گل مہر جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے

کراچی کا موسم گل مہر کےلیے بہت زیادہ سازگار ہے


شہر میں کونوکارپس کے درختوں کو ختم کرکے گل مہر اور ناریل جیسے درخت لگائے جارہے ہیں۔ (فوٹو فائل)

بنگلہ دیش کے ناول نگار شام بارک پوری اپنے پہلے اردو ناول کرشنا چوڑا کے سائے میں لکھتے ہیں کہ ''سورج ڈھل رہا تھا۔ ہلکی ہلکی پیاری دھوپ، زمین پر سونا بکھیرتی، شام کو حسین بنا رہی تھی۔ کرشنا چُوڑا کا درخت، شفق کی سرخیوں میں دُھل کر اور بھی سرخ نظر آرہا تھا۔''


اس وقت کم و بیش پورا ملک شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے اور کراچی والے بھی گرمی کی شدت سے بے حال ہیں۔ مئی کے اس حبس زدہ موسم میں ایک گھنا سبز پتوں والا چھتنار درخت جس پر سرخ، نارنجی پھول لگتے ہیں۔ یہ خوب صورت درخت جس کو بنگال اور اڑیسہ والے کرشنا چوڑا کہتے ہیں، تو کیرالہ میں کہیں اسے کال وَری یا گل گوتھا کہتے ہیں اور لال نارنجی رنگ کی مناسبت سے انگریزی میں اسے Flame tree اور Flame of the Forest کہتے ہیں۔ یہ گل مہر ہے، جس پر اس حبس اور گرمی میں بہار جوبن پر ہے اور اس کے نارنجی، سرخ پھول آنکھوں کےلیے ٹھنڈک بن جاتے ہیں۔


آج کل کراچی کی نہ صرف مختلف سڑکوں کے اطراف بلکہ بڑے اور چھوٹے پارکس اور گلیوں میں بھی یہ درخت نظر آرہا ہے۔ اس درخت کے بارے میں بات کرتے ہوئے معروف ماحولیاتی صحافی شبینہ فراز نے بتایا کہ یہ درخت ان کے بچپن میں جابجا نظر آتا تھا اور ان کو یہ قدرت کی طرف سے گرمی کے ہرجانے کے طور پر لگتا تھا۔ تاہم یہ درخت کہیں کھو سا گیا تھا۔ ان کو خوشگوار حیرت ہورہی ہے کہ اب دوبارہ سے گل مہر کراچی کی سڑکوں پر نظر آنے لگا ہے۔ بہت سے شجرکاری کا شوق رکھنے والے اسے دوبارہ سے لگا رہے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کراچی کی خوبصورتی لوٹ آئے گی۔


گل مہر کی شجرکاری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کراچی میں درخت اور پودے لگانے کی مہم کو فروغ دینے والی ٹیم گرین کے روح رواں فائق سلیم کا کہنا ہے کہ گل مہر درحقیقت افریقی جزیرے مڈغاسکر کا مقامی درخت ہے اور یہ گرم و مرطوب موسم کو بہت زیادہ پسند کرتا ہے۔ اسی وجہ سے کراچی کا موسم گل مہر کےلیے بہت زیادہ سازگار ہے اور گرمیوں کے موسم میں گل مہر کو شہر قائد کی زینت بنایا جانا چاہیے۔


شبینہ فراز نے گل مہر کے بارے میں تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ اسے flamboyant trees بھی کہا جاتا ہے، اگرچہ ماہرین اس کا آبائی علاقہ مڈغاسکر کو بتاتے ہیں مگر کراچی والوں نے اسے اپنا لیا ہے تو یہ اب ہمارا ہی ہے۔ انہوں نے اس کے طبی اور ماحولیاتی فوائد کے بارے میں کہا کہ اس کے پھول اور پتیاں بہت سی دواﺅں میں استعمال ہوتی ہیں۔ حکمت میں یہ سانس کی بیماریوں میں اکسیر کا درجہ رکھتا ہے۔ جبکہ شوخ رنگت کے باعث یہ تتلیوں کا پسندیدہ پھول ہے، پرندے اس پر کھنچے چلے آتے ہیں۔ اس کی گھنی کینوپی شدید گرمی اور حبس میں سایہ، ٹھنڈک اور خوشبو فراہم کرتی ہے۔


فائق سلیم کا کہنا ہے یہ تو ہم سب کے علم میں ہے کہ کراچی کنکریٹ کا جنگل بنتا جارہا ہے، ہر طرف شہر کاری کی وجہ سے یہاں پر پودے محدود ہوتے جارہے ہیں، جس کی وجہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے شہر کے درجہ حرارت میں حیران کن اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ کراچی میں اربن ہیٹ آئی لینڈ ایفیکٹ مکمل طور سے واضح ہے۔ اربن ہیٹ آئی لینڈ ایفیکٹ کا مطلب شہر کے گنجان آباد علاقے جہاں عمارتیں زیادہ ہیں، وہاں کے درجہ حرارت مضافاتی علاقوں سے زیادہ ریکارڈ ہورہے ہیں، بالخصوص سردیوں میں یہ فرق بہت واضح نظر آتا ہے۔


