23 مارچ اور ’’خواب نامہ‘‘
ناول کے صفحوں پر لال جھنڈے کی پھڑپھڑاہٹ ہے اور مسلم لیگ کا ہرا پرچم بھی لہرا رہا ہے۔
23 مارچ 1940ء کو ایک خواب دیکھا گیا تھا جسے پاکستان کا نام دیا گیا اور اب کچھ لوگوں کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ وہ 23 مارچ 2013ء کو نیا پاکستان بنائیں گے۔
ان 73 برسوں کے دوران برصغیر کے مسلمانوں سے کیسے کیسے وعدے نہیں کیے گئے۔ 1947ء میں دنیا نے ترکِ وطن کرنے والے پناہ گزینوں کا سب سے بڑا قافلہ دیکھا۔ لاکھوں مارے گئے، ہزارہا عورتیں بے حرمت ہوئیں، ہزاروں بچے اپنے ماں باپ سے بچھڑگئے۔ وہ دعوے جو کیے گئے تھے، غلط ثابت ہوئے۔ وہ خواب جو دکھائے گئے، ان کی تعبیر محض ایک مذاق ثابت ہوئی۔
آج کے دن مجھے بنگلہ کا ایک ناول ''خواب نامہ'' یاد آرہا ہے جسے مشہور بنگالی ادیب اختر الزماں الیاس نے لکھا اور اردو کے ایک معروف ادیب زین العابدین نے ترجمہ کیا، زین العابدین جنھیں میں زینو بھائی کہتی ہوں، بنگلہ دیش بننے کے بعد پاکستان نہ آئے، ہر سال دو سال بعد اپنے عزیزوں سے ملنے آتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں۔ آتے ہوئے وہ ہر مرتبہ اپنے افسانوں کے علاوہ بنگلہ کہانیوں یا ناول کا ترجمہ ساتھ لاتے ہیں۔
آصف فرخی اپنے ادارے شہرزاد سے اختر الزماں الیاس کے مشہور ناول ''خواب نامہ'' کا ترجمہ شایع کررہے ہیں جو زینو بھائی کی شب و روز محنت کا نتیجہ ہے۔ پچھلے دنوں میں نے اس ضخیم ناول کو پڑھا جو آج 23 مارچ کے حوالے سے بہت یاد آیا۔ اس ناول میں 1940 سے آغاز ہونے والی تحریک پاکستان اورمشرقی بنگال میں شروع ہونے والی شاندار کسان تبھاگا موومنٹ کا قصہ ہے۔
میں اختر الزماں الیاس کا ''خواب نامہ'' کھولتی ہوں اور جمنا کی سات لہروں میں خوابوں، یادوں، شیولی کی خوشبو اور ہلسا اور ٹینگرا مچھلیوں کے ساتھ تیرتی چلی جاتی ہوں۔اردو پڑھنے والوں کے لیے ایک نئے ذائقے کا ناول۔ بہت سے لفظ جن سے وہ آشنا نہیں، دھرتی کے رنگ میں رنگے ہوئے خواب اردو والوں نے کم کم دیکھے ہیں۔ اس کے صفحوں پر نئے سپنوں کے پیچھے پرانے سپنے چھپ جاتے ہیں۔ اس میں ذلت کے مارے ہوؤں کا عشق ہے جس کی اپنی ایک الگ چھب ہے۔ پیاسی زمین کے ہونٹ ذرا سا کھلتے ہیں تو کسی نازنین کے ادھ کھلے ہونٹ یاد آجاتے ہیں۔
پھول جان مسکرا کر چھن بھر کو تمیز کی طرف دیکھتی ہے تو اس کی نیم وا آنکھوں سے زیادہ اس کی مسکراہٹ تا دیر تمیز کی آنکھوں میں کھبی رہتی ہے۔ ساری رات اٹکی رہتی ہے اور تمیز محسوس کرتا ہے کہ چاند کے گھولے آٹے کی طرح آنے والی روشنی پھول جان کے ہونٹوں سے آرہی ہے۔ ورنہ چاند کی روشنی میں بھلا اتنی سکت کہاں کہ وہ ساری دنیا کو اپنی روشنی کا لبادہ دے سکے۔
