لاہور کی دو بیٹھکیں … ایک پرانی ایک نئی
لاہور کے ایک متوطن اور بعد میں عمر بھر کے لاہوری میاں نواز شریف نے ادیبوں کے اس ٹھکانے کو بڑی شان کے ساتھ بحال کیا ہے۔
لاہور:
جب ہم نے لاہور میں قدم رکھا تو یہ ہنستا کھیلتا اپنی تمام تر رنگین اور دلربا روایتوں کے ساتھ مہکتا ہوا ایک زندہ و تابندہ شہر تھا۔ یہاں شاہی قلعہ' شاہی مسجد، اس کے پڑوس میں بازار حسن بھی تھا اور فیشنی لاہور میں مال روڈ جگمگا رہی تھی۔ اسی مال روڈ پر چند بیٹھکیں تھیں۔ کافی ہاؤس' شینیز لنچ ہوم اور پاک ٹی ہاؤس۔ پہلی دو اپنے وقت میں ہر دم آباد بیٹھکیں سیاسی لیڈروں' کارکنوں اور سیاست کا ذوق رکھنے والوں کی تھیں جب کہ ٹی ہاؤس صرف ادیبوں کے لیے مخصوص تھا اور اس قدر کہ کوئی غیر ادیب داخل ہوتے ہوئے جھجکتا تھا۔
میں اگر کبھی اپنے ادیب دوستوں کے ہمراہ یہاں آتا تو اپنے آپ کو اجنبی محسوس کرتا جب کہ میں بھی ایک صحافی ہونے کی وجہ سے ایک نیم ادیب تھا لیکن ادیب نہیں تھا' نہ شاعر نہ افسانہ نگار' نہ نقاد اور نہ ادب کی کسی دوسری صنف سے وابستہ لیکن میں لٹن روڈ پر رہتا اور لیل و نہار میں کام کرتا تھا اور اس طرح دفتر آتے جاتے ٹی ہاؤس میرے راستے میں پڑتا تھا۔ لیل و نہار جیسے ایک ادبی رسالے اور وہ بھی تحریروں کا معاوضہ دینے والے ادارے سے وابستگی نے ادیبوں میں میری گنجائش بھی پیدا کر دی تھی چنانچہ میں مرحوم نواز اور اکمل علیمی کے ساتھ کبھی کبھار یہاں چلا آتا۔
تحریروں کے معاوضے سے ایک تاریخی بات یاد آ گئی کہ بعض نئے سی ایس پی بھی ہمارے ہاں اس لیے لکھا کرتے تھے کہ انھیں فی مضمون پچاس روپے ملتے تھے۔ ان میں سے کئی ایک بعد میں بہت اونچے عہدوں پر فائز ہو گئے مگر وہ ہمیں کبھی نہ بھولے کہ ان کی معمولی تنخواہ میں رکھ رکھاؤ کا خرچہ ان مضمونوں کے معاوضوں سے پورا ہوتا تھا۔ آپ یقین کر لیں کہ ہماری افسر شاہی ان حالات سے بھی گزری ہے اور پھر بھی فرش شناس رہی ہے۔
ذکر لاہور کی ایک 81 سالہ پرانی بیٹھک کا ہو رہا تھا جو گزشتہ سولہ برس سے کاروباری کساد بازاری کی وجہ سے بند تھی۔ یہ ایک ریستوران میں آباد تھی جہاں اس کے مالکوں نے تنگ آ کر گاڑیوں کے ٹیوب ٹائروں کی دکان کھول لی تھی۔ ٹی ہاؤس بند ہو گیا لیکن اس کی یاد اور اس کی تاریخ زندہ رہی۔ لوگ اسے یاد کرتے رہے۔ لاہور ہی نہیں' برصغیر کے ادب نے یہاں پرورش پائی اور اس ریستوران کے بیرے الٰہی بخش کی بے لوث خدمت سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ سیاسی بیٹھکوں کے ساتھ اس ادبی بیٹھک کا اجڑ جانا اس شہر کا ایک حادثہ تھا۔
انتظار حسین سے تعزیت۔ یہاں کے بعض ادیب جو بہت با اثر ہو گئے، اس بیٹھک کو نہ بھولے اور اس کی نئی زندگی کے لیے کوشاں رہے اور بالآخر کامیاب ہو گئے۔ لاہور کے ایک متوطن اور بعد میں عمر بھر کے لاہوری میاں نواز شریف نے ادیبوں کے اس ٹھکانے کو بڑی شان کے ساتھ بحال کیا ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ یہاں جانا تو ہی ہے مگر گاڑی کہاں کھڑی کروں گا۔ جب میں سائیکل سوار تھا تو پارکنگ کی کوئی فکر نہیں تھی۔ ادیب بھی جب گاڑیوں والے ہو گئے تو آنسو بہاتے ہوئے اپنے اس روحانی ٹھکانے سے چلے گئے، پارکنگ کی تلاش میں۔
اب اس نئے شاندار ریستوران مسمی پاک ٹی ہاؤس کا کیا حال ہو گا۔ مناسب یہی ہے کہ اسے کسی سرکاری محکمے کو نہیں پرائیویٹ کاروباری ادارے کو دے دیا جائے یا کوئی ایسا ادیب ڈھونڈا جائے جو اس ادبی مرکز اور ادب کے ساتھ خصوصی وابستگی سے اسے چلاتا رہے۔ میرے ذہن میں اس ادبی مکتب کے کئی فارغ التحصیل زندہ ادیبوں کے نام آ رہے ہیں مگر وہ اب بہت اونچے نکل گئے ہیں۔ ٹی ہاؤس سے اونچے لیکن اس ہاؤس کی دیرینہ روایات کو سامنے رکھیں تو شاید اس کی دیکھ بھال کسی بڑے کے لیے اعزاز بھی ہو۔
میں دو بیٹھکوں کی بات کرنے والا تھا مگر کالم کا بڑا حصہ ایک کے ذکر میں ہی گزر گیا اور ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ اسے یہیں روک دینا پڑ رہا ہے۔ دوسری غیر رسمی سی بیٹھک ایک بڑے سیاست دان کے گھر میں زبردستی جما دی گئی ہے۔ چند سیاستدان جن میں کچھ عقل بھی ہے اور چند صحافی کہیں جمع ہوتے رہے مہینے میں صرف ایک بار اور موضوع جو بھی ہو اس پر اظہار خیال۔ کسی ایک نشست میں کسی طرف سے تجویز آئی کہ یہ بیٹھک کسی ایک جگہ ہی جمائی جائے' بے خانماں نہ رہے چنانچہ گلبرگ کے اس مشہور گھر میں ان لوگوں نے ڈیرے ڈال دیئے۔ مجھے میاں خورشید محمود قصوری کا فون آیا کہ تم کہاں گم ہو' نہ کسی کی شادی میں دیکھا نہ غمی میں۔
اب باہر نکلو اور پھر انھوں نے اس ماہانہ محفل کا حوالہ دیا اور مجھے اس میں شرکت کی دعوت دی۔ اس خاندان کے ساتھ تو میرا نیاز مندی کا ایک خصوصی تعلق ہے جو مرحوم و مغفور میاں محمود علی قصوری کی ذات گرامی سے شروع ہوا وہ اپنی اولاد سے شاید میرا ایسا تعارف کرا گئے کہ اس خاندان کے سربراہ خورشید صاحب مجھے بھولتے نہیں ہیں۔ بہر کیف بات میں صرف اس نئی لاہوری بیٹھک کی کرنا چاہتا تھا جہاں گفتگو میں میاں خورشید نے کہا کہ امریکا اور مغرب والے اب یہ کہتے ہیں کہ سوویت یونین اور کمیونزم کے خاتمے کے بعد اب اگر کوئی ازم باقی رہ گیا ہے تو وہ صرف اسلام ازم ہے۔
اس پر بات چل نکلی۔ میں نے ایک پرانے پاکستانی مسلمان کی حیثیت سے عرض کیا کہ کمیونزم ہو یا کیپٹل ازم' یہ سب ازم انسانی ضرورت اور وقت کی عارضی پیداوار تھے جو ایک انسان کی عمر میں آئے اور ختم ہو گئے۔ جو لوگ کمیونزم کے دور میں پیدا ہوئے وہ اس کی آخری رسومات میں بھی شریک ہوئے اور مجھے کوئی ترقی پسند جتنی گالیاں مرضی دے دے' میں یہ دعویٰ کروں گا کہ دنیا کی اس فوجی اور نظریاتی طاقت کا تیا پانچا پاکستان کے ہاتھوں ہوا، افغانستان اور دریائے آمو کا پل اس کا گواہ ہے۔
بات سوشلزم اور کمیونزم کی ہو رہی تھی اور آپ دیکھیں کہ آج کا انسان انسانی بنائے ہوئے کسی بھی ازم سے محروم ہے۔ کمیونزم گیا اور کیپٹل ازم کا دم واپسیں ہے لیکن اسلام ازم ہم مسلمانوں کے لیے ہے یا نہیں مغرب کے لیے ضرور زندہ ہے چنانچہ امریکا اپنی پوری طاقت کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ آور ہے اور اسلام ازم کا ہر داعی اس کے لیے دہشت گرد ہے اور سر فہرست پاکستان ہے جو اسلام ازم کی پیداوار ہے۔ یہ طویل بحث جاری رہے گی۔