فنکاروں اور قلمکاروں کا شکوہ

دنیا میں عوام کو جمہوریت کا مطلب سمجھایا جاتا ہے کہ اسے جمہوریت کہتے ہیں


Zaheer Akhter Bedari April 26, 2013
[email protected]

الیکشن 2013 کے حوالے سے ایکسپریس کے نمایندوں نے ملک کے ممتاز ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں سے ان کی رائے پوچھی اور ساتھ ہی یہ سوال بھی کیا کہ الیکشن میں ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کو حصہ لینے کیوں نہیں دیا جاتا، ان سوالوں کے جواب میں ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں نے یہ جواب دیا کہ اگر معاشرے کے حساس اور تعلیم یافتہ لوگوں کو حصہ لینے کا موقع دیا جاتا ہے تو سیاست پر سے سیاستدانوں کی اجارہ داری ختم ہوجاتی ہے۔ ممتاز اداکار طلعت حسین نے کہا پاکستان میں سیاست کے نام پر عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے۔

دنیا میں عوام کو جمہوریت کا مطلب سمجھایا جاتا ہے کہ اسے جمہوریت کہتے ہیں، مگر افسوس ہمارے ملک میں سیاستدان اتنے سازشی ہیں کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو سوائے شرمندگی کے کچھ نہیں ملتا۔ ہمارے ملک میں فنکاروں اور قلمکاروں کو اسمبلیوں میں بیٹھنے کا حق اس لیے حاصل نہیں کہ وہ سچ بولتے ہیں، جب اسمبلیوں میں سچ بولنے والے جائیں گے تو جھوٹوں کے لیے اسمبلیوں میں کوئی جگہ نہیں رہے گی۔ طلعت حسین کا کہنا تھا کہ فنکار عوام کے قریب ہوتا ہے، عوام کے مسائل کو سمجھتا اور محسوس کرتا ہے اور عوام کام نہ کرنے ان کے مسائل حل نہ کرنے کی صورت میں اس کا گریبان پکڑ سکتے ہیں، لیکن سیاسی رہنما صرف الیکشن سے پہلے عوام سے خطاب کرتے جھوٹے وعدے کرتے نظر آتے ہیں، الیکشن کے بعد وہ کبھی عوام کے قریب نظر نہیں آتے۔

ممتاز ڈرامہ نگار حسینہ معین کا کہنا ہے کہ ہمیں شرم آنی چاہیے کہ ہم پڑوسی ملک بھارت کو تو اپنے سیاسی مفادات کے حصول اور عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ بھارتی سیاستدانوں نے کئی فنکاروں کو انتخابی ٹکٹ دیے اور انھیں قانون ساز اداروں میں پہنچایا، ان میں امیتابھ بچن، جیا بچن، ہیمامالنی ، گووندا سمیت کئی فنکار ہیں جو قانون ساز اداروں میں بیٹھے عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور عوام سے رابطوں میں رہتے ہیں، یہ مقام شرم ہے کہ پاکستان میں قلمکاروںاور فنکاروں کے ساتھ تیسرے درجے کا سلوک کیا جاتا ہے۔ ممتاز ٹی وی آرٹسٹ ماجد جہانگیر نے کہاکہ پاکستان میں اگر سیاستدان تعلیم یافتہ فنکاروں اور قلمکاروں کو ٹکٹ دیںگے تو پھر وہ اور ان کے متعلقین کہاں جائیں گے۔ ہماری پارلیمنٹ میں اولیت ان کو حاصل ہے جو اول درجے کے جاہل ہیں۔

افتخارعارف ، امجد اسلام امجد سمیت کئی معروف ادیبوں اور شاعروں نے اس قسم کے خیالات کا اظہار کیا اور کہا کہ ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کو اس لیے نظر انداز کیا جاتا ہے کہ اگر معاشرے کا یہ حساس اور تعلیم یافتہ طبقہ قانون ساز اداروں میں آئے گا تو وہ عوام کے حقوق، عوام کے مسائل کے حل کے لیے آواز اٹھائے گا اور ان اداروں پر سے اہل سیاست کی اجارہ اداری کو خطرات لاحق ہوجائیں گے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت سمیت دنیا کے دوسرے ملکوں میں قلمکاروں اور فنکاروں کو معاشرے میں ممتاز مقام ہی حاصل نہیں بلکہ یہ لوگ سیاست میں بھی بھرپور کردار ادا کرتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ملکوں میں فن اور فنکاروں کی عزت کی جاتی ہے، انھیں قابل احترام سمجھا جاتا ہے، اس نفسیات کی وجہ سے تعلیم یافتہ اور باعزت شریف گھرانوں کے لوگ خاص طور پر خواتین فلم انڈسٹری اور سلور اسکرین پر آنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتیں، اس آزادی کی وجہ سے و بے خوف و خطر اپنے فن کا مظاہرہ کرتی ہیں اور جب فن اور فنکار ناروا بندشوں سے آزاد ہوتے ہیں تو پھر بڑے فنکار پیدا ہوتے ہیں اور سیاست کے میدان میں بھی انھیں پذیرائی ملتی ہے۔

