔
وہ سارا دن محنت کی چکی پیستی ہیں، لیکن اس کے بدلے میں ان کو صرف طعنے تشنے اور عورت ہونے کا طعنہ ہی ملتا ہے، انھیں بارہا یاد کرایا جاتا ہے کہ وہ فقط شوہر کو صرف حاکم ہی تصور کرے اور اس سے کسی بھی طرح کی ہمدردی کی کوئی امید نہ رکھے۔
چھوٹی عمر سے وہ کھیتوں میں کام کرنا شروع کرتی ہے اور بڑھاپے تک اس کو اپنی ایڑیاں وہیں پر رگڑنا پڑتی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے ہم ابھی تک زمانۂ جاہلیت ہی میں جی رہے ہیں، آج بھی زیادہ تر افراد کی سوچ یہی ہے کہ بچیوں کو پڑھ لکھ کر کیا کرنا ہے؟ بس ہانڈی چولھا ہی تو جھونکنا ہوتا ہے تو کیوں کر ان پر پیسہ خرچ کیا جائے اور انھیں کیوں تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جائے؟
یہ بات ذہن میں بٹھا لی گئی ہے کہ عورت کوئی جیتا جاگتا وجود نہیں، اس کی کوئی زندگی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ تازہ فضا میں سانس لینا، اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا، اپنے مستقبل کے لیے اچھا فیصلہ کرنا شجر ممنوعہ بنا دیے گئے کہ جس پر عدالت لگائی جائے اور عورت کو قصور وار ٹھہرا کر فرد جرم سنا دی جائے۔ یہ فرسودہ اور متعصبانہ خیالات ایک ناسور کی طرح ہمارے معاشرے میں خواتین کی ترقی رکاوٹ کا سبب بن رہے ہیں۔
گھریلو حالات، غربت و افلاس کے ہاتھوں تنگ جب وہ روزگار کی تلاش میں باہر نکلتی ہے تو اس پر نہ صرف الزامات کی بوچھاڑ کی جاتی ہے، بلکہ جنسی طور پر ہراساں بھی کیا جاتا ہے۔ سیمینار، تقاریب اور کانفرنسوں کا مقصد جملہ خواتین کو تحفظ اور جائز معاشرتی مقام دینا ہے لیکن اگر یہاں صرف مخصوص طبقے اور مخصوص مسائل تک محدود رہ کر صرف تقاریر کرنا اور تالیاں بجوانا ہے، تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے، اس سے نہ تو خواتین کی فلاح وبہبود ممکن ہے اور نا ہی ان کا مستقبل محفوظ ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں غیرت کے نام پر عورت کا قتل ایک معمولی بات گردانی جاتی ہے۔ تیزاب پھینک کر ان کو عمر بھر کے لیے معذور کر دینا بھی آج کے دور میں جاری ہے۔ ماضی میں ہونے والی تحریکوں کا مطالعہ ہمیں اس بات سے آگاہ کرتا ہے کہ محنت کش خواتین مردوں کے شانہ بشانہ اور قدم سے قدم ملا کر آگے بڑھی ہیں۔
خواتین جو آبادی کا نصف حصے سے بھی زیادہ ہیں ان کے متعلق یہ رائے قائم کی جاتی ہے کہ ''یہ کمزور ہیں ،گھر کی زینت ہیں اور چار دیواری کے اندر ہی اچھی لگتی ہیں ۔'' ان کا کام صرف گھر دار ی کرنا معاشرتی زندگی کے باقی پہلوؤں سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ فرسودہ خیالات ہی تو ہمارے معاشرے کی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کو کام کرنے کے نہ صرف مواقع فراہم کیے جائیں بلکہ انھیں عدم اعتمادی کا شکار ہونے سے بھی بچایا جائے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں پر مکمل بھروسا کرتے ہوئے اپنی منزل کی طرف گام زن ہوں۔