غلاظت اور غربت میں لتھڑے ہوئے لوگ بھی عشق کا سودا سر میں لیے پھرتے ہیں اور ان کی ہوس بھی رگوں میں تڑختی ہے۔ 'خواب نامہ' کے صفحوں پر تبھاگا تحریک کی تان سنائی دیتی ہے۔ اس کی خاطر جان دینے والوں کے لیے باول فقیروں کی طرح گانے والے، لاٹھیاں اورگولیاں کھانے والے ، سب ہی یقین رکھتے ہیں کہ آئین کے ذریعے ' تبھاگا' کے نافذ ہوتے ہی کسانوں کے حقوق کو بھلا کون نقصان پہنچا سکے گا۔
ناول کے صفحوں پر لال جھنڈے کی پھڑپھڑاہٹ ہے اور مسلم لیگ کا ہرا پرچم بھی لہرا رہا ہے۔ دعوے۔ وعدے۔ کسانوں کا ایمان ہے کہ ان میں جو بے اطمینانی ہے، اس کا حل پاکستان دے گا۔ جہاں کسان کے حق میں آئین مرتب کرنے کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے کے لیے کسی کو اختیار نہیں دیا جائے گا۔
ایک کردارکہتا ہے۔''مسلم لیگ صرف زمینداروں کی تنظیم نہیںہے۔ بنگال کے مسلمانوں میں زمیندار ہیں کتنے لوگ۔ اس میں جتنے بھی زمیندار جوت دار ہیں سب ہی تنظیم کے آدرش کو تسلیم کرکے مسلم لیگ میں شامل ہوئے ہیں۔ مسلم لیگ کے ساتھ کسی نے میر جعفری کی تو اسے تنظیم سے نکال باہر کیا جائے گا۔''ان معصوم بنگالیوں کو نہیں معلوم کہ ان کے ساتھ کیسی میر جعفری ہونے والی ہے اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی پیروی کرتے ہوئے سیاست انھیں سر سے پیر تک کیسے گھاؤ دینے والی ہے۔
'خواب نامہ' کے صفحوں پر دوسری جنگ عظیم اپنا خوفناک چہرہ دکھاتی ہے۔ جاپانی بڑھے چلے آتے ہیں۔ کلکتہ پر بمباری کی افواہیں گاؤں پہنچتے پہنچتے خبر بن جاتی ہیں۔'خواب نامہ' کے صفحوں پر وہ جغرافیہ ہے جہاں کھیت کی مینڈھ پر کھڑے ہوکر کسان سانس لیتا ہے تو سینہ سوندھی مٹی کی خوشبو سے بھر جاتا ہے اور اندر تک روشنی پھیل جاتی ہے۔ عورت دھان کے گٹھوں کو سونگھتی ہے تو اس کی سبز خوشبو پر جھوم اٹھتی ہے۔ بھوک کے عذابوں پر مرہم رکھتی ہوئی دھان کی خوشبو۔ پیرس اور لندن کی اعلیٰ ترین عطریات اس سگندھ کے آگے ہیچ ہیں۔ یہ کسان عورتوں اور مردوں کا تجربہ ہے جس سے شہری واقف نہیں۔
اس ناول کے صفحوں پر دھان کے سبز کھیت ہوا کے ساتھ چل نکلتے ہیں اور مرچ کے گھنے پودوں کی سبز پتیوں میں چھپی ہوئی مرچ آنکھ مچولی کھیلتی ہے اور لکھنے والا اپنے قلم سے مصوری کرتے ہوئے ہمیں بتاتا ہے کہ پکی ہوئی مرچ کے سرخ شعلے، سبزپتیوں کے آنچل کو پھاڑ کر نکلیں گے۔ کیا یہ سرخ سویرے کی طرف اشارہ ہے؟
کھیتوں میں کام کرنے والے مزدوروں اور بے زمین غریب کسانوں کو خواب دیکھنے اور خواب بننے کا حق حاصل ہے لیکن ان خوابوں کی تعبیریں خواب نامہ میں نہیں ہوتیں کیونکہ ان کے ہاتھوں کی لکیریں روز و شب محنت کرنے کے باعث ایسی شکستہ ہوجاتی ہیں کہ سارے خواب آپس میں گڈ مڈ ہوکر رفتہ رفتہ معدوم ہوجاتے ہیں۔ پھر انھیںنا امیدیاں، محرومیاں اور مایوسیاں تاریکیوں میں ڈبو دیتی ہیں۔ جہاں خواب جلتے بجھتے جگنوں کی طرح انھیں زندہ رہنے پر اکساتے ہیں۔
اختر الزماں الیاس نے اپنے ناول کا عنوان ''خواب نامہ'' رابندر ناتھ ٹیگور کی ایک نظم سے لیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ زبان کو شدھ کرنے کا عمل غیر منطقی ہے۔ زبانوں کے درمیان اختلاط سے ہی زبانیں پھلتی پھولتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اختر الزماں الیاس نے خواب نامہ لکھتے ہوئے مشرقی بنگال کی عوامی زبان کو استعمال کیا ہے جس سے ناول کی رمزیت دوبالا ہوگئی ہے۔ ناول کا آغاز بنگال میں سماجیات کے اصولوں پر خاندانوں کی بُنت اورجُڑت سے ہوتا ہے۔' خواب نامہ' ایک ایسا ناول ہے جس میں زندگی کئی چہروں والی دیوی ہے جو حسن، خوف، شہزوری اور کمزوری کے رنگ دکھاتی ہے، معصومیت اور چھل فریب کا رقص کرتی ہے۔کھردری جنس کا اظہار بھی شاعرانہ طریقے سے کیا گیا ہے ۔
انھوں نے ناول کو ایک ایسی طلسماتی فضا سے آغاز کیا ہے جہاں دوسیاہ ہاتھ بادلوں کو ہنکاتے ہیں اور پرکھوں کا رشتہ ناتا حال سے جوڑتے نظر آتے ہیں۔ انگریز افسر ٹیلر کی گولی کھا کر زمین پر گرنے والے منشی برکت اللہ کے خاتمے سے اس ناول کا آغاز ہوتا ہے اور پھر 1946ء میں فصل کا تین چوتھائی حصہ طلب کرنے والی تبھاگا تحریک اور تحریک پاکستان کا قصہ ایک دوسرے کے شانے سے شانہ ملا کر چلتا ہے۔' میر جعفری کا شکار بنگال کے مسلمان کسان ہوتے ہیں اور بالائی زمیندار اور سیاستدان کھاتے ہیں۔ تبھاگا جیسی شاندار جدوجہد جس میں عورتوں اور مردوں نے برابر کا حصہ ڈالا تھا۔ وہ جس طرح برباد ہوتی ہے اسے اختر الزماںالیاس نے کس درد مندی سے لکھا ہے۔
تبھاگا تحریک کی ناکامی کا سبب پاکستان کا قیام ہے۔ مسلم لیگی رہنماؤں نے وعدہ کیا تھا کہ کسانوں اور مزدوروں کے حقوق کو قائم کیا جائے گا۔ تاکہ فصل کی کٹائی میں ان کی تین چوتھائی شراکت ممکن ہوسکے۔ پاکستان قائم ہونے کے بعد مسلم لیگی سیاستدانوں کے وعدے کھوٹے سکے ثابت ہوئے جن سے کوئی خواب خریدا نہ جاسکا۔ اس ناول کے صفحوں پر وہ سب کچھ نظر آتا ہے جو مشرقی بنگال میں پاکستان کا حصہ بننے کے بعد ہوا۔
اس میں صرف دھان اور مرچ کے بیجوں کی بوائی ہی دکھائی نہیں دیتی۔ ہم جھوٹ ،جھنجھلاہٹ اور نفرت کے بیجوں کی بوائی بھی دیکھتے ہیں۔ پھر وہ فصل لہلہاتی ہے جو سروں کی کھیتی بن گئی اور سروں کی یہ فصل سفاکی سے کاٹی گئی۔ اس ناول میں اختر الزماں نے ایک جگہ لکھا ہے۔ ''زمین خدمت چاہتی ہے۔ خدمت نہ کرو تو زمین ناراض ہوجاتی ہے۔یہ خدمت وہ صرف دھان کی فصل اگانے کے لیے نہیں، دھرتی سے سچا رشتہ ناتا قائم کرنے کے لیے بھی چاہتی ہے۔''
پاکستان اب سے 42 برس پہلے دولخت ہوا اور اب اپنی زندگی کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ الم ناک حقیقت تو یہ ہے کہ ہم بدترین المیوں اور سانحوں سے بھی کو ئی سبق نہیں سیکھتے۔ ایسا ہوتا تو بلوچستان کے ساتھ آج ہمارا رویہ قطعی مختلف ہوتا۔اس موقعہ پر اختر الزماں الیاس کا ناول ''خواب نامہ'' کیوں یاد نہ آئے جس کے کرداروں کو بھی ان کے خوابوں کی تعبیر نہ مل سکی۔