دوسری اہم بات شہری علاقوں میں روزبروز زندگی بہت مشکل ہوتی جارہی ہے۔ لوگ ذہنی دباؤ، ڈپریشن اور اینزائٹی کاشکار ہوتے جارہے ہیں۔ جدید تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ درخت کو دیکھنا اور بالخصوص اورنامینٹل پلانٹس (ornamental plants) کو دیکھنا یا ان میں وقت گزارنے سے انسان کا اسٹریس کم ہوتا ہے جس سے دماغی صحت میں بہتری آتی ہے۔


گل مہر کا شمار Ornamental Trees میں ہوتا ہے اور دنیا بھر میں اربن پلانٹیشن کےلیے اورنامینٹل درختوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ اورنامینٹل وہ درخت یا پودے ہوتے ہیں جو انسان کو دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اور جس سے ان کی دماغی صحت میں بہتری آئے۔ چاہے ان میں پھول آرہے ہوں یا وہ خوبصورت شکل کے درخت ہوں۔ اسی وجہ سے گل مہر کا شمار بھی اورنامینٹل درختوں میں ہوتا ہے، کیونکہ موسم گرما میں اس میں انتہائی خوبصورت رنگ کے سرخ اور نارنجی پھول کھلتے ہیں۔


یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ گل مہر تیزی سے بڑھنے والا درخت ہے۔ ہر سال اس میں پانچ سے سات فٹ تک اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک میچیور گل مہر کے درخت کا قد تقریباً 20 سے 50 فٹ کے درمیان ہوسکتا ہے۔ جبکہ اس کا سایہ 15 سے 20 فٹ تک کے علاقے کو کور کرسکتا ہے۔ لہٰذا لوگوں کو ہیٹ اسٹروک سے بچانے کےلیے ضروری ہے کہ ہم ایسے پودوں کا انتخاب کریں جو سایہ دار ہوں، جن کے سائے میں لوگ بیٹھ کر گرمی کی شدت سے بچ سکیں۔


اس بارے میں بات کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل پارکس جنید اللہ خان نے بتایا کہ آج سے دو سال قبل حالیہ کراچی کے میئر اور اس وقت ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب نے یہ اعلان کیا تھا کہ شہر میں موسمِ گرما کی حدت سے بچاؤ کےلیے مرحلہ وار کونوکارپس کے درختوں کو ختم کرکے گل مہر اور ناریل جیسے درخت لگائے جائیں گے، کیونکہ کونوکارپس کے درخت ماحولیاتی نظام میں کراچی کےلیے سازگار نہیں۔ لہٰذا محکمہ باغات نے شاہراہ فیصل کے اطراف پورشنز میں تقسیم کرکے جڑوں سمیت کونوکارپس کو نکالا ہے، کیونکہ یہ نا صرف ماحول کےلیے نقصاندہ ہے بلکہ اس کی جڑیں بھی پانی کی لائنوں کو نقصان پہنچاتی ہیں اور اس کی جگہ اپنے مقامی درخت لگانے کی مہم شروع کی ہے۔


دو سال کے اس عرصے میں سب سے زیادہ تعداد گل مہر کی ہے۔ اندازے کے مطابق ڈیڑھ سے دو لاکھ کی تعداد میں گل مہر لگائے جاچکے ہیں اور شجر کاری کا یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ جنید اللہ خان کا کہنا تھا کہ کارساز روڈ اور شاہراہ پاکستان پر گل مہر کے پودوں میں تو اب چھوٹے چھوٹے پھول بھی لگ گئے ہیں۔ جبکہ کڈنی ہل پارک میں بھی بڑی تعداد میں گل مہر لگائے گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں ویسے ہی پانی کا بڑا مسئلہ ہے، گل مہر ایک ایسا پودا ہے جو پانی بھی کم لیتا ہے اور کم پانی میں بھی یہ پنپتا ہے اور اس میں تو دو رائے ہی نہیں کہ گل مہر نا صرف خوبصورت ہے بلکہ ماحول دوست بھی ہے۔


کراچی میں شجرکاری کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ شہری حکومت کا ٹارگٹ ایک کروڑ پودے شہر کے اندر لگانے کا ہے۔ جبکہ اس شجرکاری پلان کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ شہر کے مرکزی کے ایم سی کوریڈورز کے ارد گرد اور پارکس میں دو لاکھ کے قریب پودے لگاچکے ہیں۔ ہر شخص کو پودے لگانے چاہئیں جوکہ صحت اور ماحول دونوں کےلیے اچھے ہوں اور شہر کےلیے بھی بہتر ہوں۔


شہریوں سے اپیل کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جو پودے لگے ہوئے ہیں ان کی حفاظت کریں، کیونکہ ایک مسئلہ پودوں کا خیال رکھنا بھی ہے۔ عوام میں بھی یہ آگاہی ہونی چاہیے کہ پودے ہمارے لیے کتنے ضروری ہیں۔


شبینہ فراز کا کہنا ہے کہ جتنے چاہے شہری جنگل کراچی میں اگالیں لیکن کچھ کام جمالیات کےلیے بھی کیے جاتے ہیں تو سڑکوں، چوراہوں پر گل مہر، املتاس، موتیا اور چنبیلی لگانے میں کیا قباحت ہے۔ نظر کو بھی بھلے لگتے ہیں اور خوشبو بھی آپ کا دامن تھامے دور تک آتی رہے گی۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔




اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں