(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - جناب بلاول، ہر جگہ سیاست نہیں چلتی!

محمد عثمان فاروق  پير 27 اکتوبر 2014
جناب بلاول! یہ کشمیر کا معاملہ ہے پاکستان کا نہیں کہ آپ کے نانا اور والدہ کی خدمتوں کے عوض آپ کو پارٹی کی بھاگ دوڑ تھمادی جائے۔  کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں جہاں سیاست نہیں چلتی لہذا آپ سے بھی گزارش ہے کہ  آپ اِس معاملے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش ہرگز نہ کریں۔ فوٹو: فائل

جناب بلاول! یہ کشمیر کا معاملہ ہے پاکستان کا نہیں کہ آپ کے نانا اور والدہ کی خدمتوں کے عوض آپ کو پارٹی کی بھاگ دوڑ تھمادی جائے۔ کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں جہاں سیاست نہیں چلتی لہذا آپ سے بھی گزارش ہے کہ آپ اِس معاملے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش ہرگز نہ کریں۔ فوٹو: فائل

بھارت کی جانب سے کشمیر میں غیر قانونی اور جبری تسلط کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے اتوار 26 جولائی کو آزاد کشمیر کے سابق وزیرِ اعظم بیرسٹر سلطان محمود نے لندن کے ٹریفالگر اسکوائر میں ’’کشمیر ملین مارچ‘‘کا انعقاد کیا تھا جس میں پاکستانیوں، کشمیریوں ، انگریزوں حتٰی کے سکھوں سمیت بہت بڑی تعداد نے شرکت کرکے قبوضہ جموں کشمیر کے عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔

اس ملین مارچ کے شرکاء نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ کشمیریوں کی جدو جہدِ آزادی کی ہر ممکن مدد کی جائے گی ۔ ساتھ ہی ساتھ اقوامِ متحدہ   پر زور دیا گیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو اپنی قرارداد اور  کشمیریوں کی امنگوں  کے مطابق حل کروائے۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں نے  اس سے پہلے بھی’’یورپین یونین کشمیر وِیک‘‘  کا انعقاد کروایا تھا جس میں پورا ایک ہفتہ یورپ کے مختلف ممالک میں ایسے ہی جلسے معقد کروائے گئے۔ یورپین یونین کشمیر ویک اور کشمیر ملین مارچ دونوں ہی ایسے ایونٹ تھے جن پر بھارت کو سخت ناگواری گزری، اور بھارتی میڈیا نے اس سلسلے میں خوب پراپیگنڈہ کیا ۔

لیکن جہاں برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں اور کشمیریوں نے یہ اپنا فرض ادا کیا، وہیں پیپلز پارٹی کے چئیر مین بلاول بھٹو زرداری  اپنے چند پارٹی راہنماؤں کے ہمراہ  وہاں پہنچے اور جلسے کے شرکاء سے خطاب کرنے کی کوشش کر ڈالی۔ بلاول بھٹو کا وہاں پہنچنا جلسے کے شرکاء کو ایک پل نہ بھایا اوروہاں موجود لوگوں نے بلاول بھٹو زرداری کے خلاف نعرے بازی شروع کر دی،لیکن بات اگر نعرے بازی تک ہی رہتی تو ٹھیک تھا، مگر وہاں موجود لوگوں نے جوتے ، پانی، انڈوں اور ٹماٹربھی سٹیج پر دے ماریں! یہ حالات دیکھتے ہی  بلاول نے اسٹیج پر موجود چند جیالوں کےپیچھے چھپ کر اپنی جان بچائی، البتہ پانی کی بوتلیں اور جوتے جیالوں کو سہنے پڑے۔ اور نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ بلاول صاحب کو صحیح سلامت جلسے سے نکالنے کے لیے  پولیس کی مدد لینا پڑی۔

اگرچہ اِس واقع کو کوئی بھی ایک اچھی روایت نہیں قرار دے سکتا مگر اِس واقع میں ایک سبق ہے اگر ہمارے حکمراں اور سیاستدان حاصل کرنا چاہیں۔ اِس بات میں کسی کو دو رائے نہیں ہونی چاہیے کہ کشمیر درحقیقت پاکستان کی شہ رگ ہے اور پاکستان اِس معاملے پر کبھی بھی کسی صورت  سمجھوتہ نہیں کرےگا اور اگر کسی نے ایسا سوچا بھی تو یہ عوام کبھی ایسا نہیں کرنے دے گی کہ اِس کشمیر کی آزادی کے لیے ہزاروں لوگوں نے اپنی جانیں دی ہیں اور ہم کبھی اُن کی قربانیوں کو بھول نہیں سکتے۔اِسی لیے  اگراِس معاملے کو  قوم تک ہی رہنے دیا جائے تو بہتر ہے وگرنہ وہی ہوگا جو گزشتہ سب لندن میں ہوا۔

جبکہ دوسرا معاملہ جو میں یہاں اُٹھانا چاہتا ہوں وہ یہ کہ آخر بلاول کی وہ کونسی قربانی ہے جو لاکھوں لوگوں کے سامنے اُن کو کشمیر کے معاملے پر بات کرنے کے لیے بلایا گیا؟ جناب یہ پاکستان کا مسئلہ نہیں کہ آپ کے   نانا اور والدہ کی خدمتوں کے عوض آپ کو پارٹی کی بھاگ دوڑ تھمادی جائے۔ کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں جہاں سیاست نہیں چلتی لہذا آپ سے بھی گزارش ہے کہ آپ اِس معاملے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش ہرگز نہ کریں ۔ کشمیر ملین مارچ ہر گز کوئی ایسا فورم نہیں تھا جہاں آپ “مرسوں مرسوں، روٹی کپڑا اور مکان، اوربھٹو زندہ ہے” کے نعرے لگانے کی جسارت کریں۔

بس ایسی صورت میں ، میں یہ اُمید ہی کرسکتا ہوں کہ مستقبل میں کوئی بھی سیاسی جماعت کشمیر کے معاملے کو پارٹی معاملہ بنانے کا ہرگز نہیں سوچے گی کہ یہ قوم ابھی زندہ ہے کسی صورت کشمیر کے معاملے پر سیاست کو برداشت نہیں کرے گی۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