سی این جی اور سائیکل
دو دن پیٹرول پر گاڑی چلائی تو ہوش ٹھکانے آ گئے۔ ہزار کا نوٹ کب دھوئیں کی نذر ہوا،پتا ہی نہیں چلا۔
پچھلی سردیوں جب پنجاب میں سی این جی کی لوڈشیڈنگ کا اعلان ہوا توہمیں خیال آیا کہ جس حساب سے لوڈشیڈنگ کی اقسام میں اضافہ ہورہا ہے کہیں حکومت آکسیجن کی لوڈشیڈنگ بھی نہ شروع کردے۔لوڈشیڈنگ کی یہ وباء ایک ہی سال میں سندھ میں بھی پہنچ گئی اور وہ بھی عجیب انداز سے۔جب نومبر کے پہلے ہفتے میں جمعرات کو پہلی دفعہ دویوم کی لوڈشیڈنگ کا اعلان ہوا تو سی این جی اسٹیشن پر گاڑیوں کی قطاریں لگ گئیں۔اْس دن ہم نے کم قطار والے اسٹیشن کوبہت ڈھونڈا مگر لاحاصل ۔ خیر ہم نے بھی گاڑی قطار میں لگالی،ایک گھنٹے کے طویل انتظار کے بعد ہمارا نمبر بھی آہی گیا۔ سا تھ ہی ہم نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ آئندہ جمعرات کو دفتر جاتے ہوئے سی این جی بھروالیا کریں گے۔
اگلے ہفتے جمعرات کی بجائے بدھ کو ہی اعلان ہوگیا۔ پھر وہی جست جُوکہ نسبتًا کم قطار والے اسٹیشن سے سی این جی بھرائی جائے اور پھر وہی نتیجہ کہ گاڑی کو لمبی قطاروں کی نذر کرنا پڑا۔ یہاں ہم پر یہ بھید بھی کھلا کہ سی این جی کی ہفتے وار لوڈشیڈنگ کے دن مقرر نہیں، بلکہ حکومت کا متلعقہ محکمہ لوڈ شیڈنگ سے محض ایک دن قبل یہ خوش خبری سناکر عوام میں جوش وولولہ پیدا کیا کرے گا۔ اب ہم نے فیصلہ کیا کہ لوڈ شیڈنگ کے اعلان پرآئندہ خصوصی نظر رکھی جائے۔ لہٰذا موبائل پرنیوزالرٹ کی سہولت آن کرا لی۔
اگلے ہفتے بروز منگل دفتر میں وقفہ نمازوطعام کے دوران ہمیں سی این جی کی بندش کا ایس ایم ایس موصول ہوا۔ ہم کھانا کھا رہے تھے۔ جلدی جلدی دو چار بڑے بڑے نوالے حلق سے اتارے اور نکل کھڑے ہوئے سی این جی بھروانے۔ ہم جیسے ہی اسٹیشن پہنچے، ہمارا استقبال زبانِ حال سے اِن الفاظ میں کیا:
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے!
لمبی لمبی قطاریں لگ چکی تھیں۔ وہ چند نوالے ہمیں اِتنے مہنگے پڑ جائیں گے، ہمیں اِس کا اندازہ نہ تھا۔ چوں کہ دفتر سے زیادہ دیر تک غیرحاضر رہنا ہمارے اختیار میں نہ تھا، لہٰذا واپسی کی راہ لی اور عوام النّاس کو غائبانہ مخاطَب کرتے ہوئے کہا کہ کبھی اذان کی آواز پر مسجد میں اِتنی جلدی اکٹھے نہ ہوئے ہوں گے، جتنی پھرتی سے لوڈ شیڈنگ کا اعلان ہوتے ہی سی این جی اسٹیشن پر جمع ہو جاتے ہیں۔ دفتر سے واپسی پر پھر وہی شب ِغم،وہی جست جُو اورگھنٹے دو گھنٹے کا انتظار۔ خیر، ایک بات ہماری سمجھ میں آگئی کہ ہر ہفتے لوڈ شیڈنگ ایک دن پہلے کردی جاتی ہے۔
