ڈیمنشیا کے مریض موت سے پہلے نارمل کیوں ہوجاتے ہیں
اس مختصر عرصے کی شفایابی کیلئے ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے جسے "Terminal lucidity" کہا جاتا ہے
ڈیمنشیا ایک ایسی ذہنی حالت ہے جس میں انسان رفتہ رفتہ شعوری طور پر بات چیت کرنے، کھانے پینے، مقام کا علم ہونے اور لوگوں کو پہچاننے کی صلاحیت کھو دیتا ہے۔
تاہم 1990 کی دہائی سے لے کر اب تک بہت سے کیسز ایسے ہیں جن میں ڈیمنشیا کا مریض موت سے چند عرصہ قبل بالکل نارمل رویے کے اظہار کرنے لگ جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق موت سے قبل مکمل شفایاب ہونے والے 43 فیصد ڈیمنشیا کے مریض 24 گھنٹوں کے اندر مرجاتے ہیں جبکہ 84 فیصد ایک ہفتے کے اندر مرتے ہیں۔
اگرچہ ایک تحقیق سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ڈیمنشیا کے شدید حالت میں مبتلا بہت سے لوگ موت سے چھ ماہ قبل بھی اگرچہ کم مگر نارمل برتاؤ کرنے لگتے ہیں۔
امریکی محققین مائیکل ناہم اور بروس گریسن نے موت سے قبل اس مختصر شفایابی کے لیے اصطلاح متعارف کرائی ہے جسے "Terminal lucidity" کہا جاتا ہے۔
سائنسدان اب تک یہ وضاحت کرنے سے قاصر ہیں کہ ڈیمنشیا کے شکار افراد اچانک موت سے قبل ٹرمینل لوسیڈیٹی کا مظاہرہ کیوں کرتے ہیں؟۔ کچھ رپورٹس کے مطابق یہ عزیزوں کی موجودگی میں ہوتا ہے جبکہ دیگر کے مطابق بعض اوقات موسیقی اس شفایابی کا سبب بنتی ہے تاہم ابھی تک حتمی طور پر کوئی شواہد سامنے نہیں آسکے ہیں۔
نیویارک یونیورسٹی کی ایک تحقیقی ٹیم کا ماننا ہے کہ ممکن ہے کہ یہ شفایابی موت سے پہلے دماغی سرگرمیوں میں تبدیلی کے نیتجے میں رونما ہوتی ہو تاہم اس کے باوجود اس نکتے کی وضاحت نہیں کی جاسکتی کہ موت سے قبل اچانک ایسے افراد میں ختم شدہ صلاحیتیں کیسے بحال ہوجاتی ہیں۔