قندیل بلوچ کو نشہ آور دوا دے کر گلا دبا کر قتل کیا، بھائی کا اعترافی بیان

ویب ڈیسک  اتوار 17 جولائی 2016
قندیل بلوچ کی جمعے اور ہفتے کی درمیانی رات کے کسی پہر موت دم گھٹنے سے ہوئی، پوسٹ مارٹم رپورٹ - فوٹو: فائل

قندیل بلوچ کی جمعے اور ہفتے کی درمیانی رات کے کسی پہر موت دم گھٹنے سے ہوئی، پوسٹ مارٹم رپورٹ - فوٹو: فائل

ملتان: پولیس نے ماڈل قندیل بلوچ کے قتل میں ملوث مرکزی ملزم مقتولہ کے بھائی وسیم کو گرفتار کرلیا جس نے اپنے جرم کا اعتراف بھی کرلیا ہے۔

سی پی او ملتان اظہر اکرم نے پریس کانفرنس کے دوران مقتولہ قندیل بلوچ کے قتل کے مرکزی ملزم اس کے بھائی وسیم کو میڈیا کے سامنے پیش کیا جب کہ اس موقع پر سی پی او ملتان نے بتایا کہ ابتدائی تفتیش میں اب تک یہی پتہ چلا ہے کہ ملزم وسیم نے اکیلے ہی قتل کیا اور یہ واردات غیرت کے نام پر کی گئی، ملزم نے اپنی بہن قندیل بلوچ کی ناک اور منہ دبا کر اسے مارا جس کے بعد وہ اپنے 2 دوستوں کے ہمراہ ڈی جی خان چلا گیا جہاں سے اسے گرفتار کرلیا گیا تاہم ملزم کے دیگر 2 دوستوں کی تلاش ابھی جاری ہے۔

سی پی او ملتان کا کہنا تھا کہ قندیل کی لاش ان کے والدین کے کہنے پر سردخانے میں رکھی گئی ہے تاہم انہوں نے کل ڈی جی خان میں تدفین کا فیصلہ کیا ہے اور ان کے درخواست کرتے ہی لاش حوالے کردی جائے گی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ قندیل کی لاش سے مختلف سیمپلز لیے گئے ہیں جنہیں لاہور بھجوایا جائے گا اور وہاں ان کا جائزہ لیا جائے گا جس کے بعد ہی کچھ پتہ چلے گا کہ کوئی نشہ آور چیز کھلائی گئی یا نہیں۔

سی پی او ملتان نے قندیل بلوچ کے والدین کو حراست میں لیے جانے کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ والدین اپنے گھر پر موجود ہیں۔ سی پی او نے بتایا کہ مقتولہ کا موبائل فون بھی برآمد کرلیا گیا ہے جو پولیس کی تحویل میں ہے اور اس کی مدد سے بھی تفتیش میں مزید چیزیں سامنے آئیں گی۔

اس موقع پر قندیل بلوچ کے قاتل اس کے بھائی وسیم نے میڈیا کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ قندیل بلوچوں کا نام بدنام کررہی تھی اور یہ مجھ سے برداشت نہیں ہوا جب کہ اس کے مولوی کے مسئلے کی وجہ سے ہمارے مسائل میں اضافہ ہوا۔ ملزم نے کہا کہ قتل میں صرف اکیلا ہی ملوث ہوں اس میں کسی دوست کا ہاتھ نہیں جب قندیل کو میرے اس عمل کے بارے میں کوئی بھی علم نہیں تھا۔ ملزم نے اعتراف کیا کہ قتل سے قبل قندیل کو نشہ آور دوا کھلائی اور رات ساڑھے گیارہ بجے کے درمیان اس کا گلا دبا کر قتل کیا جب کہ اپنے جرم پر بھی کوئی شرمندگی نہیں ہے۔

اس خبر کو بھی پڑھیں؛ اسکینڈل کوئن قندیل بلوچ نے شادی کا اعتراف کرلیا

قندیل بلوچ کو ملتان کے مضافاتی علاقے مظفرگڑھ کے گرین ٹاؤن میں اپنے گھر میں گلہ گھونٹ کر قتل کیا گیا۔ آر پی او ملتان کا کہنا ہے کہ قندیل بلوچ اپنے والد کی عیادت کے لیے ایک ہفتے سے گرین ٹاؤن میں اپنے ماں باپ کے گھر میں ہی موجود تھیں، قندیل بلوچ کے والدین نے اپنا بیان ریکارڈ کرادیا ہے جس کے مطابق قندیل کو ان کے بھائی وسیم نے قتل کیا۔

قندیل بلوچ کے والد نے پولیس کو دیئے گئے بیان میں کہا ہے کہ وہ اپنی بیوی اور بیٹے وسیم سمیت گھر کی چھت پر جب کہ قندیل بلوچ نیچے کمرے میں سوئی تھی۔ صبح 10 بجے تک جب قندیل نہ جاگی تو انہوں نے قندیل کو جگانے کی کوشش کی لیکن پتہ چلا کہ وہ مرچکی ہے۔ واقعے کے بعد اس کا بھائی وسیم غائب ہوگیا جو کہ رات 3 بجے نیچے اترا تھا۔ وسیم جاتے ہوئے قندیل کا موبائل فون اور اس کی پاس موجود پیسے بھی لے گیا۔

اس خبر کو بھی پڑھیں؛ قندیل بلوچ کی سرکاری سیکیورٹی کی درخواست مسترد

پولیس نے قندیل کے والد کی مدعیت میں مقدمہ درج کرلیا ہے، ایف آئی آر کے متن کے مطابق ملزم وسیم ماڈل قندیل بلوچ کے شوبز میں آنے پرنالاں تھا اسی لئے اس نے اپنی بہن کا قتل کیا، اس کے علاوہ قندیل کے دوسرے بھائی اسلم شاہین کو بھی وسیم کی اعانت کرنے کا ملزم ٹھہرایا گیا ہے۔

دوسری جانب نشتر اسپتال ملتان کے ڈاکٹروں نے قندیل بلوچ کے پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ جاری کردی ہے جس کے مطابق قندیل بلوچ کی جمعے اور ہفتے کی درمیانی رات کے کسی پہر موت دم گھٹنے سے ہوئی ہے، قندیل کے جسم پر کسی قسم کی چوٹ کے نشان نہیں ہیں جس کے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی جانب سے بہت کم مزاحمت کی گئی تھی۔  ڈاکٹرز نے قندیل بلوچ کے معدے کے نمونے لے کر فرانزک لیبارٹری لاہوربھجوادیئے ہیں،

اس خبر کو بھی پڑھیں؛ بالی ووڈمیں عمائمہ ملک جیسا گھٹیا کام نہیں کروں گی، قندیل بلوچ

واضح رہے کہ ماڈل گرل کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے دوران سوشل میڈیا پر اپنی وڈیوز سے شہرت ملی تھی۔ ان کی معروف اسکالر مفتی عبدالقوی کے ساتھ تصاویر اور وڈیوز بھی منظر عام پر آئی تھیں، چند روز قبل قندیل بلوچ کی شناختی دستاویزات منظر عام پر آئی تھیں جس کے بعد انہوں نے وزارت داخلہ نے سیکیورٹی کی اپیل کی تھی جسے مسترد کردیا گیا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