پیرکو دفتر جاتے ہوئے حفظِ ما تقدم کے تحت محض دس منٹ میں سی این جی بھروا لی۔ دن بھرلوڈ شیڈنگ کی اطّلاع کا انتظار رہا، مگر اطلاع نہ آئی۔ اگلا دن بھی خاموشی سے گزر گیا۔ تیسرے دن لوڈشیڈنگ کااعلان ہوا، یعنی ایک دن پیچھے کرنے کی بجائے اِس بار ایک دن آگے بڑھا دیا گیاتھا۔ لہٰذا پھر وہی جست جُو، مگر آج دفتر کی تھکن ہمارے ارادوں پر غالب آگئی اور ہم راستے کے آخری اسٹیشن کو حسرت بھری نگاہوں سے تکتے سیدھے گھر چلے گئے۔ کچھ دیر آرام کے بعد طبیعت نسبتًا بحال محسوس ہوئی توایک بار پھر قسمت آزمانے نکل کھڑے ہوئے۔ یہ دیکھ کر ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ سی این جی اسٹیشن پر رش کافی حد تک کم ہو چکا ہے۔ آدھے گھنٹے میں ہمارا نمبر آ گیا۔ بس ہم طے کر لیا کہ آئندہ کا لائحہ عمل یہی ہوگا۔ پورے ایک ہفتے بعد لوڈ شیڈنگ کا اعلان ہوا۔ چوں کہ ہم نے مسئلے کا حل کسی حد تک نکال لیا تھا، اِس لیے ایس ایم ایس سرسری طور پر پڑھ کر اپنے دفتری کاموں میں مصروف ہوگئے۔ واپسی میں ہلکی سی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے سی این جی اسٹیشن پر لگی گاڑیوں کی قطاروں پر تمسخر کی نگاہ ڈالتے ہوئے گھر پہنچے تومعلوم ہواکہ اِس بار تو رات 12بجے سے لوڈ شیڈنگ شروع ہو جائے گی۔ خبر سنتے ہی سی این جی اِسٹیشن پہنچے تو رات کے10بج رہے تھے ۔ قطاروں کی لمبائی وسعتِ نگاہ کو چھو رہی تھی۔ ہم نے اپنی گاڑی بھی اِس کہکشاں میں سجا دی، جس کی گردش پر سکوتِ بحر کا گمان ہوتا تھا۔ وقت گزرتا جا رہا تھا، لیکن ہمارا نمبر آنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ اب کش مکش یہ تھی کہ نمبر پہلے آتا ہے، یا بارہ پہلے بجتے ہیں۔ صرف دو گاڑیوں کی دوری تھی کہ بارہ بج گئے۔ گیس کی فراہمی روکنے میں اسٹیشن والے نے وقت کی پابندی کا ایسا ثبوت دیا، جس کی نظیر کم از کم پاکستان کی تاریخ میں تو ہمیں نہیں ملتی۔ لو گ جھگڑے، مگر اسٹیشن والے نے لچک نہ دکھائی۔
اِس بار تو نا مراد ہی لوٹنا پڑا۔ واپسی میں ہم خود کو قائل کرنے لگے کہ گاڑی پیٹرول پر بھی چلانی چاہیے۔ پیٹرول انجن کے لیے اچھا ہوتاہے۔ دو دن پیٹرول پر گاڑی چلائی تو ہوش ٹھکانے آ گئے۔ ہزار کا نوٹ کب دھوئیں کی نذر ہوا،پتا ہی نہیں چلا۔ اِسی اثنا میں جانے کیا ہوا کہ سی این جی کی قیمت پر کاری وار کردیا گیا۔ اِس خبر پر ہم ابھی خوش بھی نہ ہوئے تھے کہ سی این جی ڈیلرز ایسوسی ایشن نے ہڑتال کر کے زخموں پر نمک چھڑک دیا۔
آج صبح سی این جی کھلنی تھی۔ہم نے سوچ لیا تھا کہ چاہے دفتر کو دیر ہی کیوں نہ ہوجائے، سی این جی ضرور بھروائیں گے۔ گاڑی نکالنے کے لیے دروازہ کھولا اور وہ منظر دیکھا جس کو خوش طبع لوگوں نے 'دیوارِ چین' اور 'فیس بک سے بڑے سوشل نیٹ ورک' سے تعبیر کیا ہے۔ ہمارے گھر سے قریبی سی این جی اسٹیشن آدھے کلومیٹر کے فاصلے پر ہو گا۔ اُس پر لگی گاڑیوں کی قطاریں ہماری گلی کے موڑ کو چھو رہی تھیں۔ بس تحیّر و حزن کے عالم میں جا بجا قائم دیوارِ چین کے سائے سائے پیٹرول ہی پر دفتر پہنچے۔
پورا دسمبر حکومت، سی این جی ڈیلرز ایسوسی ایشن اور عوام آنکھ مچولی کھیلتے رہے۔ ہفتے میں تین دن سی این جی بند ہونا معمول ہو گیا۔سی این جی بھروانے کے لیے اوسطًا تین گھنٹے درکار ہو تے تھے۔ جہاں یہ لمبی قطاریں گاڑیوں اور بسوں کے مسافروں کے لیے بلاے جاں تھیں، وہیں یہ چائے، پان، ا خبار اور گاڑی کی آرائش کا سامان بیچنے والوں کے لیے بہترین مارکیٹ بھی تھیں۔ فقیروں نے بھی بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے۔
