- پاکستان واپس آرہا ہوں، سیاست میں متحرک کردار ادا کروں گا، عشرت العباد
- حماس کا رفح میں کارروائی روکنے کے حکم کا خیرمقدم، اسرائیل نے مسترد کردیا
- عدلیہ کو اپنی صفوں میں بہتری کی ضرورت ہے، خواجہ آصف
- وزیر اعلیٰ کے پاس خود جاؤں گا اور صوبائی حکومت کی مدد کروں گا، گورنر خیبرپختونخوا
- سلامتی کونسل عالمی عدالت کے فیصلے پر فوری عمل درآمد کروائے، وزیراعظم
- کشمیر جب بھارت کو دے دیا ہے تو اب یہ تنازع ختم ہونا چاہیے، مولانا فضل الرحمان
- 17 برس پرانے قتل کیس کا فیصلہ، 4 سال پہلے جیل میں مرنے والا ملزم بھی بری
- طالبہ کو ہراساں کرنے پرجامعہ کراچی نے طالب علم کا داخلہ منسوخ کردیا
- چین پاکستان کی ترقی میں اہم شراکت دار ہے، وزیراعظم
- خیبرپختونخوا کا بجٹ خلاف آئین اور وزیراعلیٰ کے تازہ شہد کے استعمال کا نتیجہ ہے، امیر مقام
- مداح نے میڈونا کے 18 ٹیٹو بنوا کر ریکارڈ قائم کر دیا
- ٹی20 ورلڈکپ کے لیے قومی ٹیم کے اسکواڈ کا اعلان
- فلسطین کو تسلیم کرنا یہود دشمنی نہیں؛ یورپی یونین کا اسرائیل کو جواب
- ملک میں 5 سال کے دوران غربت کی شرح بڑھ کر 39.5 فیصد ہوگئی
- اسلام آباد ہائیکورٹ: لاپتا افراد کے تمام مقدمات براہ راست نشر کرنے کا حکم
- کراچی؛ سرکاری اسپتالوں میں اینستھیزیا کے ماہرڈاکٹروں کی کمی سے مریض پریشان
- الیکشن کمیشن کا 98 ارکان اسمبلی کو گوشوارے جمع نہ کرنے پر نوٹس، 29 مئی کو طلب
- سولر پارکس بناکر سندھ میں 100 یونٹس تک بجلی مفت فراہم کریں گے، ناصر حسین شاہ
- اسرائیل رفح میں فوجی آپریشن فوری طور پر روکدے؛ عالمی عدالت کا فیصلہ آگیا
- جج کسی کی بی ٹیم نہیں، عدلیہ کا احترام نہ کرنے والا کوئی توقع نہ رکھے، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ
حفاظتی ٹیکے نہ لگوانا47 ہزار بچوں کی وجہ ہلاکت قرار
کراچی: پاکستان بچوںکی شرح اموات میں دنیا میں آٹھویں نمبرپرآگیا، ترقی یافتہ ممالک سے پولیو، تشنج،کالی کھانسی، چیچک،گردن توڑ بخار اور خسرہ کے امراض کا خاتمہ کردیا گیا ہے لیکن پاکستان میں ان امراض نے بچوںکو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
ایکسپریس سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان کی5ملین آبادی5 سال کی عمرتک کے بچوں پر مشتمل ہے، ان میں ہرسال47 ہزار بچے مختلف امراض میں مبتلاہوکر زندگی کی بازی ہارجاتے ہیں،تشنج ،کالی کھانسی،چیچک ،گردن توڑ بخار اورخسرہ سے متاثرہ بچوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، بچوں کو حفاظتی ویکسین لگواکر اموات میں کمی کی جاسکتی ہے، پاکستان سمیت دنیا میں ہر سال1.3 ملین بچے مختلف امراض کا شکارہوکرزندگی کی بازی ہار جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں بچوںکی نشوونما کیلیے حفاظتی ویکسین کی اہمیت کواجاگرکیا گیا ہے۔
سروے رپورٹ کے مطابق دنیا بھرمیں حفاظتی ویکسین لگانے کے نتیجے میں 1980 میں چیچک کے مرض کا خاتمہ کیا گیا جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں پولیو، تشنج ،کالی کھانسی سمیت دیگرامراض کا خاتمہ ہوچکا ہے ، امریکا میں حفاظتی ویکسین کے ذریعے گردن توڑبخارکے مرض پر 95 فیصد تک قابو پالیا گیا ہے، امریکا اورکینیڈا میں2سال کی عمر تک کے بچوں کو90فیصد حفاظتی ویکسین کاکورس مکمل کرالیا جاتا ہے، حفاظتی ویکسین کے ذریعے انسانی جسم میںکسی بیماری کیخلاف مدافعتی نظام کو فعال بنایا جاتا ہے،پاکستان میں تشنج سے بچائوکے ٹیکے صرف 50فیصد بچوں کولگائے جاتے ہیں۔
پاکستان پیڈیا ٹرکس ایسوسی ایشن کے مطابق پاکستان میں 35سے40 فیصد بچوں کوحفاظتی ٹیکہ جات کے کورس کرائے جاتے ہیں جبکہ60 سے70فیصد بچے حفاظتی ٹیکہ جات سے محروم رہ جاتے ہیں جس کی ذمے داری والدین پر بھی عائد ہوتی ہے جبکہ بچوں کے حفاظتی ٹیکہ جات پروگرام میں بچوں کی 9 قابل ذکر بیماریاں پولیو، کالی کھانسی، خسرہ، ٹی بی،خناق،گردن توڑ بخار، نمونیہ اورہیپاٹائٹس بی شامل ہیں، پیدائش کے فوراً بعد بچے کوبی سی جی کا ٹیکہ اور پولیوکے قطرے، چھ ہفتے بعد بیٹاون اور پولیوکے قطرے، دس ہفتے کے بعد پینٹا ٹو اور پولیوکے قطرے، چودہ ہفتے بعد پینٹا تھری اور پولیو کے قطرے، نو ماہ بعد خسرے کا پہلا ٹیکہ اور پولیوکے قطرے اور پندرہ ماہ بعد خسرے کا دوسرا ٹیکہ اور پولیو کے قطرے دیے جاتے ہیں۔
اس طرح حاملہ مائوں کو ٹی بی کے دو ٹیکے حمل کے دوران اور ایک ٹیکہ پیدائش کے بعد لگایا جاتا ہے، واضح رہے کہ بچوں میں متعدی امراض سے بچائو کیلیے صوبائی حکومت میں ویکسینشن آرڈیننس 1958 اور مغربی پاکستان وبائی امراض کی روک تھام کے ایکٹ کو ضم کیا گیا تھا، یہ فیصلہ پولیو اور دیگر متعدی امراض میں والدین کے تعاون نہ کرنے پر کیا گیا ، قانون کے تحت اب والدین کی ذمے داری ہوگی کہ وہ بچوں کو متعدی امراض سے بچائو کیلیے ویکسینشن کرائیں، عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ایک تخمینے کے مطابق پاکستان میں ہر پانچ میں سے ایک بچے کی ہلاکت نمونیہ کے باعث ہوتی ہے، اگر بچوں کی ہلاکت میں کمی سے متعلق اقوام متحدہ کے ملینیئم ڈیولپمنٹ گول 4 کو پورا کرنا ہے تو اس مرض پر قابو پانا ہوگا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