ہماری فلم انڈسٹری کیونکہ ابھی تک منکرات اور مکروہات کے حصار سے باہر نہیں نکل سکی اور فن کو بھی مکروہات کے زمرے ہی میں جگہ حاصل ہے، اس لیے ہمارے ملک میں تعلیم یافتہ اور شریف گھرانوں کی لڑکیاں اس انڈسٹری میں آنے سے اجتناب کرتی ہیں، عموماً ایسے شعبوںسے جو خواتین اس صنعت میں آتی ہیں انھیں معاشرے میں برا سمجھا جاتا ہے اور اس نفسیات کی وجہ سے ہمارے فنکاروں کو وہ عزت حاصل نہیں ہوتی جو ایک لبرل اور سیکولر معاشرے میں فنکار کو حاصل ہوتی ہے، اسی نفسیات کی وجہ سے جب کوئی اداکارہ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے آگے بڑھتی ہے تو وہ مذاق بن کر رہ جاتی ہے جس کی مثال مسرت شاہین کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔

ہمارا میڈیا بھی اس نفسیات کا شکار ہو کر اداکارائوں کی تضحیک کا باعث بنتا ہے، اس نفسیات کی وجہ سے فنکاروں کی سیاست میں آمد کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔لبرل اور سیکولر معاشروں کی ایک خوبی یہ ہوتی ہے کہ ان معاشروں میں اظہار خیال کی آزادی ہوتی ہے، جب اہل قلم کو اظہار خیال کی آزادی ہوتی ہے تو وہ اس آزادی کو انسانوں کے درمیان تفریق اور نفرت ختم کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے اور ایسے فلمی گانے فلمی کہانیاں لکھنے میں آزاد ہوتا ہے جو انسانوں کو تقسیم کرنے کے بجائے انھیں ایک دوسرے کے قریب لانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں مثلاً کسی انڈین فلم کے اس بول کو لے لیں ''تو ہندو بنے گا نہ مسلمان بنے گا انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا'' یہ بات ایک سیکولر معاشرے میں تو دھڑلے سے کی جاتی ہے لیکن ایک ہندو اور گھٹے ہوئے پابند معاشرے میں قابل تعزیر سمجھتی جاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ایسے معاشرے میں پیدا ہونے والے فنکار سیاست میں بھی ایک مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں اور قابل احترام بھی سمجھے جاتے ہیں۔ ہندوستان میں بننے والی فلموں کا ایک مقبول موضوع ''راج نیتی'' یعنی سیاست ہے اور ان فلموں میں سیاستدانوں کی بداعمالیوں کو بھرپور طریقے سے اجاگر کیا جاتا ہے اور ان کردار کو اس طرح تنقیدی انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ سیاستدان ان کرداروں کے آئینے میں اپنے چہرے بھی دیکھ سکتے ہیں اور اپنے کردار کو درست کرنے کی ترغیب بھی حاصل کرسکتے ہیں، مثال کے طور پر ہماری سیاست سر سے پیر تک کرپشن کا شکار ہے، اگر اس موضوع پر اچھی کہانیوں کے ساتھ فلمیں بنائی جائیں تو یہ اصلاح کا ذریعہ بھی بن سکتی ہیں اور عوام میں مقبول بھی ہوسکتی ہیں لیکن ہم ابھی تک بشیرا اور گجرا سے آگے نہیں بڑھ سکے۔

جہاں تک اہل قلم کا تعلق ہے، بدقسمتی سے یہ کلاس بھی معاشرے میں بے توقیر ہی ہے، اس کی وجہ اگرچہ کہ سیاستدانوں کا منفی رویہ ہے لیکن اس حوالے سے خود اہل قلم کی اپنی کمزوریاں بھی ہیں، ملک کے بڑے بڑے ادبی اداروں پر ایسے افراد کا قبضہ ہے جو عموماً سرکاری دربار سے وابستہ ہیں اور اس قدر احساس کمتری کا شکار ہیں کہ قانون ساز اداروں میں جانے کے بارے میں سوچنے کی ہمت بھی نہیں کرسکتے، سیاستدان ایسے ہی افراد کی قدر کرتے ہیں جو ان کے لیے خطرہ نہ بن سکیں اور ان کے رنگین سیاسی محلوں میں خواجہ سرا بن کر رہ سکیں۔

ایسے دستور کو صبح بے نور کو، میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا کی آواز لگانے والوں سے سیاستدان اس قدر خو فزدہ رہتے ہیں کہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ایسے باغی سیاست سے دور ہی رہیں تاکہ سیاست پر سے ان کی اجارہ داری خطروں کی زد میں نہ آسکے، چونکہ باغی ادیب اور شاعر ان کے طبقاتی مفادات کے دشمن ہوتے ہیں اس لیے ایسے لوگوں کو کوئی سیاسی جماعت انتخابی ٹکٹ دیتی ہے نہ قانون ساز اداروں میں انھیں بھیجنے کا رسک لے سکتی ہے۔

ہمارے معاشروں میں حق مانگنے سے نہیں ملتا حق چھین کر لینا پڑتا ہے اور حق چھیننے کے لیے ''میں نہیں مانتا ''کی صدا لگانی پڑتی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارا ادیب اور شاعر بے شمار ٹکڑوں میں بٹا ہوا ہے، طبقاتی معاشروں میں حق مانگنے کے لیے ایک مضبوط پلیٹ فارم پر اکٹھے ہونا ضروری ہوتا ہے، اگر حق مانگنے والا طاقتور ہو تو حق دینے والا جھک کر حق دیتا ہے، اگر حق مانگنے والا کمزور ہو تو حق غصب کرنے والا حق مانگنے والے کی آواز کو ''صدائے درویش'' سمجھ کر رد کردیتا ہے۔ قانون ساز اداروں میں جانا فنکاروں اور قلمکاروں کا حق بھی ہے اورضرورت بھی لیکن اس کے لیے مانگنے کے بجائے چھیننے کی طاقت پیدا کرنی پڑے گی۔

مقبول خبریں