ہم بھی اپنی تمام تر تگڑموں کی ناکامی کے بعد اب راضی بہ رضا تھے، وقت گزاری کے لیے لتا، رفیع، غلام علی، عابدہ پروین، غرض اپنے پسندیدہ گلوکاروں کے بھولے بسرے تمام نغمے دورانِ انتظار کئی کئی بار سن ڈالے۔ اخبارات سے کالم پڑھنے، بلکہ ازبر کرنے کے مواقعے بھی نصیب ہوئے۔ سی این جی بھر وانے کے ہم نے نئے گر بھی دریافت کیے، مثلًا اسٹیشن پہنچتے ہی گیس پریشر جانچنا،اُس قطار میں لگنا جس میں رکشوں کی تعداد زیادہ ہو،کیوں کہ اُن کی ٹنکی جلدی بھر جاتی ہے، اُن سی این جی اسٹیشنوں کا انتخاب کرنا جو مصروف شاہراہوں پر اور سڑک سے نسبتًا قریب ہوں کہ وہاں بہت لمبی قطار لگ ہی نہیں پاتی، وغیرہ۔
جنوری کے وسط میں ہمیں گاڑی کا آئل تبدیل کرانے کا خیال آیا۔ گاڑی کی ٹیوننگ بھی کرالی۔ انجن کی آواز میں نمایاں کمی تھی۔ سیدھے اسٹیشن پہنچ کر سی این جی بھروا لی۔دو دن تک گاڑی چلاتے رہے، سی این جی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ تب ہمیں یہ احساس ہوا کہ گاڑی کا 'فیول ایوریج' جوبہت زیادہ بڑھا ہوا تھا اب صحیح ہو گیاہے۔ہمارا سینہ خوب چوڑا ہوگیا۔ مگر خبر یہ آئی کہ سی این جی کی ہفتے واردو دن بندش کی بجائے اب ایک مقررہ دن پر بندش کی جائے گی۔یہ خبرسن کر ہمیں اچانک پطرس بخاری کا شاہ کار مضمون ''مرحوم کی یاد میں''یاد آ گیا۔ ہمیں لگا کہ سی این جی کی لوڈ شیڈنگ نے ہماری گاڑی کو پطرس کی سائیکل بنا دیا تھا۔جس کی گدّی اور ہینڈل کبھی ہم آہنگ ہوکے نہ دیے۔
بہرحال ہم نے سکون کاسانس لیا کہ سردیوں کے جاتے ہی یہ بلا بھی ٹلی۔لیکن ہمیںکب معلوم تھا کہ سی این جی کی لوڈ شیڈنگ بھی ایک سائیکل بن جائے گی۔ کچھ دن بعد ہی گیس کے ذخائرکی کمی کے نام پرلوڈ شیڈنگ کے دن پھر بڑھادیئے گئے۔ ہفتے میں تین دن لوڈشیڈنگ ہونے لگی اور یہ تین دن ایسی ایسی ترتیبوں سے سامنے آئے کہ ماہرِشماریات بھی کان پکڑ لے۔ کبھی لگا تارتین دن توکبھی ایک ایک دن کے وقفے سے ، کبھی ہفتے کے شروع میں تو کبھی آخر میں، کبھی دن تو کبھی رات میں۔ اور اِس معاملے میں ہماری قیاس آرائیاں اِسٹاک ایکسچینج کے چھوٹے سرمایہ کار کی پیشن گوئیاں ثابت ہوئیں۔
دل چاہتا تھا کہ ایک سائیکل ہی خرید لوں کیوں کہ گاڑی جسمانی صحت کے لیے تومضر تھی ہی،اب اِس سے ذہنی صحت بھی متاثر ہورہی تھی ۔ مگر کراچی کے راستے ہمارے اِرادوں میںرکاوٹ تھے۔ پھر سوچا کہ سائیکل نہ سہی موٹر سائیکل ہی سہی ، لیکن پیٹرول کی بڑھتی قیمتیں موٹر سائیکل کو سی این جی گاڑی کے برابر لا کھڑا کرتیں ۔ہم نے پبلک ٹرانسپورٹ پر بھی غور کیا مگر بسیں بھی توسی این جی پر ہیں اور بسوں میں جو بھیڑ ہوتی ہے اْسے کون منہ دے گا۔
عوام بھی مسائل کی ایک سائیکل میں گِھرے ہیں،اْن میں کمی بیشی تو آتی ہے مگر چْھٹکارا ممکن نہیں۔یہی کمی بیشی ہماری چھوٹی چھوٹی خوشیاں اور چھوٹے چھوٹے غم ہیں۔